دہشت گرد سے ہیرو بننے تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی کہانی

دہشت گرد سے ہیرو بننے تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی کہانی آج کل میڈیا سمیت تمام پاکستانی قوم میں زیر بحث ہے۔لیکن پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ وزیراعظم پاکستان کا حالیہ دورہ امریکہ بے حد کامیاب رہا ہے۔ اس سلسلہ میں سب اہداف پورے کر لئے گئے ہیں۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس بات پر بھی اصرار کیا ہے کہ امریکہ کے مطالبے پر ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کا معاملہ پاکستانی عدالتوں میں زیر سماعت ہے۔وزارت خارجہ کے ترجمان اعتزاز احمد چوہدری نے جمعہ کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملہ کا بھی ذکر کیا اور قرار دیا کہ اس اہم قومی مسئلہ کو خاص طور سے وزیراعظم میاں نواز شریف نے امریکہ کے ساتھ اٹھایا ہے۔ اس حوالے سے یہ کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ امریکہ کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہو جائے تا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ سے پاکستان لانے کی راہ ہموار ہو سکے۔ اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزارت خارجہ کے ترجمان کو مؤقف تھا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے معاملہ کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے سوال کے ساتھ جوڑا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ دونوں مختلف نوعیت کے معاملات ہیں۔وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ خاص طور سے ڈاکٹر شکیل آفریدی کا معاملہ ابھی عدالتوں میں زیر غور ہے اس لئے انہیں رہا کرنا ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس حوالے سے مزید وضاحت نہیں کی ہے لیکن حقیقی صورتحال یہ ہے کہ اصولی طور پر یہ معاملات مختلف نہیں ہیں۔ امریکہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکی قوم کا ہیرو سمجھتا ہے کیونکہ انہوں نے اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے کے علاوہ اس کی شناخت کروانے میں امریکہ کی مدد کی تھی۔ یہ بات دنیا میں کسی سے مخفی نہیں ہے کہ امریکہ اسامہ بن لادن کو دنیا کا نمبر ایک دہشت گرد اور امریکہ کا دشمن قرار دیتا رہا ہے۔ اور کوئی ملک اس سے اختلاف بھی نہیں کرتا۔ امریکہ نے اسی لئے اسامہ کو ہلاک کرنے کے لئے تمام عالمی ضابطوں اور اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک انتہائی خطرناک مشن کے ذریعے پاکستان کے ایک شہر میں فوجی کارروائی کی تھی۔اس کے برعکس ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ القاعدہ کا دست و بازو اور دنیا کے 6 خطرناک ترین دہشت گردوں میں شمار کرتا ہے۔ عافیہ صدیقی کی انتہا پسندی اور دہشت گردوں سے رابطوں اور ان کے لئے کام کرنے کی گواہی اس خاتون کے سابقہ شوہر امجد محمد خان دے چکے ہیں۔ اکتوبر 2002ء میں طلاق سے پہلے بھی عافیہ کے پہلے شوہر نے ان کے والدین اور دیگر اہل خاندان کے پاس عافیہ صدیقی کی انتہا پسندی اور مشکوک سرگرمیوں کی شکایت کی تھی۔یہ خاتون 1990ء سے 2002ء تک امریکہ میں مقیم رہی۔ اس نے وہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کی لیکن اس دوران انتہا پسند اسلامی گروہوں کے ساتھ اس کے روابط بڑھے اور اس نے ان کے لئے کام کرنا شروع کر دیا۔ امریکہ کو یقین ہے کہ 9/11 کے حملوں کے لئے مالی وسائل فراہم کرنے میں بھی عافیہ صدیقی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے لئے کام کرتی رہی ہے۔

امریکہ نے تمام معلومات حاصل ہونے کے بعد 25 مارچ 2003ء کو عافیہ صدیقی کو تفتیش کے لئے طلب کیا۔ ان کے سابقہ شوہر امجد محمد خان کو بھی اس مقصد کے لئے طلب کیا گیا تھا۔ امجد نے امریکی حکام سے ملاقات کی اور ان کے سوالوں کے تسلی بخش جواب دئیے۔ جس کے بعد اسے اس معاملے سے علیحدہ کر دیا گیا۔ جبکہ عافیہ صدیقی نے امریکی شہری ہونے کے باوجود امریکی حکام کے سامنے پیش ہونے سے گریز کیا۔پاکستان میں قیام کے دوران 25 دسمبر 2002ء کو عافیہ صدیقی ایک ہفتے کے لئے امریکہ گئی تھی۔ امریکی حکام یہ سمجھتے ہیں کہ اس دورے کا مقصد القاعدہ کے لئے بعض معاملات طے کرنا تھا۔ فروری 2003ء میں عافیہ صدیقی نے عمار بلوچی نامی ایک شخص سے دوسری شادی کی۔ یہ شخص القاعدہ کا ہرکارہ اور 9/11 حملوں کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کا بھتیجا ہے۔ خالد شیخ یکم مارچ 2003ء کو پاکستان سے گرفتار ہؤا تھا اور اس کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر ہی عافیہ صدیقی کے خلاف شبہات کو تقویت حاصل ہوئی تھی۔عافیہ صدیقی نے اپنے سابقہ شوہر امجد محمد خان کی طرح امریکی حکام سے تعاون کرنے کی بجائے روپوش ہو جانے میں عافیت سمجھی اور وہ مارچ 2003ء میں کراچی سے روپوش ہو گئی۔ اسے 5 برس بعد جولائی 2008ء میں افغانستان سے افغان پولیس نے گرفتار کیا۔ اس کے قبضہ سے بم بنانے ، دیگر مہلک ہتھیار تیار کرنے کی تراکیب کے علاوہ خطرناک مواد بھی ملا تھا۔ افغان پولیس نے اسے امریکی حکام کے حوالے کیا۔امریکی افسروں سے پوچھ گچھ کے دوران عافیہ صدیقی نے ایک افسر کا ریوالور چھین کر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ جوابی حملہ میں اسے شدید زخمی کر دیا گیا اور بعد میں طویل علاج کے بعد اس پر نیویارک کی ایک عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ یہ مقدمہ تفتیشی افسروں پر حملہ کرنے کے الزام میں تھا۔ اسے اس جرم میں 86 برس قید کی سزا دی گئی۔ امریکی حکام دہشت گردی کے الزام میں عافیہ صدیقی پر مقدمہ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ دوران تفتیش عافیہ صدیقی کے زخمی ہونے یا 2003ء سے 2008ء کے درمیان 5 برس غائب رہنے کے بارے میں امریکہ اور عافیہ صدیقی کے اہل خاندان کی کہانی مختلف ہے۔امریکہ کا کہنا ہے کہ عافیہ صدیقی از خود روپوش ہوئی تھی اور اس دوران وہ دہشت گردوں کے لئے کام کرتی رہی۔ گرفتاری کے وقت بھی وہ القاعدہ کے لئے کام کر رہی تھی۔ اس لئے مشکوک حرکات پر اتفاقاً اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے برعکس عافیہ کے خاندان کا کہنا ہے کہ اسے پاکستانی اور امریکی خفیہ ایجنسیوں نے اغوا کیا تھا اور 5 برس تک حبس بے جا میں رکھا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس حوالے سے عافیہ کے ہمدردوں کی جانب سے متعدد کہانیاں جاری کی گئی ہیں لیکن ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آ سکا۔

اس اختلاف کے باوجود عافیہ صدیقی کے ہمدرد اس بات کو مسترد کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ وہ انتہا پسند گروہوں کے لئے کام کرتی رہی ہے۔ اس کے سابقہ شوہر نے اس حوالے سے دوٹوک گواہی دی ہے۔ عافیہ کے سگے ماموں نے ایک بیان حلفی میں اقرار کیا ہے کہ ان 5 برسوں کے دوران جب وہ اہل خاندان کے بقول خفیہ ایجنسیوں کی تحویل میں تھی اسلام آباد میں اپنے ماموں سے ملنے آئی تھی اور اس کی والدہ نے بھی وہاں آکر اس سے ملاقات کی تھی۔ بعض دوسرے گواہوں نے یہ بتایا ہے کہ اس دوران وہ مختلف شہروں میں دیکھی گئی تھی۔ان سب حالات سے کچھ اور نہ بھی ثابت ہو تو بھی یہ تو ضرور پتہ چلتا ہے کہ عافیہ صدیقی ایک مشکوک کردار کی حامل خاتون ہے اور انتہا پسندوں کے ساتھ اپنے روابطہ کی وجہ سے اس نے اپنے 3 بچوں کے باپ اور سابقہ شوہر سے طلاق لے کر القاعدہ کے ایک سرگرم رکن کے ساتھ شادی کر لی تھی۔ اس کے باوجود پاکستان میں انتہا پسند مذہبی گروہوں پر مشتمل لابی نے گزشتہ چند برس کے دوران عافیہ صدیقی کے سوال پر اتنا جھوٹا سچا پروپیگنڈا کیا ہے کہ اب اسے کوئی سوال اٹھائے بغیر قومی ہیرو کا درجہ دیا جا چکا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اسی پس منظر میں پاکستان کے وزیراعظم نے صدر باراک اوباما کے ساتھ اپنی اہم ملاقات میں اس سوال کو اٹھانا مناسب سمجھا۔ اگرچہ وہائٹ ہاؤس نے اس بات کی تردید کی ہے کہ عافیہ صدیقی کے مسئلہ پر دونوں لیڈروں میں کوئی بات ہوئی ہے۔ لیکن پاکستان کی وزارت خارجہ بدستور اصرار کر رہی ہے کہ اس ملاقات میں یہ معاملہ اٹھایا گیا تھا۔ ایسے میں یہ سمجھ لینا آسان ہے کہ امریکہ کے نزدیک عافیہ صدیقی کو قید رکھنا اور شکیل آفریدی کو رہا کروانا ایک ہی کہانی کے دو مختلف حصوں کی حثیت رکھتے ہیں۔حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کے سیاسی لیڈر اپنی قوم کو حقیقی صورتحال سے آگاہ کرنے اور گمراہی سے بچانے کی کوشش کرنے کی بجائے میڈیا اور دیگر ذرائع سے مقبول بنائے جانے والے معاملات کو تسلیم کر کے ان کی وکالت کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ایک مجرمانہ مشتبہ ماضی کی حامل خاتون کو پاکستان کے قومی مفادات سے جوڑنا اور اسے اہم معاملہ قرار دینا بھی پاکستانی لیڈروں کی اسی عاقبت نااندیشی کا نتیجہ ہے۔

Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 272 Articles with 201514 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.