امریکہ کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی
سے وابستہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر ایڈورڈ سنوڈن نے یہ انکشاف کرکے
امریکہ سمیت پوری دنیا کو ہلا دیا ہے کہ امریکہ کی حکومت اتنے بڑے پیمانے
پر امریکیوں کی جاسوسی کررہی ہے کہ امریکہ میں فرد کی نجی زندگی کا وجود ہی
نہیں رہا۔ اس لیے کہ امریکہ کی حکومت اپنے شہریوں کی ڈاک پڑھ رہی ہے، ٹیلی
فون کالز سن رہی ہے، ان کی ای میلز ملاحظہ کررہی ہے۔گارڈین اخبار کے مطابق
اس پروگرام کی معلومات ظاہر کرنے والا شخص انتیس سالہ ایڈورڈ سنوڈن ہے جو
امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سابق ٹیکنیکل اسسٹنٹ ہیں۔اس وقت وہ ڈیفنس
کنٹریکٹر بوز ایلن ہیملٹن کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ایڈورڈ نے برطانوی اخبار
کو بتایا کہ وہ بیس مئی کو ہانگ کانگ گئے تھے جہاں انہوں نے اپنے آپ کو ایک
ہوٹل میں بند کرلیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ’میں ایسے معاشرے میں نہیں رہنا
چاہتا جہاں اس قسم کا کام کیا جائے۔۔۔ میں ایسی دنیا میں نہیں رہنا چاہتا
جہاں ہر وہ چیز جو میں کروں یا کہوں اس کو ریکارڈ کیا جائے۔‘ برطانوی اخبار
گارڈین نے اپنی خبر میں بتایا کہ امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی بڑے پیمانے
پر فون اور انٹرنیٹ کی نگرانی کر رہی ہے۔اخبار کے مطابق امریکی خفیہ ایجنسی
کے اس پروگرام کے ذریعے لوگوں کی ذاتی ویڈیوز، تصاویر اور ای میلز تک نکال
لی جاتی ہیں تاکہ مخصوص لوگوں پر نظر رکھی جا سکے۔بعدازاں امریکہ کی نیشنل
سکیورٹی ایجنسی کے ڈائریکٹر جیمز کلیپر نے تسلیم کیا تھا کہ حکومت انٹرنیٹ
کمپنیوں سے صارفین کی بات چیت کا ریکارڈ حاصل کرتی ہے تاہم انہوں نے کہا
تھا کہ معلومات حاصل کرنے کی پالیسی کا ہدف صرف’غیر امریکی افراد‘ ہیں۔صرف
غیر ملکیوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ دوسری بڑی خبر یہ تھی کہ امریکہ پنیتیس
ممالک کی جاسوسی کر رہا ہے۔ اور ان مملک کے صدر اور وزیر اعظم کی فون کال
کو ٹیپ کیا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ ہنگامہ جرمنی کی چانسلر کے فون ٹیپ کی
اطلاعات پر ہوا۔ امریکہ میں این ایس اے کے تحت شہریوں کی فون کالز، پیغامات،
ای میلز اور انٹرنیٹ چیٹ تک کی تفصیلات جمع کی جاتی ہیں۔ یہ جاسوسی نظام اس
قدر وسیع ہے کہ ایک عام دن میں جرمنی کے دوکروڑ فون کنکشن اور ایک کروڑ
انٹرنیٹ ڈیٹا سیٹ کی این ایس اے کے ذریعے نگرانی کی جاتی ہے اور مشغول ترین
دنوں میں فون کالز کنکشن کی تعداد چھ کروڑ تک چلی جاتی ہے۔ انٹرنیٹ اور فون
نگرانی کے خفیہ امریکی پروگرام ’پرزم‘ اور اس کے برطانوی متبادل ’ٹمپورا‘
کی خبروں پر جرمنی میں غصہ ہے۔واضح رہے کہ جرمن باشندے اپنی حکومت کے ذریعہ
کی جانے والی نگرانی کے خلاف بھی کافی حساس واقع ہوئے ہیں جن کے دلوں میں
سابقہ کمیونسٹ ملک مشرقی جرمنی میں حکومت کی خفیہ پولیس سٹاسی اور نازی
ہٹلر کے دور کے گیستاپوکی یاد باقی ہے۔در شپیگل کا کہنا ہے کہ امریکی خفیہ
ادارہ فرانس میں بھی روزارنہ بیس لاکھ کنکشن کی روزانہ نگرانی کرتا ہے۔
برسلز میں ایک سربراہ اجلاس کے دوران یورپی رہنماؤں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ
