وزیراعظم محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ دہشت گردوں،
بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلرز اور شہریوں کے حقوق غصب کرنیوالوں کیساتھ آہنی
ہاتھوں سے نمٹا جائیگا، پنجاب میں انسداد دہشت گردی فورس کیلئے ڈھانچے کو
جتنی جلد فعال کیا جائے یہ بہتر ہوگا۔ اس فورس میں پولیس ہی سے لوگ لئے
جائیں گے۔ پنجاب انسداد دہشت گردی فورس ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کیخلاف
کارروائی کرے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے انسداد دہشت گردی فورس کے قیام
کے حوالے سے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں وزیراعلی پنجاب شہباز
شریف، چیف سیکرٹری پنجاب، ہوم سیکرٹری۔ وزیراعظم نوازشریف کو اس موقع پر
پنجاب انسداد دہشت گردی فورس کے قیام کے حوالے سے اب تک ہونیوالی پیشرفت کے
بارے میں بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم نے انسداد دہشت گردی فورس کے قیام کے
حوالے سے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا اور ہدایت کی کہ نئی فورس میں
اعلی پیشہ وارانہ معیار قائم کیا جائے، بہترین تنخواہیں دی جائیں۔ ریاست کے
خلاف جرائم کرنیوالوں سے قانون کے مطابق نمٹا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ قاتل
اور بھتہ خور جان لیں نئے قوانین مختلف اور سخت ہیں، دہشت گردوں کے خلاف
کارروائی میں آئینی تقاضوں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم
دہشت گردوں کو بھی وہ حقوق دیں گے جو دہشت گرد دوسروں کو دینے کیلئے تیار
نہیں تاکہ انہیں آزادی کی قیمت معلوم ہوسکے۔ قانون کی عملداری کو ہر صورت
یقینی بنایا جائے گا۔ جرائم پیشہ افراد کو اس وقت پکڑا جائیگا جب وہ اس کی
منصوبہ بندی کر رہے ہوں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ریاست کو اپنے شہریوں کے
تحفظ کیلئے پیشگی اقدامات کرنے کا حق حاصل ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ نئی فورس
فوری طور پر تشکیل دی جائے، اس کی کمان کیلئے نیا سٹرکچر بنایا جائے۔ فورس
کو پیشہ وارانہ اہلیت کی حامل ہونا چاہئے۔ اس کے اہلکاروں کو مناسب معاوضہ
دیا جائے۔ وزیراعظم نے توقع ظاہر کی کہ نئی فورس ٹارگٹ کلرز اور قانون
شکنوں کے خاتمہ میں مدد دیگی۔ قانون نافذ کرنیوالے ادارے سنگین جرائم کے
حوالے سے عدم برداشت اپنائیں، ہم نے نیا قانون بنایا ہے جس کے تحت آئین کے
دائرہ میں رہتے ہوئے ریاست کے دشمنوں سے نمٹا جائیگا۔ اس قانون کے تحت دہشت
گردوں، ٹارگٹ کلرز سے نمٹا جائیگا۔ اگر دہشت گردوں اور قاتلوں کو لفظ آزادی
کا پتہ ہے تو انہیں نئے قانون کے تحت اس لفظ کے مطلب کا بھی معلوم ہوجائیگا۔
ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ افراد کو سمجھ لینا چاہئے کہ اس طرح کی جنگ
کیلئے قوانین مختلف اور سخت ہوتے ہیں۔
عید کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے جن حالات میں حکومت
سنبھالی ہے وہ پاکستان پر بہت مشکل وقت ہے دنیا کی قوموں میں ہم بہت نیچے
نمبروں پر ہیں لیکن ہم نے پاکستان کو سب سے اوپر نمبر پر لانا ہے۔ پاکستان
پر جس طرح مشکل وقت ہے لوگوں کو بھی بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے اور وہ
آسانیاں چاہتے ہیں وہ ریلیف چاہتے ہیں میرا دل بھی چاہتا ہے اپنی قوم کو
خوشحالی کی دولت سے مالا مال کروں انہیں ریلیف دوں میں یہ کام برسوں کی
بجائے چند دنوں میں کرنا چاہتا ہوں۔ ہم امن اور سکون قائم کرنا چاہتے ہیں
ہم نے بڑے بڑے معاملات پر ہاتھ ڈالا ہے۔ یہ وہ کام ہیں جو دس سال پہلے کرنے
