پاکستان کی “ترقی“ میں ترکی کا کردار

ایک وقت تھا جب عالمی سیاست کی قیادت ترکی کے ہاتھ میں تھی ،جب وہ عالمی طاقت کی حیثیت سے خلافت عثمانیہ کا مرکز تھا، جسے سلطنت عثمانیہ کے نام سے بھی عموماً پہچانا جاتا ہے، اگر چہ اپنی فوجی قوت کی وجہ سے خلافت عثمانیہ کایورپ کے تمام ممالک پر ایسا رعب ودبدبہ تھا کہ جس ملک کی طرف اُس کا رُخ ہوتا وہاں کے حکمرانوں کا خوف کے مارے بُرا حال ہوتا،تاہم اپنے آخری دور میں خلافت عثمانیہ ایسا فکری انحطاط کا شکار ہوئی کہ وہی یورپ برطانیہ کی سرکردگی میں اُس کے حصے بکھرے کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ مسلمانوں کا فکری انحطاط کا شکار ہونا اِس وجہ سے ممکن ہوا جب اُنہوں نے اسلام کے تصورات کو پس پشت ڈالتے ہوئے مغربی تصورات کو اپنانا شروع کیا ، مغرب قومیت کے زہر کو ترک اور عرب مسلمانوں کے اذہان میں شامل کرنے اور اسلام کو ایک آئیڈیالوجی کے مرتبے سے اتار کر مذہب کی حیثیت دینے اور اُسے ریاست کے معاملات سے بے دخل کرنے کے سیکولر نظریے کو منوانے میں کسی حد تک کامیاب ہوگیا۔ مغرب اِن تصورات کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی آڑ میں ہی مسلمانوں کے درمیان لانے میں کامیاب ہوسکااور جس کا انجام خلافت اسلامیہ کے خاتمے کی صورت میں دیکھنے کو ملا۔ مغرب کی اِس کامیابی میں اہم کردار مصطفی کمال اتاترک کاتھاجس نے خلافت کے خاتمے کا ناصرف اعلان کیا بلکہ ترکی کے لوگوں کو زبردستی سیکولر بنانے کے لیے تمام حربے استعمال کئے۔ حجاب پر پابندی لگائی اور دیگر اسلامی شعائر کا مذاق اڑایاجبکہ اُس کے آقا برطانیہ نے مصطفی کمال کو دنیا کے سامنے ایک ہیرو کے طور پر پیش کیاکہ جس کی تقلید کی جانی چاہیے ، اپنے مقصد کے حصول کی خاطر اُس نے اپنے تمام اسلوب جن میں ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعے حکومتی وسائل کا استعمال سب سے اہم ہے کا استعمال کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی درسی کتب میں بھی مصطفی کمال کو ایک ہیرو کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ پاکستان میں ترکی کا ذکر عموماً دو واقعات کے ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے اور دونوں کا تعلق خلافت عثمانیہ کے ساتھ ہے ، ایک خلافت کے خاتمے کے بعد جدید ترکی کا ہیرو مصطفی کمال اتاترک اور ترقی کے نام پر ترکی کے مسلمانوں کے دلوں سے اسلام کو کھرچ ڈالنے کے لیے اُس کی نام نہاد سیکولرازم پر مبنی معاشرتی اصلاحات اور دوسراترکی میں موجود خلافت کو بچانے کے لیے برصغیر میں برپا ہونے والی ’’تحریک خلافت‘‘کا واقعہ ۔ پچھلے کچھ سالوں میں ترکی کی پہچان کی تیسری وجہ بھی لوگوں کے سامنے آئی ہے اور وہ ہے شہباز شریف حکومت کا ترکی کی ’’ترقی‘‘کو پاکستان کے لیے رول ماڈل بنانے کی کوششیں۔چنانچہ میٹرو بس اور لاہور کی صفائی ستھرائی کے لیے ترکی کے حکمران بار بار پاکستان آرہے ہیں۔ پاکستان کی سڑکوں پر ترکی کے جھنڈے آویزاں ہوتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ترکی کی حکومت پاکستان کی ’’ترقی‘‘ کے لیے نہایت فکر مند ہے۔ تاہم اِس دوران پاکستان میں جس وجہ سے ترکی کا نام ہر زبان پر ازبر ہوچکا ہے وہ ترکی کے حیا باختہ ٹی وی ڈرامے اور فلمیں ہیں۔ ہمارے حکمران خصوصاً شریف برادران ترکی کی بے مثال’’ ترقی‘‘ کے دیوانے ہیں اور ہر دوسرے دن پاکستان کو اُس بلندی تک پہنچانے کے بیان جاری کررہے ہوتے ہیں جہاں آج ترکی موجود ہے۔ آخر ترکی کیسا رول ماڈل ہے؟ کہ جس کی تقلید کی جانی چاہیے۔ اِس کو سمجھنے کے لیے ایک مغربی مصنف سٹیفن کنزر(Stephen Kinzer)کا ایک انٹرویو قابل ذکر ہے ، سٹیفن کنزروہی مصنف ہیں جنہوں نے ترکی کے حوالے سے ایک کتاب Crescent and Star: Turkey Between Two Worlds.تصنیف کی ہے؛ وہ اپنے انٹرویو، جو 3جولائی 2002کو PBSٹیلی ویژن کے پروگرام Think Tank with Ben Wattenbergمیں دیا گیا،میں کہتے ہیں کہ’’میں کہنا چاہتا ہوں کہ ترکی جمہوریت کی طرف اپنا سفر مکمل کرچکا ہے اور اب مکمل طور پر اِس قابل ہے کہ اسلامی دنیا کے لیے ایک مینارِ نور کی حیثیت اختیار کرے۔ یہ ملک ایک ایسی مقناطیسی قوت کا حامل بن سکتا ہے جو اسلامی ممالک سے بنیاد پرستی کو ختم کرسکتا ہے اور اُنہیں کہے کہ ’’ہمارے جیسا بنو۔ ہمارے سیکولرماڈل کو اختیار کرلوتو تم وہ ترقی اور کامیابی حاصل کرسکتے ہو جو ہم نے حاصل کی‘‘ ایک اور سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ ’’(سیاسی طور پر)ترکی میں اِس بات پر عام اتفاق ہے کہ ترکی کے تمام تر مسائل اور اُن کے حل کی گفت وشنید میں سیکولرازم ہی کو بنیاد بنایا جائے گا۔‘‘ یہ ہے سیکولرازم کا ایجنڈا جسے پاکستان میں عام لوگوں کے دل ودماغ میں بٹھانے کے لیے ترکی کا سہارا لیا جارہا ہے۔ یہ کام پہلے انڈیا کے ڈراموں کے ذریعے لینے کی کوشش کی جارہی تھی تاہم انڈیا کے ڈرامے دیکھنے کے باوجود ہمارے ہاں ہندؤں کی نفرت کو مٹایا نہیں جاسکا۔ اِس لیے ایک ہندو کا شراب پینا، زنا کرنا بہر حال ہندؤں کا عمل گردانا جاتا تھا تاہم ترکی کے ڈراموں کے ذریعے یہ دہرا فائدہ حاصل ہورہا ہے کہ نائٹ بار میں جاکر شراب سے لطف اندوز ہونے والے مسلمان ہیں، مرد اور عورت کی دوستی ، اُن کا زنا کرنااور عورتوں کے حیا باختہ لباس کو ایسے دیکھایا جارہا ہے کہ یہ ’’ترقی یافتہ‘‘ترکی کے مسلمانوں کا عام معمول ہے۔ اور جو پیغام اِس کے ذریعے پاکستان کے مسلمانوں کودیا جارہا ہے وہ یہی ہے کہ ’’ہمارے جیسا بنو۔ ہمارے سیکولرماڈل کو اختیار کرلوتو تم وہ ترقی اور کامیابی حاصل کرسکتے ہو جو ہم نے حاصل کی‘‘یہی ہے وہ ’’ترقی‘‘ جسے ہمارے حکمران پاکستان میں لانا چاہ رہے ہیں۔ اور بالکل ماضی کی طرح یہ سب بلندو بالا فلائی اوورز اور سٹرکوں پر دوڑتی صفائی کی گاڑیوں کی آڑ میں کیا جارہا ہے اور اِس کے ذریعے آج کے حکمران سیکولر ازم کے اُس پودے کو پختہ کرنے میں دن رات ایک کئے ہوئے جس کے بیج مغرب نے خلافت کے خاتمے کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان بوئے تھے۔

saleem sethi
About the Author: saleem sethi Read More Articles by saleem sethi: 7 Articles with 6661 views Lahore Based Journalist.. View More