امریکہ کے بارے میں بڑھتی ہوئی بداعتمادی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو متاثر
کر سکتی ہے۔جرمن چانسلر انگیلا مرکل کہتی ہیں کہ " ایک مرتبہ بداعتمادی کا
بیج بو دیا جائے تو انٹیلیجنس تعاون بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ قطعی غلط ہے
کہ دوست ایک دوسرے کی جاسوسی کریں" یہ بھی کہا جارہا ہے کہ صدر اوباہاما کو
اس بارے میں معلوم تھا اور صدر براک اوباما نے جاسوسی کی اس کارروائی کو
روکنے کے بجائے اسے جاری رہنے دیاامریکی خفیہ ایجنسی کے سابق اہلکار ایڈورڈ
سنوڈن کی جانب سے منظرِ عام پر لائے گئے دستاویزات سے یہ بات سامنے آئی ہے
کہ امریکہ دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر مواصلاتی جاسوسی کر رہا ہے۔جاسوسی
کے پروگرام میں فرانس، یونان اور اٹلی کو ’ہدف‘ بنایا گیا ۔جرمنی کے سپیگل
میگزین میں شائع ہونے والی خبر میں انکشاف کیا گیا تھا کہ امریکہ نے یورپی
یونین کے دفاتر کی جاسوسی کی ہے،یہ دستاویزات امریکہ خفیہ ایجنسی کے سابق
اہلکار ایڈورڈ سنورڈن منظر عام پر لائے ہیں۔ جو امریکی حکومت کو مطلوب ہیں
اور ان دنوں روس کے دارالحکومت ماسکو کے ہوائی اڈے پر ہیں۔ اور انھوں نے
ایکواڈور میں پناہ کی درخواست بھی دی ہوئی ہے۔گارڈین اخبار میں شائع ہونے
والی سنہ 2010 کی دستاویز کے مطابق انتالیس سفارت خانے اور مشنز کو نیشنل
سکیورٹی ایجنسی نے ’ہدف‘ قرار دیا ،اس دستاویز میں غیر معمولی جاسوسی کے
طریقوں کی تفصیلات موجود ہیں جن میں بگ لگانا، کیمونیکیشن کو سننا وغیرہ
شامل ہیں۔دستاویز میں اقوام متحدہ میں فرانس اور جرمنی کے مشن اور واشنگٹن
میں اٹلی کے سفارت خانے میں غیر قانونی آپریشنز کے خفیہ نام بھی درج
ہیں۔جاسوسی کا ہدف بنائے جانے والی فہرست میں جاپان، میکسکو، جنوبی کوریا،
ترکی اور بھارت بھی شامل ہیں۔جرمنی کے رسالے کے مطابق خفیہ امریکی دستاویز
سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے واشنگٹن میں یورپی
یونین کے دفتر کے کمپیوٹر نیٹ ورکس کی جاسوسی کی اور نیویارک میں اقوام
متحدہ کی عمارت میں واقع یورپی یونین کے دفاتر سے بھی خفیہ طور پر معلومات
حاصل کرتی رہی۔ ان خبروں نے ساری دنیا میں اضطراب بڑھادیا۔فرانس کے وزیر
خارجہ لورونگ فیبیوس نے کہا ہے کہ اگر یہ دعویٰ درست ہوا تو خفیہ نگرانی کا
یہ عمل قطعی طور پر ’ناقابل قبول‘ ہوگا۔جرمنی کی وزیر انصاف نے اسے سرد جنگ
کی یاد دلانے والا رویہ قرار دیا۔ یورپی پارلیمینٹ کے صدر مارٹین شْلٹس نے
کہا کہ اگر حقیقت میں یہ الزام سچ ہوا تو امریکہ کو بہت ساری چیزوں کا جواب
دینا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے دھچکہ لگا ہے، فرض کریں کہ اگر یہ سچ
ہوا تو پھر تو مجھے ایسا محسوس ہوگا کہ یورپی باشندے اور یورپی ادارے کے
نمائندے کی حیثیت سے میرے ساتھ وہی برتاؤ ہوا ہے جو دشمن کے ساتھ ہوتا ہے۔
کیا باہمی اعتماد پر مبنی تعمیری تعلقات کی یہ بنیاد ہوتی ہے۔ میرے خیال
میں نہیں۔ اس لیے یہاں برسلز میں امریکہ کے سفارتخانے سے میرا پہلا سوال
یہی ہوگا کہ کیا یہ سچ ہے؟ اور اگر یہ سچ ہے تو کیوں؟ انہیں اس کی وجہ
بتانا ہوگی۔یورپی یونین کی امریکی جاسوسی کے بارے میں زیادہ تفصیل تو معلوم
نہیں ہوئی لیکن یورپی یونین میں شامل یورپی ممالک کی تجارت اور دفاعی
