طالبان کے اساتذہ اپنے شاگردوں کے تحفظات دور کریں

سیدمنورحسن(امیر جماعت اسلامی) کا فکر انگیز خطاب ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ تلخیص: حنیف لودھی

ملک میں سنگین مسائل کل جماعتی کانفرنس کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ پاکستان کے نظام کو کافرانہ نہیں سوفیصد اسلامی نظام سمجھتے ہیں۔ تمام اسلامی ممالک امریکا کے آلہ کار بن کر اس کو سہولتیں فراہم کررہے ہیں۔ مغربی اقوام کو مصر میں جمہوری نظام ختم کرنے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ مسلمان اپنی تباہی کے خود بھی ذمہ دار ہیں طالبان کے اساتذہ سے گزارش ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کے تحفظات دور کریں۔ دنیا میں مسلمان کی تشریح انتہاء پسند اور دہشت گرد بن گئی ہے ۔ درست ہے کہ جنونیت اور انتہاء پسندی مذہب سے دوری کا نتیجہ ہے۔ اسلام میں فرقہ پرستی کی کوئی گنجائش نہیں جس قسم کی فرقہ بندی ہمارے ملک میں ہے دیگر اسلامی ممالک میں نہیں ہے جو اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے خلاف کام کرتا ہے وہ شریعت کے خلاف ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر ہر شعبے میں مضبوط ہے اس لیے فتویٰ بھی دیتا ہے۔حکومت کا کوئی ادارہ درست نہیں اس لیے مساجد اور مدارس کا نظام حوالے نہیں کیا جا سکتا۔طالبان کے کچھ کاموں کے علاوہ کسی کام سے اختلاف نہیں ۔ مولانا مودودی کے بعد جماعت اسلامی نے کوئی قدآور شخصیت پیدا نہیں کی۔ اگر ووٹ کو بنیاد بنایا جائے تو ہاں جماعت اسلامی کے اثر ورسوخ کم ہوا ہے۔طاہر القادری کو طالبان کے خلاف کتاب لکھنے کی بجائے ان سے مذاکرات کرنے چاہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ حالات کا جتنا بھی رونا رویا جائے تجزیہ کیا جائے اور اس کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے وہ ٹھیک ہے لیکن یہ بھی ٹھیک ہے کہ مذہب کے علاوہ جو معلومات ، مطالعہ اور جو رویے ہونے چاہیں ان کی کمی نطرآتی ہے۔ عام طور پر مسلمان کی تشریح دہشت گردی ہوگئی ہے ۔بنیاد پرست’’فینڈامنٹلسٹ‘‘ پھر شدت پسند’’ایکسٹریمسٹ‘‘ اور ابھی دہشتگرد ’’ٹیررسٹ‘‘ کہتے ہیں۔ ،اس پر رد عمل بھی ہیں مسلمان کی تشریح وہ ہے جو اﷲ اوراس کے رسول کو مانتا ہو اور کلمہ پڑھتا ہو وہ مسلمان ہے اسلامی نظریاتی کونسل آئینی طور پر اس لیے بنی ہے اور اس کا یہ حق بنتا ہے کہ اس نے جو فیصلے ، تجاوز ،مشورے دیئے ہوں ان کو پارلیمنٹ کے اندر لایا جائے اور اس کی بنیاد پر قانون سازی کی جائے لیکن یہ کام نہیں ہوتا تو اس لئے زوردینا پڑتا ہے کہ آئین کی پابندی اورپاسداری ضروری ہے پارلیمنٹ کے فیصلوں پر بھی عمل نہیں ہوتا متفقہ قراردادیں منظور ہو جاتی ہیں جوائنٹ سیشن کے اندر بھی منظور ہوتیں ہیں سینٹ، قومی اسمبلی میں بھی منظور ہوتیں ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔گزشتہ پارلیمنٹ کے ساتھ بھی یہ واقعہ پیش آیا اور اب جو پارلیمنٹ موجود ہے اس کیساتھ بھی یہ واقعہ ہونے جا رہا ہے تو اس اعتبار سے ہمارے ہاں تو پرائیویٹ سیکٹر نان سٹیٹ ایکٹر تمام دائروں میں مضبوط ہے تو اس لیے پرائیویٹ سیکٹر فتوی بھی دیتے ہیں اس لیے کہ لوگ ان کی بات سنتے ہیں اور ان ہی حوالوں سے لوگ پہچانتے ہیں اگر ریاست واقعی مضبوط ہو تو وہ اسلامی ریاست کے طور پر کام کرے۔جب ادارے اپنا کام نہیں کریں گے اور لوگوں کو شکایت ہو تو متفقہ قراردادیں بھی ردی کی ٹوکری میں چلی جاتی ہیں اس لئے اس نے جہاد بھی شروع کر دیا ہے اور فتوی بھی دینے لگتا ہے اس وقت تک اسلامی نظریاتی کونسل کے ساتھ سوتیلوں والا سلوک ہے ان کی کوئی سفارش آئین کے تحت جس طرح پارلیمنٹ میں پیش ہونی چاہیے تھی پیش نہیں ہوئی ہے اس لئے ہم اس کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ وہ پیش ہو اور اگر پیش نہ ہو تو خود بخود وہ ایک ترمیم ہو جائے۔