'' اگر پاکستان چاہے تو ڈرون
حملے ایک دن میں بند ہوسکتے ہیں ،پاکستان کی فضائیہ انتہائی طاقتور ہے اور
وہ جب چاہے اپنی سرحدی خلاف ورزی پر پابندی لگا سکتی ہے لیکن اس کیلئے
حکومت کی منظور ی ضروری ہے جو کہ اسے نہیں مل رہی ،کس کو زندہ رہنا ہے اور
کس کو مرنا ہے یہ فیصلہ کرنا خدا کاکام ہے لیکن پاکستان سے ہزاروں میل دور
بیٹھا امریکہ یہ فیصلہ خود ڈرون کے ذریعے کرنا چاہتا ہے امریکہ کو چاہئے کہ
وہ فوراََ یہ ظلم بند کرے اوران حملوں میں مارے جانیوالے افراد کو معاوضہ
بھی اداکرے''امریکی کانگرس کی خارجہ امور کمیٹی کے ایک رکن ایلن گریسن کے
یہ الفاظ جھوٹے اور خائن پاکستانی حکمرانوں کے منہ پر ایسا زناٹے دار
تھپڑہیں جس کی گونج اٹھارہ کروڑ پاکستانی تو سن رہے ہیں لیکن شائد احساس ِ
ندامت سے عاری اور ڈالروں کے پجاری حکمرانوں کے کانوں پر اب بھی جوں تک
نہیں رینگے گی اور اس میں کس کس کو دوش دیا جائے کہ قائداعظم کے سانحہ
ارتحال سے لے کرہمارے حکمرانوں نے اپنا قبلہ و کعبہ قصرسفید کو قراردے دیا
تھا جس کا طواف اگرچہ ہر آنیوالا سول و فوجی حکمران کرنا اپنا فرض منصبی
سمجھتا رہا لیکن ملکی تاریخ کے بدترین فوجی ڈکٹیٹرپرویزمشرف کا دورسیاہ
ہمارے منہ پر ایسی کالک مل گیا جس کو اتارنے کیلئے شائدصدیاں بیت جائیں
ویسے تو کمال اتاترک کو اپنا آئیڈیل قراردینے والے اس بزدل کمانڈوکا پورا
دور ہی اسلام دشمن کارناموں سے لبریز ہے لیکن نائن الیون کے صیہونی ڈرامے
کے بعد برادرافغانستان کے خلاف نام نہاد ''war on terror''کا حصہ بننا اور
بش کے ساتھ ڈرون حملوں کی اجازت دینے کا معاہدہ کرنااس کے دور کا ہی نہیں
بلکہ اس کی زندگی کا بھی ایسا بھیانک گناہ تھا جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت
رہی ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ پاکستانی موت کے گھاٹ اتر ے ہی ہیں
اس کیساتھ ساتھ اس ظلم کے نتیجے میں پیدا ہونیوالی دہشتگردی کی بدترین لہر
پورے ملک کو اپنی منحوس لپیٹ میں لے چکی ہے دوسری جانب ہماری منافقت دیکھے
کہ پرویزمشرف کے جانے کے بعدبرسراقتدارآنیوالی اور دن رات فوجی حکومتوں کو
گالیاں دینے اور ڈکٹیٹروں کو پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ قراردینے والی
سیاسی جماعتوں نے بھی ان ڈرون حملوں کو روکنے کیلئے کوئی اقدام اٹھانا تو
دور کی بات اس پر کوئی موثراحتجاج بھی سامنے نہیں آیابلکہ عملی طور پر ان
حملوں میں پیپلزپارٹی کے سیاسی دور میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ۔حالاں کہ ہونا
تو یہ چاہئے تھا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت آتے ہی ایک ڈکٹیٹر کی جانب سے کئے
جانیوالے اس ظالمانہ معاہدے کو ختم کرتی لیکن ایسا نہ کیا گیا اور اپنے
پانچ سالہ دور میں اس معاہدے کو سرتسلیم خم کرکے پورا کیا گیا حالاں کہ اس
دوران کئی عالمی رہنماؤں کی جانب سے ڈرون کے خلاف بھرپورآواز اٹھائی گئی
مثلاََ ڈینش ارکان پارلیمنٹ نے پاکستان یمن اور صومایہ میں ڈرون حملوں میں
مارے جانیوالے افراد کا قاتل براہ راست اوبامہ کو قراردیا ،اقوام متحدہ کے
سابق اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل ڈینس ہیلی ڈے نے ڈرون حملون کو واضح طور پر
پاکستان کی قومی سلامتی کی خلاف ورزی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی
خلاف ورزی قراردیا،برٹش پارلیمنٹ کے 12ارکان نے اوبامہ سے مطالبہ کیا کہ وہ
پاکستان میں ڈرون حملے فوری بند کرے ۔لیکن افسوس ان آوازوں میں اگرشامل
نہیں تھی تو صرف ایک پاکستان کی ہی آواز شامل نہیں تھی جس کے ہزاروں بے
گناہ شہری اس ظلم عظیم کا شکار ہوئے ہیں ۔یہی وجہ تھی کہ انتخابات میں عوام
نے پی پی حکومت کو نکال باہرکیا تو اس کی ایک بڑی وجہ ان حملوں پر اس کی
مجرمانہ خاموشی بلکہ نیٹو کی اعانت بھی تھی کیوں کہ عوام یہ جان چکے تھے کہ
ڈرون حملوں پر رسمی احتجاج نہ صرف ایک ڈرامہ تھابلکہ درحقیقت ان کو آپریٹ
بھی پاکستان سے ہی کیا جاتا تھا۔ان حالات میں پاکستان میں بننے والی نئی
حکومت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں ایک مضبوط اور
باوقارخارجہ پالیسی مرتب کریں اپنے دورہ امریکہ میں اگرچہ انہوں نے یہ موقف
اٹھایا بھی ہوگا لیکن ان کے دورہ کے اختتام کے فواراََ بعد ہی ہونے والے
ڈرون حملے نے یہ ثابت کردیا ہے کہ امریکہ نے پاکستانی مطالبے کو پرکاہ کی
بھی حیثیت نہیں دی جس کے بعد اب میاں صاحب کو یہ مسئلہ بھرپور طریقے سے
عالمی سطح پر اٹھانا چاہئے مجھے یقین ہے کہ اس کیساتھ ہی بیشمارانساف پسند
آوازیں ان کے ہمراہ ہوں گی جیسا کہ حال ہی میں ایمنٹسی انٹرنیشنل اور ہیومن
رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکی حملے جنگی جرائم کی زد میں
آتے ہیں اسی طرح چین برازیل اور وینزویلا بھی ان حملوں پر کڑی تنقید کرچکے
ہیں اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون نے بھی ان پر تشویش کا
ظہار کردیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ کسی بھی ایسے
خفیہ معاہدے کو سامنے لائے اور اس کو ختم کرے جس میں ڈرون حملوں کی اجازت
سی آئی کو دی گئی ہے ورنہ اب بھی اگر ہماری خاموشی برقرار رہی تو آنیوالی
نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ہمیں تو پہلے ہی بہت گالیاں نکالی گئی
ہیں جیسے کہ ایک امریکی وکیل نے کہا تھا کہ پاکستانی ڈالروں کی خاطر اپنی
بہن کو بیچ دیتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ اب ہمارے ماتھے پر یہ کلنک کا ٹیکہ
بھی نہ سج جائے کہ''یہ وہ قوم ہے جو ڈالروں کی خاطر خود اپنے بھائیوں کو
مارکر غیروں کے ہاتھ بیچ دیتی ہے'' |