حکیم اﷲ مسعود ۔۔۔۔۔۔چلے گئے،ہر زی روح نے اس فانی دنیا
میں اپنا اپناکردار ادا کرکے چھوڑ ۔۔۔۔جانا ہے۔ آج کل ہر سطح اور محفل میں
طالبان ،امریکہ،دہشتگردی ،مذاکرات اور ڈرون حملوں کا تذکرہ عام ہے۔کوئی
امریکہ کی حمایت میں دلیل دے رہا ہے اور کوئی مخالفت۔۔۔۔۔۔لیکن یہ تذکرہ
سنجیدہ گفتگو اور کھلے ذہین سے کسی اطمینان بخش صورت میں مفید ثابت ہو سکتا
ہے۔واقعی جب مذاکرات کا ماحول بن چکا تھا اس دوران حالیہ ’’سانحہ‘‘ باعث
تشویش ہے۔
امریکہ نے جو عالمی غنڈہ گردی شروع کر رکھی ہے اس سے پوری دنیا زیر و زبر
ہو سکتی ہے۔عراق،افغانستان میں الجھنا امریکہ کو مہنگی پڑ گئی ہے۔صورت حال
یہ ہے کہ’’نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘امریکہ نے ملا عمر اور اسامہ بن
لادن کے ناموں پر ضرب مارنے ،تشدد،ٹارگٹ کلنگ،سرد ملکوں میں جیلوں کو بھرنے
اور مسلسل طاقت کا استعمال آخر کسی ردعمل کا منتظر۔۔۔۔۔ تو ہوگا۔
امریکہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم سے کبھی بھی دہشتگردی کی لہر کو قابو نہیں
کر سکے گا،نہ ہی دہشتگرد رکیں گے۔پہلی بات جو سمجھنے کے لائق ہے کہ یہ
دہشگرد ہیں کون ہیں۔۔۔؟؟؟ یہاں واضح کر دوں کہ دہشتگردی کا اسلام سے ذرا
بھر تعلق نہیں،اس پر کہیں دوسری رائے نہیں مگر جہاں تک طالبان کے موقف کا
تعلق ہے اس پہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔وہ پاک امریکہ دوستی کو نہیں مانتے
اور وہ کافرانہ نظام کو تسلیم نہیں کرتے۔یہ دو نقطہ نظرطالبان جس بھی دلیل
میں پیش کرتے ہیں اس پر غور کرنے کی از بس ضرورت ہے۔اب مار دھاڑ،خودکش
حملوں سمیت انسانیت دشمن وراداتوں کا امریکہ اور طالبان نے جو سلسلہ جاری
رکھا ہوا ہے اس کا حل نکالنے کے لئے حکومت پاکستان نے جو مشترکہ موقف
اختیار کرتے ہوئے مذاکرات کا فیصلہ کیا تھا اس کے سوائے حل بھی کوئی نہیں ،مذاکراتی
عمل ابھی شروعاتی دور میں تھا کہ طالبان کے امیر کو ڈرون حملے میں تمام کر
دیا گیا ،اب جو کشیدگی پیدا ہونے جا رہی ہے اس پر ہر جانب سے تشویش اور
خدشات سے لا متناعی بحث و تمحیص جاری ہے۔
حکومت پاک امریکہ تعلقات ہے ،پر نظر ثانی کا سوچ رہی ۔ اپوزیشن اور دیگر
سیاسی جماعتوں نے بھی ڈرون حملوں کو قومی مفادات کے خلاف قرار دیا جبکہ
عمران خان نے د و ہاتھ آگے بڑھ کر دھمکی دے دی ہے کہ کے پی کے کی حکومت
جاتی ہے تو جائے مگر اب نیٹو سپلائی نہیں ہونے دیں گے ۔بہرحال اب وقت جذبات
کا نہیں،خدا راہ عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ لگایا جائے۔قوم اس سے پہلے
بھی کئی بار مذہب کے نام پر دھوکا کھا چکی ہے۔طالبان بھی مذہب کے نام پر جو
کھیل کھیل رہی ہے انہیں بھی سنجیدہ پن کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔البتہ غور طلب
امر یہ ہے کہ طالبان ہیں کون ۔۔۔۔؟؟؟بڑے بڑے بادشاہوں نے طالبان(پٹھان ) ہی
کہ بارے جو آراء دیں وہ بھی اہل عقل و دانش کے لئے مشعل راہ ہیں،بادشاہ مغل