معلومات تک رسائی سے امریکہ کے لیے پورپی ممالک سے مذاکرات میں فائدہ ا
اٹھایا جاسکتا ہے۔ یہ بھی انکشاف ہوا کہ امریکہ اقوام متحدہ کی بھی جاسوسی
کرتا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے ایک بیان میں کیا کہا کہ امریکہ کے نیشنل
سیکیوٹی کے ادارے نے اقوامِ متحدہ کی رازدارانہ رابطہ کاری کے دوران حاصل
کیے گئے بعض خفیہ کوڈز توڑے تھے۔ تاہم اقوامِ متحدہ کے ترجمان نے اس بارے
میں بھی خیالات کا اظہار کرنے سے منع کر دیا کہ آیا اقوامِ متحدہ کے
سیکرٹری جنرل بان کی مون کی بھی جاسوسی کی گئی یا نہیں۔امریکہ کی نیشنل
سکیورٹی ایجنسی نے اس الزام سے انکار کیا کہ اس نے یاہو اور گوگل کے ڈیٹا
سینٹرز کے رابطوں کی خفیہ طور پر نگرانی کی ہے۔واشنگٹن پوسٹ میں شائع کی
جانے والے دستاویزات کے مطابق انٹر نیٹ کے ان بڑے نیٹ ورکس پر سے روزانہ
لاکھوں ریکارڈز اکٹھے کیے جاتے رہے۔تازہ انکشافات ایسے وقت سامنے آئے ہیں
جب جرمنی کے انٹیلیجنس حکام کا ایک گروہ امریکہ پہنچا ہے جہاں وہ وائٹ ہاؤس
میں امریکی حکام سے وائس چانسلر انگیلا میرکل کے ٹیلی فون کی نگرانی کیے
جانے کے الزامات کی بابت بات چیت کرنا چاہتا تھا۔ امریکی نیشنل انٹیلی جنس
کے ڈائریکٹر جیمز کلیپر نے امریکی ایوانِ نمائندگان کے پینل کے سامنے بیان
دیتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس قسم کے اقدامات امریکی انٹیلی جنس کے
اہم ترین قواعد میں شامل ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ
دیگر اقوام کی ’بلا امتیاز‘ جاسوسی نہیں کرتا۔ انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر نے
کہا کہ ’غیر ملکی رہنماؤں کے ارادوں سے واقفیت بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ یہ
معلومات ہم جمع کرتے ہیں اور ان کا تجزیہ کرتے ہیں۔‘انہوں نے یہ بھی کہا کہ
ان کے غیر ملکی اتحادی بھی امریکی حکام اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جاسوسی
کرتے ہیں اور ایسا کرنا معمول کی بات ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ کسی اور
ملک کے پاس اتنے پڑے پیمانے پر نگرانی کا نظام نہیں جتنا امریکہ کے پاس ہے
اور ’اگر کوئی غلطی ہوئی بھی ہے تو وہ انسانی یا مشینی تھی۔‘ دوسری جانب
معاملے کی سنگینی کو کم کرنے کے لئے کہا گیا کہ صدر اوباما کو اس بارے میں
معلوم نہیں تھا۔وائٹ ہاؤس پر عالمی رہنماؤں کی جاسوسی کی اطلاعات اور صدر
اوباما کی ان آپریشنز سے بظاہر لاعلمی کے معاملے پر وضاحت کے لیے دباؤ بڑھا
ہے۔ کسی بھی آدمی کو یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ امریکی صدر اس بارے میں نہیں
جانتے۔ سی آئی اے کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے افشا کی جانے
والی نئی دستاویزات میں کہا گیا کہ امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی جرمن
چانسلر سمیت 34 عالمی رہنماؤں کی نگرانی کرتی رہی ہے۔سینیٹر ڈائین فائن
سٹائن نے اس پر امریکی حکام سے کئی سوال پوچھے ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی
جانب سے اپنے دوست ممالک کے رہنماؤں کی جاسوسی کیا جانا صحیح نہیں اور صدر
کی اتحادی ممالک کے رہنماؤں کی جاسوسی کے آپریشنز سے لاعلمی بڑا مسئلہ ہے۔
