حکمرانوںنے عام آدمی کوناقابل برداشت بوجھ تلے دبادیا

 عالمی اقتصادی نظام نے ترقی پذیر اور غریب ممالک کو جس جبر میں جکڑا ہے ' اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب غریب ممالک کو ایک کمپنی اور ایک دکان کی طرح چلانا پڑتا ہے چنانچہ حکومت اپنا کاروبارمنافع بخش ثابت کرنے کے لئے فوری اور آسان راستہ یہ تلاش کرتی ہے کہ '' عام آدمی'' یا ''عوام'' کے منہ کا نوالہ چھین لے یوں ملکی ترقی کی شرح میں اضافہ دکھایا جاسکتا ہے۔ ورلڈ بینک ' آئی ایم ایف یا غیر ملکی سرمایہ کار کو عام آدمی کا خالی پیٹ نظر نہیں آسکتا ہم ہر سال بجٹ کے موقع پر سنتے ہیں کہ ترقی پانچ فیصد رہی پھر چھ اور اب تو سات ساڑھے ساتھ فیصد تک بتائی جاتی ہے لیکن یہ ایک ایسی ''ترقی'' ہے جسے دیکھ کر عام آدمی ''ترقی'' کی اصطلاح کا مفہوم ہی نہیں سمجھ پاتا پاکستان میں عام آدمی کے مسائل کی بات ہوتی ہے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ عام آدمی کی کون سی نسل ایسی ہوگی جس کے دن بدلیں گے حکومتوں نے عام آدمی کو تیل ' بجلی اور گیس کی قیمتیں مسلسل بڑھاکر ناقابل برداشت بوجھ تلے دبادیااقوام متحدہ کے غربت میں کمی کے پروگرام کے تحت پاکستان نے 2015ء تک غربت میں 50 فیصد کمی کرنا تھی ' لیکن کسی بھی طرح کے اعداد و شمار کے ذریعے یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا' یعنی فی الوقت یہ مقصد حاصل کرنے کیلئے درکار حکمت عملی پر کام ہی شروع نہیں ہوا۔ اقتصادی ترقی کے فوائد عام لوگوں تک پہنچانے کیلئے صنعتی ترقی ضروری ہے پیٹرولیم اور بجلی کی قیمتوں میں کمی عام آدمی کی حالت بہتر بنانے اور صنعتوں کو فروغ دینے کیلئے ضروری ہے کہ سرمایہ کا ر کا رخ صنعتوں کی جانب موڑنے کے لئے بجلی اور پیٹرول کے نرخ کم کرنا ناگزیر ہے ورنہ عوام بھوک اور جرائم کے بوجھ تلے دب جائیں گے 'روزگار کے مواقع پیدا کئے بغیر غربت میں کمی ناممکن ہے ' اس کیلئے صنعتیں لگانا اور مہنگائی کو کنٹرول کرنا ضروری ہے جو حکومت پیدا کرتی ہے یعنی بجلی اور پیٹرول کی مہنگائی 'یہ وہ مہنگائی ہے جس سے عام آدمی کے چولہے کی آگ ٹھنڈی ہوجاتی ہے اور پیٹ کی آگ بھڑک اٹھتی ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دیہات میں غربت اور بے روزگاری کی صورتحال زیادہ خراب ہے لیکن اس آبادی کا بوجھ بھی شہروں پرآجاتا ہے ہماری دیہی آبادی جو زراعت پر گزر بسر کی عادی ہے اور ٹیکنیکل تعلیم سے بے بہرہ ہے شہر میں آکر ناگفتہ بہہ حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے دوسری جانب شہروں کی مڈل کلاس مہنگائی کی تباہی سے دو چار ہے اور اب مڈل کلاس کی اصطلاح کا مفہوم بھی تبدیل ہوچکا ہے کیونکہ یہ کلاس سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے میں ناکام ہوکر اپنی اقدار کو پس پشت ڈالنے پرمجبور ہورہی ہے اگر مہنگائی کے عفریت کو قید نہ کیا گیا تو یہ جلد ہی معاشرہ کی اچھی اقدار کو ہڑپ کرلے گا۔ عام آدمی کو جینے کے مواقع فراہم کرنا اور معیشت کو مستحکم کرنے اور رکھنے کیلئے ابھی بنیادی کام کرنے باقی ہیں مثلاً جو پل ' سڑکیں اور راستے برسوں پہلے بن جانے چاہیئے تھے وہ اب تک نہیں بنے۔ سستی بجلی حاصل کرنے کا خواب ابھی تک تعبیر سے محروم ہے ۔ پانی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جو ہنگائی بنیادوں پر حل کا تقاضا کرتا ہے ۔ ملکی معیشت کی بہتری کا یہ فائدہ تو ہونا چاہئے کہ ہنگامی طور پر انفراسٹرکچر بنایا جائے۔ عام آدمی کو ایک خواب یہ بھی دکھایا جاتا ہے کہ جلد ہی ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا سیلاب آئے گا اور حالات راتوں رات بدل جائیں گے صنعتیں لگانے اور سرمایہ کاری کیلئے بھی ضروری ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر ہنرمند کارکنوں کی کھیپ تیار کی جائے زرعی معیشت کو صنعتی معیشت اور ثقافت میں تبدیل کرنا ناگزیر ہے پاکستان کی پوری تاریخ میں کسی حکومت کے بارے میں اس نے عام آدمی کے مفاد کو پیش نظر رکھ کر پالیسیاں بنائی ہوں گزشتہ چند برسوں کے دوران ملک میں غربت بڑھی ہے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ غربت سے نچلا طبقہ ہی نہیں بلکہ متوسط طبقہ بھی شدید طور پر متاثرہ ہوتا ہے۔قیمتوں میں اضافہ ایک شیطانی چکر ہے۔ غربت ' مہنگائی اور افراط زر کو کم کرنے کیلئے کثیرالجہتی حکمت عملی درکار ہے ۔ مہنگائی ہوتی ہے تو افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے ۔ غربت اور محرومی بڑھتی ہے تو جرائم میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ دہشت گری سے قطع نظر گزشتہ دو برسوں کے دوران ملک بھر خصوصاً شہروں میں جرائم کی شرح بے حد بڑھ گئی ہے۔دیہات میں غربت کے مسائل اپنی جگہ لیکن دیہی آبادی کو پناہ دینے والے بڑے شہروں کی حالت ناگفتہ بہہ ہوتی جارہی ہے' بے روزگاری ' معاشی ابتری ' مایوسی اور محرومی جرائم کو روزگار بنادیتی ہے ۔ ایک بڑی بدنصیبی یہ ہوئی کہ ملک میں تعلیم کے ساتھ تربیت کے ادارے بھی مفقود ہوگئے ۔ گھروں کے سربراہ ضروریات پوری کرنے کی دوڑ میں اتنے ہانپ گئے ہیں کہ بچوں کی تربیت ان کی ترجیح نہیں رہی۔ انسانی رشتوں اور تعلق کو غیر ملکی چینلز کی بھر مار کے ساتھ ملکی چلینلز نے بھی یوں کمزور کیا ہے کہ لوگوں کے پاس ایک دوسرے کیلئے وقت ہی نہیں رہا۔ چینلز کی'' سستی تفریح اور فحاشی پھیلاؤ مہم'' نے معاشرہ میں توانا تخلیقی سرگرمیوں کے فقدان سے پیدا ہونے والا خلاء یوں ''پر'' کیا کہ تربیت سے محروم ذہن' وقتی لذت کے نشے سے ''سرشار'' ہوگئے ۔ انہوں نے مغربی ممالک سے اعلیٰ انسانی اقدار ' قانون کی پاسداری اور بامقصد زندگی گزارنے کا ''مشکل'' سبق سیکھنے سے بہتر سمجھا کہ ان کی مادہ پرستی کو اپنانے کیلئے شارٹ کٹ اختیار کرلیا جائے۔ معاشرہ تضادات سے پر ہے ۔ شہری اور دیہی آبادی میں پسماندگی کا طویل ترین وقفہ ہے' معیار تعلیم میں حائل خلیج بہت گہری ہے ' معیار زندگی کا فرق بے حد زیادہ ہے ' قول و فعل کے تضادات کو معمولات زندگی سمجھ لیا گیا ہے جبر ناقابل برداشت ہے اور کہیں آزادی بے انتہا ہے ۔ ایسے تضادات میں پروان چڑھنے والی کوئی بھی نسل اگر متوازن رہ جائے تو اسے اللہ کا انعام سمجھنا چاہئے۔ایسے حالات میںتواقتدار کے تحفظ میں سرگرداں حکمرانوں سے توکوئی توقع بھی نہیں کی جاسکتی اس لیے ہر شعبے میں اصلاح احوال کا درد ' دل میں رکھنے والوں کو کھل کر آگے آنا ہوگا کیونکہ صرف باتوں سے اصلاح ممکن نہیںاور علامہ اقبال نے اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی جہنم تو بن چکی ہے اب اسے جنت بنانے کے لیے عمل کی ضرورت ہے اور اگر آج بھی ہم اسے جنت بنانے کے لیے آگے نہ اائے تو پھر تباہی وبربادی سے ہمیں کوئی نہیں بچاسکے گا۔
SULTAN HUSSAIN
About the Author: SULTAN HUSSAIN Read More Articles by SULTAN HUSSAIN: 52 Articles with 41576 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.