سرکاری تحویل بھی جو کچھ ہے اس کا حشرہم دیکھ رہے ہیں چاہے وہ سکول ہو ،کالجز ،ہسپتال ہویا یا سرکاری ادارے ہوں تمام سرکاری اداروں کا جو برا حال ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے اس لیے مساجد اور مدارس کا نظام حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام سیکرٹرینزم نہیں ہے جس طرح تمام زندگی کے مختلف دائروں میں زندگی کے اصولوں کو ترک کر کے اور مختلف رویوں کو اپناتے ہوئے ہم نے خرابی مول لی ہے یہی واقعہ اسکے ساتھ بھی پیش آیا ہے فرقہ واریت مسلکوں سے جنم لیتی ہے فرقہ واریت میں بہتری آئی ہے تاہم بہت بہتری کی گنجائش ابھی بھی ہے۔جس قسم کی فرقہ بندی ہمارے ملک میں ہے دیگر ممالک میں نہیں ہے،مثال کے طور پر دیوبندی بریلوی، اہلحدیث مسالک ہیں، بہت سارے لوگوں کی رائے ہے کہ جماعت اسلامی نے کوئی قدآور شخصیت پیدا نہیں کی مگر میں دوسرے رخ سے بات کرنا چاہتا ہوں کہ تحریکیں وہ ہی شمار ہوتیں ہیں جو وقت اور حالات کے تقاضوں کو پورا کریں اور کسی ایک جگہ ٹھہر نہ جائیں۔ یہ کمال جماعت اسلامی کو حاصل ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی نے وقت کے تقاضوں کو پہچانا ہے اور اس پر اس نے اپنے ردعمل کا مثبت پیرائے میں کچھ کرنے کی کوشش کی ہے اگر ووٹ کو بنیاد بنایا جائے تو جماعت اسلامی کا اثر ورسوخ کم ہو رہا ہے کیونکہ ووٹ بہت سی چیزوں کے ساتھ جوڑا ہوا ہے جو ایک الگ موضوع بن جاتا ہے
معاشرے کے تمام طبقات نے ایک ایسی تحریک کی حیثیت سے جماعت اسلامی کو جانا پہچانا ہے جو معاشرے کے خدوخال بدلنے کے لیے اور وہاں ہر آدمی کو جینے کا حق دینے کے لیے کام کرتی ہے شریعت تمام عقائد،اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے۔شریعت اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ وہ اقلیتوں کی جان و مال، عزت و آبرو اور ان کی عبادتگاہوں کو تحفظ دیا جائے تو جو اس کے خلاف کام کرتا ہے وہ شریعت کے خلاف کام کرتا ہے وہ شریعت کے خلاف ہے اسلام اور شریعت غیروں کی عبادت گاہوں کا بھی اتنا ہی اہم سمجھتا ہے جتنا کے اپنی عبادت گاہوں کو سمجھتا ہے۔ اقلیتوں کے حوالے سے بھی یہ نقطہ نظر رکھتا ہے کہ ان کی جان،مال، عزت وآبرو کو تحفظ دیا جائے اس لیے کسی فرد کی بات کی مخالفت پیش نظر نہیں ہے اسلام کا فلسفہ یہ ہی ہے ۔ڈاکٹر طاہر القادری کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہیں مناظرہ نہیں اور اگر ان کا کوئی نقطہ نظر ہے تو وہ بجائے کسی کتاب میں شائع کرنے کے مل جل کر اس میں کسی نتیجے پر پہنچنا چاہیے۔طالبان کی حکومت کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے برطرف کیا ہے تو ان کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنی حکومت خود بنائیں۔طالبان کے چند کاموں کے علاوہ کسی کام سے اختلاف نہیں ہے ہم نے ان کو مشورہ بھی دیا تھا جب ان کا وفد ملنے آیا تھا کہ آپ پوری مسلم دنیا سے ان نمائندوں کو یا ان مفتیوں کو ، اہل علم کو جمع کریں کہ جن کو آپ صحیح سمجھتے ہیں اور ان کو جمع کر کے آپ اس سے تمام ان ایشوز پررائے لیں جس میں عورتوں کی تعلیم اور اس طرح کے دیگر ایشوز تھے تاکہ آپ پر تنہاء الزام نہ لگے اور آپ کے معاملات میں بھی بہتری آ جائے سارے لوگ جب یکساں موقف اختیار کریں گے تو بہتری آئے گی جس پر انہوں نے حامی تو بھری تھی مگر شاید ان کو وقت زیادہ نہیں ملا اور ان کی حکومت ہی برطرف ہو گئی ورنہ شاید وہ اس طرف آ رہے تھے کہ یکساں موقف کے مطابق افغانستان کے معاملات کو چلایا جا سکے۔ القاعدہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے پنجاب یونیورسٹی میں گرفتاریوں پر جمعیت نے اس کی پوری طرح سے تردید کی ہے اور جس کا جس کے ساتھ تعلق ہے ظاہر کیا جائے اگر افہام و تفہیم کا طریقہ کار اختیار کیا جائے تو غلطیوں کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ امریکا کی مخالفت جتنی طالبان کرتے ہیں اور کوئی نہیں کرتا۔ طالبان کا ایک کردار یہ بھی ہے کہ جارحیت کرنے والے استعمار کے ساتھ کس طرح پیش آیا جائے اور جو سہولتیں ہم نے امریکا کودی ہوئی ہے حساس ایئرپورٹ دیئے ہوئے ہیں انٹیلی جنس کا نیٹ ورک دیا ہوا ہے طالبان واحد لوگ ہیں جو اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں سیاسی لوگ تو آواز بلند کرتے ہی رہتے ہیں۔طالبان کے ساتھ مذاکرات ہونا ضروری ہیں تاکہ کوئی ابہام نہ رہے۔ طالبان کے اساتذہ سے گزارش کروں گا کہ وہ اپنے شاگردوں کو ان کے تحفظات بارے تشفی بخش جواب دیں جس سے ان کا اطمینان کا ہوسکے۔ سارے مسائل اے پی سی کے فیصلہ پر عملدرآمد نہ ہونے سے پیدا ہورہے ہیں اگر افہام وتفہیم کا راستہ اختیار کیا جائے تو غلطیوں کی اصلاح ہوسکتی ہے ہم پاکستان کے نظام کو کفری نظام نہیں سمجھتے ہیں اس کو سوفیصد اسلامی سمجھتے ہیں۔

طالبان سے اگر مذاکرات کی میز پر بات ہو تو تمام ابہام دور کئے جائیں۔ جس واقعہ کی ذمہ داری طالبان قبول کرتے ہیں ان میں مرنے والوں کے ذمہ دار طالبان ہیں جس کی ذمہ داری وہ قبول نہیں کرتے اس کے وہ ذمہ دار نہیں۔ 57مسلمان ملک امریکا کو سہولت فراہم کرتے ہیں اس کی ترجیحات پر کام کرتے یہں اس کی پالیسی اپنانے ہیں مغربی اقوام کو مصر میں جمہوری نظام ختم کرنے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں جبکہ ہم مسلمان اپنی تباہی کے خودذمہ دار ہیں اہم قرارداد مقاصد کے پاس ہونے کے بعد پاکستان کے نظام کو100 فیصد اسلامی نظام سمجھتے ہیں اور ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ کم از کم آئین کے حوالے سے جو 1973ء کا آئین ہے اگر اس کا من وعن عمل کیا جائے تو ہم اسلام سے بہت سارے اداروں کو قائم کر سکتے ہیں اور اس میں بہتری نظر آئے گی۔سارے مسلمان ممالک امریکہ کے آگے سجدہ ریز ہیں جن لوگوں کی قتل کی ذمہ داری طالبان قبول کرتے ہیں ہم بھی قبول کرتے ہیں کہ انہوں نے کیا ہو گا اور اس کی ہم مذمت بھی کرتے ہیں اور دہشت گردی کے حوالے سے کرتے ہیں لیکن جس کی ذمہ داری وہ قبول نہیں کرتے اور بعض اوقات بیان دے دیتے ہیں کہ ہم نے یہ کام نہیں کیا ہے ۔حالیہ انتخابات میں سیٹوں کی ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے عمران خان کے ساتھ 100 فیصد مشاورت ہو گئی تھی اور ایک ایسے اجلاس میں جس میں عمران خان خود بھی تھے اور میں بھی تھا۔تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے لوگ بھی موجود تھے ۔کلیئرلی ایک کمیٹی بن گئی تھی کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے گی اور رپورٹ دے گی لیکن بعد میں مجھے لگا کہ ایڈجسٹمنٹ کی بات ہوگئی ہے اور ہمارے اور ان کے درمیان ذہنی اتفاق پایاجاتا ہے اس پر جب عمل نہیں ہواتو مجھے الگ ہوجانا بہتر لگامحض اس بھروسے اور اعتماد پر بیٹھے رہنا نہیں چاہتے تھے اور یہی معاملہ نواز شریف کے ساتھ بھی تھا۔(امیرجماعت اسلامی پاکستان کے نجی ٹی وی کو انٹرویو سے اقتباس)
Hanif Lodhi
About the Author: Hanif Lodhi Read More Articles by Hanif Lodhi: 51 Articles with 57706 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.