امریکی ادارے نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے سپین کے چھ کروڑ باشندوں کے نگرانی
کی تھی اس انکاشاف نے بھی ایک ہل چل مچا دی اور اس انکشاف کے بعد سپین نے
امریکی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کر کے اپنے شہریوں کی نگرانی کی مکمل
معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔اسپین کے وزیر نے کہا کہ اگر سپین کے چھ
کروڑ شہریوں کی جاسوسی کی اطلاعات درست ہیں تو یہ انتہائی ’نامناسب اور
’ناقابل قبول‘ ہے۔اس بارے میں ا جاپان کے خبر رساں ادارے نے کہا کہ این ایس
اے نے سنہ 2011 میں جاپان کی حکومت سے جاپان سے گزرنے والی فائبر آپٹک
تاروں کی نگرانی میں مدد دینے کے لیے کہا تھا۔ یہ تاریں جاپان کے راستے
ایشیا پیسیفیک خطے تک جاتی ہیں۔کیوڈو خبررساں ادارے کی خبر میں کہا گیا ہے
کہ اس کا مقصد امریکہ کو چین کی جاسوسی کرنے کی اجازت دینا تھا لیکن جاپان
نے قانونی مسائل اور عملے کی کمی کی وجہ سے اس سے انکار کیا۔ امریکہ کی
نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے اس خبر کی تردید کی ہے کہ ادارے کے سربراہ نے
جرمنی کی چانسلر کے موبائل فون کی جاسوسی کے بارے میں صدر اوباما کو کوئی
بریفنگ دی تھی۔جبکہ جرمن میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ گذشتہ دس برس سے
زائد عرصے سے جرمنی کی چانسلر انگیلا میرکل کے موبائل فون کی نگرانی کر رہا
ہے اور صدر براک اوباما کو سنہ 2010 میں اس کے بارے میں بتایا گیا
تھا۔جرمنی کے جریدے ڈا شپیگل کے دعوے کے مطابق امریکہ گذشتہ دس برس سے زائد
عرصے سے جرمنی کی چانسلر آنگیلا میرکل کے موبائل فون کی نگرانی کر رہا
ہے۔ایک اور اطلاع یہ بھی تھی کہ سنہ 2010 میں امریکی صدر براک اوباما اس
جاسوسی کے بارے میں بتایا گیا لیکن وہ اسے روکنے میں ناکام رہے۔ڈا شپیگل نے
اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ اس نے امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی وہ
دستاویزات دیکھی ہیں جس میں سنہ 2002 میں آنگیلا میرکل کا موبائل فون نمبر
موجود تھا جبکہ وہ تین برس بعد جرمنی کی چانسلر بنی تھیں۔جریدے کے مطابق
آنگیلا میرکل کے موبائل فون کی جاسوسی سنہ 2013 میں بھی جاری ہے۔رپورٹ میں
کہا گیا ہے کہ دستاویزات میں یہ بات واضح نہیں ہے کہ چانسلر انگیلا میرکل
کے موبائل کی جاسوسی کی نوعیت کیا تھی۔جریدے کے مطابق مثال کے طور پر یہ
ممکن ہے کہ چانسلر انگیلا میرکل کی بات چیت ریکارڈ کی جا رہی ہو یا پھر ان
کے تعلقات کے بارے میں جانا جا رہا ہو۔
ایک امریکی اخبار نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکہ نے پاکستان
میں جاسوسی کے نیٹ ورک کو توسیع دی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق ''ٹاپ
سیکرٹ بجٹ ڈاکومنٹس'' میں کہا گیا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے سنٹرل انٹیلی
جنس ایجنسی نے پاکستان میں کیمیائی اور جراثیمی ہتھیاروں کے ٹھکانوں کے
حوالے سے امریکہ کے تحفظات دور کرنے کیلئے معلومات اکٹھی کرنے کے سلسلے میں
جاسوسی نیٹ ورک کو توسیع دی ہے۔ اخبار نے سی آئی اے کے بلیک بجٹ کے نام سے
ترتیب دی گئی 178 صفحات پر مشتمل دستاویزات کے حوالے سے بتایا کہ امریکی
انٹیلی جنس اداروں کے پاس معلومات ناکافی ہونے کے حوالے سے بنائے گئے چارٹ