اعظم شہنشاہ اکبر نے کھا کہ’’پٹھان کو دوستی کر کے ہرایا جاسکتا ہے مگر لڑ
کر نہیں ‘‘ ،محمود غزنوی نے کہا کہ ’’پٹھان متحد ہو
جائیں تو ان کی پوری دنیا میں حکومت ہو گی‘‘ اور سکندر اعظم نے انتہائی
زبردست کہاکہ ’’جنگ میں اتر جانے کے بعد پٹھان کو روکنا شیر کے منہ میں
ہاتھ ڈالنے جیسا ہے‘‘۔ان بادشاہوں نے یہ اقوال بوستان میں نہیں بلکہ میدان
جنگ سے حاصل تجربات سے اخذ کئے۔ان کو سامنے رکھا جائے تو امریکہ جیسے سپر
پاور کو چنے چبوانا انہی ۔۔۔۔کا کمال ہے۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ امریکہ نے کبھی بھی مشکل حالات میں پاکستان کا ساتھ
دیا ہو۔ہمیشہ امریکہ نے نازک مرحلہ میں آنکھیں دکھائیں۔بے شک ہم مقروض سہی
مگر ہماری مشکلات کو کمزوری سمجھنا یقیناً ہمارے ایمان میں تذبذب کی علا مت
ہے۔بد قسمتی سے ہمارے سیاستدان تو بہت ہیں مگر لیڈر ۔۔۔۔۔کہیں نہیں جو قوم
کو ساتھ لیکر آگے بڑھے۔کسی حد تک میاں نواز شریف سے امید بندھی تھی کہ وہ
اب کوئی ماضی کے تجربات سے سبق سیکھ کر قوم کو گرداب سے نکال لیں گے لیکن
۔۔۔۔۔بابوؤں کے نرغے میں پڑ کر انہیں بھی ’’معصوم‘‘ کھنا پڑے گا، ان کے لئے
قوم اتنا کہتی ہے کہ
روزانہ خالی ہاتھ جب گھر لوٹ جاتا ہوں
مسکرا کر دیکھتے ہیں بچے اور میں مر جاتا ہوں
جہاں تک مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے وہ جب ’’حلوہ خوری‘‘سے باہر نہیں نکلئیں
گے تب تک انہیں زیر بحث لانا بے کارہے، رہی بات عمران خان کی تو ’’پٹھان‘‘
بچہ ہے۔مگر ان کی ڈور بھی کہیں اور سے ہلائی جانا قوم کی بد نصیبی ہے۔البتہ
ڈاکٹر طاہر القادری جس سوچ کو فروغ دے رہے ہیں اس میں جان ضرور ہے مگر جس
ٹولے کو ہدف بنا رہے ہیں وہ۔۔۔۔۔ انہیں بھی بند گلی میں دھکیل دیں گے۔
مایوسی گناہ ہے۔میاں نواز شریف کو مخصوص خول سے باہر نکل کر قوم کی آواز کے
ساتھ آواز ،قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھنا ہو گا۔اقتدار ،زندگی دولت اور دنیا
کی رنگینیاں یہیں رہ جانے والی ہیں۔صاحب کردار ہمیشہ زندہ جاوید رہتے
ہیں۔امریکہ کو کھل کر باور کیا جائے کہ وہ طالبان سے مذاکرات (جن کا اب
امکان نہیں )میں حائل نہ ہو ،اگر مذاکرات سے حل نہیں نکلتا تو پھر بھی
سنجیدہ روی سے دہشگردی کے خلاف طاقت استعمال کی جا سکتی ہے بہرحال بات چیت
ہی آخری راستہ ہے۔عوام کو چائیے کہ وہ کسی خوشنما ،چرب زبان اور بہروپی
انداز سے کنارہ رکھیں۔طالبان ایک طاقت ہے جو آنکھیں موند لینے سے نظر انداز
نہیں کیئے جا سکتے۔ان سے حکومت بھر پور انداز سے مذاکرات کرئے تاکہ بلی
تھیلے سے باہر نکل آئے۔طالبان بھی جان لیں کہ وہ بے گناہ شہریوں کو مقتل
گاہ میں ڈالنے کی مذموم حرکت سے باز رہیں۔عوام کی اکثریت جہاں امریکہ کے
انسانیت سوز اقدامات کے خلاف ہے، وہیں طالبان کی دہشتگردی سے بھی تنگ
ہیں۔لہذا یہ قتل گاہ کا میدان چھوڑنا پڑے گا۔ورنہ جب تحریک میں انارکی جنم
لیتی ہے تو سب کچھ بھسم ہو جایا کرتا ہے۔ |