چاہئیں تھے۔ مشرف حکومت اور زرداری حکومت نے مسائل کی آنکھوں میں آنکھیں
ڈال کر انہیں حل کرنے کی کوشش کی ہوتی تو پاکستان آج کے حالات سے دوچار نہ
ہوتا۔ افسوس پچھلے دور حکومت میں بھی بجلی، دہشت گردی، غربت اور بیروزگاری
کے خاتمے کے لئے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی۔ مشرف جو مسائل چھوڑ کر گئے
تھے ان میں اضافہ ہوا۔ مشرف اور زرداری ادوار میں ڈنگ ٹپاو پالیسیاں بنائی
گئیں جن سے پاکستان گھمبیر مسائل سے دوچار ہو گیا۔ ہمارے سامنے دو راستے
تھے ایک ہم بھی وقت گزاری والی پالیسیاں اپناتے اور واہ واہ سمیٹتے مگر اس
کا پاکستان کو اگلے پانچ سال بعد بہت زیادہ نقصان پہنچنا تھا۔ ہم نے دوسرا
راستہ اپنایا کہ مسائل سے نبرد آزما ہوا جائے آخر کسی نہ کسی نے تو پاکستان
کو درپیش مسائل مشکلات سے نمٹنا تھا۔ انشااﷲ تعالی ہم قوم کی مصیبتیں ختم
کریں گے ہم نے حکومت سنبھالنے کے چند روز بعد ہی کراچی کے مسئلے پر ہاتھ
ڈالا ہے جس پر دس سال آنکھیں بند کی گئیں کراچی میں امن قائم ہو گا لوگ
باآسانی کاروبار کر سکیں گے تو ان کی زندگی آسان ہو جائے گی۔ خودکش دھماکے
ختم کرنے کے لئے تمام پارٹیوں کو بلایا اور اتفاق رائے سے فیصلہ ہوا کہ
پہلے بات چیت کا راستہ اپنایا جائے آج اس پر عمل ہو رہا ہے اﷲ اس راستے پر
ہمیں کامیابی سے ہمکنار کرے۔ پھر ہم نے بجلی پر ہاتھ ڈالا یہ تین ماہ میں
حل ہونے والا مسئلہ نہیں بلکہ سنگین مسئلہ ہے جو راتوں رات حل نہیں ہو سکتا
اس کے لئے وقت اور محنت درکار ہے۔۔ ہم چاہتے ہیں ملک میں صنعتیں لگیں، یہاں
سرمایہ کاری ہو لوگوں کو روزگار ملے اور حکومت کو ٹیکس ملے گا، برآمدات
بڑھیں گی، ہمیں غیر ملکیوں پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔ ہم دنوں میں سخت
قانون لانے والے ہیں جس کے ذریعے جرائم پیشہ افراد سے نمٹا جائے گا۔ انہوں
نے سوال کیا کہ درجنوں افراد کو موت کی نیند سلانے والوں کو سزا ملنی چاہئے
کہ نہیں۔ حاضرین نے یک آواز ہو کر جواب دیا کہ سزا ملنی چاہئے۔ نوازشریف نے
کہا بیگناہ افراد کو دہشت گردی سے موت کے گھاٹ اتارنے والوں کو سزا ملنی
چاہئے ضمانت پر نہیں چھوڑ دینا چاہئے، ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ مجرم کا
تعلق خواہ کسی پارٹی کے ساتھ ہو بلا امتیاز قانون پر عمل ہونا چاہئے۔ یہ
پہلی حکومت ہے جس نے اس معاملے کا نوٹس لیا ہے۔ انہوں نے بجلی کی قیمتوں
میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ بہت بوجھل دل کے ساتھ کیا ہے
قیمت میں اضافہ ناگزیر تھا۔ میں عام آدمی کے مسائل بڑھانا نہیں چاہتا۔ بجلی
کی قیمت بڑھانے پر میں بہت افسردہ ہوں مگر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
بجلی چوری کا خاتمہ اور نئے کارخانے لگنے پر ایک دن آئے گا کہ ہم بجلی کی
قیمتیں کم کریں گے۔ ہمارے ارادے اور عزم بلند ہے ہمیں تیزی سے کام کرنا ہو
گا۔ صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔ ورغلانے والوں کی باتوں میں آپ
نے نہیں آنا، کمر باندھ کر میرا ساتھ دیں میں آپ کا ساتھ دوں گا اور اﷲ
ہمارا ساتھ دے گا۔ اﷲ نے ہمیں الیکشن میں اتنی اکثریت دی کہ ہماری پارٹی نے
حکومت بنائی یہ اﷲ کی حکمت ہے اور اﷲ ہم سے کام لینا چاہتا ہے انشااﷲ
کامیابی ہو گی۔ بجلی بحران پر قابو پانے اور دہشت گردی کے خاتمے سے ہی
سرمایہ کاری ممکن ہو سکے گی۔ قوم اپنے پاں پر کھڑا ہونے کی صلاحیت رکھتی
ہے، ہمارے دور اقتدار میں بجلی کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل ہو جائے گا،
بدامنی کے خاتمے کے لئے سخت گیر فیصلے کرنا ہوں گے۔ |