میں پاکستان سرفہرست ہے اور پاکستان کو نئے بنائے گئے تجزیاتی سیلز کیلئے
ہدف بنایا گیا ہے۔ اخبار کے مطابق امریکہ میں پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی
سکیورٹی کے حوالے سے تشویش اس حد تک پائی جاتی ہے کہ ناجائز اسلحہ کے
پھیلاؤ کی روک تھام کے حوالے سے بجٹ سیکشن میں پوری دنیا دو حصوں میں تقسیم
ہوتی نظر آئی جس میں ایک طرف پاکستان اور دوسری طرف باقی دنیا ہے۔
نیشنل سکیورٹی ایجنسی جاسوسی کرنے کے لیے کیا طریقے استعمال کرتی ہے؟
جاسوسی کا سب سے بڑا ادارہ انٹرنیٹ ہے۔ اور امریکہ نے انٹرنیٹ کمپنی کے
ڈیٹا تک رسائی حاصل کر رکھی ہے۔ جون میں دستاویزات سے معلوم ہوا کہ این ایس
اے کیسے خفیہ طریقے سے انٹرنیٹ کمپنیوں کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کی۔این ایس
اے کو نو انٹرنیٹ کمپنیوں کے سرورز تک رسائی حاصل ہے جس کے ذریعے جاسوسی کے
پرزم نامی پروگرام کے تحت آن لائن کمیونیکیشن کی نگرانی کی جاتی ہے۔ ان
کمپنیوں میں فیس بک، گوگل، مائیکروسافٹ اور یاہو شامل ہیں۔ دوسرا ذریعہ
فائیبر آپٹیک ہے۔ اس بارے میں برطانوی اخبار گارڈین نے انکشاف کیا تھا کہ
برطانیہ نے فائیبر آپٹک کیبلز کے ذریعے عالمی کمیونیکیشن کی جاسوسی کی اور
اس سے حاصل ہونے والی معلومات کو این ایس اے کے ساتھ شیئر کیا گیا۔گارڈین
کے مطابق دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ نے دو سو فائیبر آپٹک کیبلز
تک رسائی یاصل کی جس کے باعث برطانیہ یومیہ چھ سو ملین کمیونیکیشن کی
نگرانی کر سکتا تھا۔ اس کے علاوہ فون ٹیپنگ کو بھی استعمال کیا گیا ہے۔
اکتوبر میں جرمنی کی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ امریکہ نے جرمنی کی چانسلر
آنجیلا میرکل کے فون کی دس سال سے زیادہ جاسوسی کی۔ یہ جاسوسی چند ماہ قبل
ہی ختم کی گئی ہے۔ٹارگٹڈ جاسوسی کے لئے دیگر ذرائع استعمال کیئے گئے۔جرمنی
کے جریدے ڈا شپیگل کے مطابق امریکہ نے امریکہ اور یورپ میں یورپی یونین کے
دفاتر کی بھی جاسوسی کی۔جریدے کی رپورٹ کے مطابق این ایس اے نے واشنگٹن میں
یورپی یونین کے اندرونی کمپیوٹر نیٹ ورک کی جاسوسی کی اور یورپی یونین کے
اقوام متحدہ کے دفتر کی بھی جاسوسی کی۔ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے لیک کیے گئے
دستاویزات کے مطابق این ایس اے نے برسلز میں ایک عمارت میں بھی جاسوسی کی
جہاں یورپی یونین کے وزراء کی کونسل یورپی کونسل واقع ہے۔ اس سے قبل امریکی
اخبار واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی تھی کہ امریکی خفیہ ایجنسیاں سراغ رسانی کی
غرض سے انٹرنیٹ کی نو بڑی کمپنیوں کے سرورز سے صارفین کے بارے میں براہ
راست معلومات حاصل کر رہی ہیں۔ ان کمپنیوں میں فیس بک، یو ٹیوب، سکائپ،
ایپل، پال ٹاک، گوگل، مائکروسافٹ اور یاہو بھی شامل ہیں۔ان خبروں کے بعد
ورلڈ وائیڈ ویب کے خالق سر ٹم برنرز لی نے پرزم پروگرام پر ناراضگی کا
اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی حکومت کی جانب سے یہ اقدام بنیادی
انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے انٹرنیٹ کے صارفین سے کہا کہ وہ
انفرادی طور پر بھی اس معاملے پر آواز اٹھائیں اور احتجاج کریں۔دوسری جانب
فیس بک کے خالق مارک زکربرگ اور گوگل کے مالک لیری پیج نے امریکہ خفیہ
ایجنسی کو صارفین کی معلومات کی فراہمی کی تردید کی تھی۔اس سے قبل ایپل اور
یاہو بھی کسی بھی حکومتی ایجنسی کو اپنے سرورز تک براہ راست رسائی دینے کے
الزام سے انکار کر چکی ہیں۔امریکہ بڑی کمپینیوں اور تجارتی اداروں کی بھی
جاسوسی کرتا ہے۔ اس کا انکشاف برازیل کے گلوبو ٹی وی نے اپنی رپورٹ میں کیا
کہ ایڈورڈ اسنٹوڈن کی دستاویزات کے مطابق امریکی نیشنل انٹلجنس ایجنسی نے
پٹرو براس کی جاسوسی کی تھی۔برازیل کی اس کمپنی کا سرمایہ ترانوے ارب یورو
ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا ۔ کہ امریکہ جاسوسی سے کیا ھدف رکھتا تھا۔
واضح رہے امریکہ نے برازیل کی صدر کی بھی جاسوسی کی تھی۔امریکہ میں پر بہت
غم وغصہ ہے۔ عوام احتجاج کر رہے ہیں ۔اور خفیہ اداروں کی جاسوسی کے خلاف
امریکی سینیٹرز بھی بول اٹھے۔ دنیا بھر سے کھری کھری سننے کے بعد بالاآخر
امریکہ نے خفیہ اداروں کی جاسوسی کی کارروائیوں کا تفصیل سے جائزہ لینے کا
اعلان کر دیا۔ امریکی اداروں کی جاسوسی پر دنیا بھر کی تنقید کے بعد امریکی
سینیٹرز بھی بول اٹھے ہیں۔ امریکی سینیٹر ڈائن فائن کا کہنا ہے دوست ممالک
کے رہنماؤں کی جاسوسی غلط اور اس سارے عمل سے صدر اوباما کی لاعلمی بہت بڑا
مسئلہ ہے۔ امریکی سینیٹر کا کہنا تھا کہ وہ فرانس، جرمنی، سپین اور دیگر
اتحادی ممالک کے رہنماؤں کی جاسوسی کے خلاف ہیں۔ خاتون سینٹر کا کہنا تھا
وائٹ ہاؤس نے انہیں ہر قسم کی جاسوسی روک دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
دوسری جانب دنیا بھر کے شہریوں اور عالمی رہنماؤں کی جاسوسی سے بظاہر
لاعلمی پر صدر اوباما کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یورپ سمیت
کئی ممالک نے وائٹ ہاؤس سے اس معاملے پر وضاحت طلب کی ہے۔ صدر اوباما نے
ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ خفیہ اداروں کی کارروائیوں
کا دوبارہ جائزہ لے رہے ہیں۔
ایڈورڈ سنوڈن کے اس انکشاف نے کہیں اور کیا خود امریکہ کے منتخب ایوانوں
میں بھی ایک زلزلہ برپا کردیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کے تمام خفیہ
ادارے اب تک کانگریس اور سینیٹ کے اراکین کو یہ بتاتے رہے ہیں کہ نگرانی کا
نظام محدود ہے اور اس کا ہدف غیر امریکی ہیں۔پہلے امریکہ کے حکمرانوں نے
ڈھکے چھپے انداز میں اہلِ امریکہ کو یقین دلایا کہ پابندیوں کا ہدف دہشت
گرد یعنی مسلمان ہیں، غیرمسلموں کو ان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ مگر اب یہ
چھری غیر مسلم امریکیوں کے گلے پر بھی چل رہی ہے۔
لیکن ایڈورڈ سنوڈن کے انکشاف سے معلوم ہوا ہے کہ یہ نظام لامحدود ہے اور
خود امریکہ کے عام شہری ہی نہیں اس کے خواص بالخصوص خواص الخواص کو بھی
مشتبہ سمجھتے ہوئے ان کی بھی نگرانی کی جارہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ امریکہ
کمیونسٹ روس سے فرار ہوکر مغربی دنیا میں پناہ حاصل کرنے والوں کو ’’ضمیر
کے قیدی‘‘ کہا کرتا تھا۔ مگر اب امریکہ جولین اسانچ اور ایڈورڈ سنوڈن کو
ضمیر کا قیدی تسلیم کرنے کے بجائے انہیں ’’غدار‘‘ کہہ رہا ہے۔ لیکن ایڈورڈ
سنوڈن کے انکشافات نے امریکہ کے عوام کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ |