باسمہ تعالیٰ
اتحادواتفاق ،بھائی چارگی اورآپسی میل محبت خیروبرکت اوربھلائی کاذریعہ
ہے۔بچپن سے ہم یہ کہانی سنتے آرہے ہیں کہ ایک لاٹھی کو کوئی بھی توڑسکتاہے
لیکن جب ایک جگہ لاٹھیوں کاگٹھرہوجس میں بہت ساری لاٹھیاں بندھی ہوں
توپھراسے توڑنامشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتاہے۔یہ کہانی عموماہراس گھرمیں
بچوں کوسنائی جاتی ہے جہاں ایک ماں باپ کے کئی نرینہ اولادہوتے ہیں،وہ
انہیں بچپن میں اس طرح کے واقعات سناکراتحادواتفاق کی اہمیت کواجاگرکرتے
ہیں تاکہ بڑے ہوکریہ آپس میں متحدرہ سکیں،اوردنیاکی کوئی بھی شرپسند طاقت
ان کے اتحادکوپارہ پارہ نہ کرسکے،وہ لوگ جواپنے والدین کے اطاعت شعاراوران
کی باتوں کواپنے لیے مشعل راہ سمجھ کرپوری زندگی ان کے بتائے ہوئے اصولوں
پرعمل کرتے رہتے ہیں دیکھایہی گیاہے کہ وہ ہمیشہ آپس میں اتحادواتفاق
کامظاہرہ کرتے ہیں اورکوئی بھی بیرونی طاقت ان کے اس اتحادکوپارہ پارہ نہیں
کرپاتی ہے،ان کی آپسی محبت اوربھائی چارگی دنیاوالوں کے لیے ایک مثال بن
جاتی ہے اوروہ اپنے اس اتحادواتفاق کے ذریعہ بڑی بڑی شیطانی طاقتوں کومات
دیدیتے ہیں لیکن اس کے برعکس جولوگ اتحاد و اتفاق کے بجائے اختلاف
وانتشارمیں زندگی گذارتے ہیں انہیں کوئی بھی شخص بڑی آسانی سے
زیرکردیتاہے،ایسی صورت میں وہ اپنے آپ کوبچانے کے لیے کسی بڑی طاقت کے
زیرسایہ چلاجاتاہے جواسے انجانے خوف میں مبتلاکرکے اپنے مفادات کے حصول کے
لیے پوری زندگی اس کااستحصال کرتارہتاہے اوروہ بھی بلاچوں وچرااس کے دام
فریب میں پھنس کربآسانی شکارہوتارہتاہے۔
اتحادواتفاق ہرشخص کے لیے محبوب ہے،خواہ وہ دنیاکے کسی خطہ،کسی قوم اورکسی
ملک سے تعلق رکھنے والاہو،اسی طرح ہرایک کے نزدیک اتحادواتفاق کامرکزبھی
الگ الگ ہے،کسی کے لیے ایک ملک کاہونامرکزاتحادہے توکسی کے لیے ایک قوم
یاایک قبیلہ سے ہونامرکزاتحادکی وجہ بنتی ہے،لیکن مسلمانوں کے لیے
مرکزاتحادصرف ایک ہے اوروہ ہے کلمۂ توحید ’’لاالہٰ الااﷲ محمدرسول اﷲ‘‘،اتحاداتفاق
کی اسی اہمیت کوواضح کرنے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کوصریح لفظوں میں
حکم دیاکہ’’اﷲ کی رسی کومضبوطی سے تھام لواورآپس میں اختلاف مت
پیداکرو‘‘(آل عمران:۱۰۳)آیت مذکورمیں رسی کے لیے اﷲ نے لفظ ’حبل‘کااستعمال
فرمایاہے اوراس ’حبل‘کی تفسیرکے بارے میں حضرت عبداﷲ بن مسعودرضی اﷲ عنہ نے
اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کایہ ارشادنقل فرمایاہے کہ ’حبل‘سے مراد’’قرآن
مجید‘‘ہے،یعنی اﷲ نے مسلمانوں کوحکم دیاکہ وہ آپسی اتحادواتفاق کے لیے قرآن
کو اپنا نقطۂ اتحادبنالیں اوراس کے احکام پرمضبوطی سے عمل پیرارہیں اورآپس
میں پھوٹ نہ ڈالیں،گویاقرآن ہمارے لیے ’’مرکزاتحاد‘‘ہے،جس کاحکم بذات خوداﷲ
جل شانہ‘ نے دیا ہے،جس کی تشریح اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس طرح
فرمائی ہے کہ:اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لیے تین چیزوں کوپسندفرمایاہے اورتین
چیزوں کوناپسند،پسندیدہ چیزیں یہ ہیں: (۱)تم اﷲ کے لیے عبادت کرو،اوراس کے
ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہراؤ۔(۲)اﷲ تعالیٰ کی کتاب کومضبوطی سے
تھامو،اورنااتفاقی سے بچو۔(۳)اپنے حکام اوراولوالامرکے حق میں خیرخواہی
کاجذبہ رکھو۔اوروہ تین چیزیں جن سے اﷲ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں یہ ہیں:(۱)بے
ضرورت قیل وقال اوربحث ومباحثہ۔(۲)بلاضرورت کسی سے سوال کرنا۔ (۳) اضاعت
مال۔(ابن کثیرعن ابوہریرۃؓ)
ذراغورکریں!قرآن نے کتنے حکیمانہ اندازمیں مسلمانوں کے لیے مرکزاتحادکوبیان
کیاہے،حالاں کہ اقوام عالم کے لیے اتحادکامرکزجداگانہ تھا،کسی کے لیے اس کی
قومیت ہی اس کامرکزاتحادتھا توکسی کے لیے اس کاملک،کہیں کالوں کے لیے
کالاہوناتوگوروں کے لیے گوراہونا،اسی طرح عرب میں قبیلہ
مرکزاتحادہواکرتاتھا،قریش کے لیے قریش اوربنوتمیم کے لیے بنوتمیم
مرکزاتحادتھا،یعنی ہرجگہ ہرملک اورہرقبیلہ میں نقطۂ اتحادالگ الگ تھا،نسلی
اورنسبی رشتوں کے ساتھ وطنی اورلسانی وحدیت مرکزاتحادبناہواتھاکہ ہندی ایک
قوم اور عربی ایک قوم،کہیں آبائی رسم ورواج کووحدیت کامرکزبنالیاگیاتھاکہ
جولوگ ان رسم ورواج کے اداکرنے کے پابندہوں گے وہی ایک قوم سمجھے جائیں گے
بقیہ لوگ اس قوم سے خارج ہوں گے جیسے ہندستان میں آریہ سماج وغیرہ۔غرض کہ
کہیں بھی کوئی ایسامرکزاتحادنہیں تھاکہ جس پرپوری قوم ایک اصول کے تحت
متحدہوسکے،یہ تمام وہ اصول وضوابط اور اتحادکے مراکزتھے جوانسانوں کے بنائے
ہوئے تھے جس کانامکمل ہونافطری تھاایسے وقت میں اﷲ تعالیٰ نے رنگ ونسل
اورقبیلوں وقوموں میں بٹے انسانوں کومتحدکرنے کے لیے ایک جامع اصول نازل
کیااوریہ حکم دیاکہ اے ایمان والو!خوہ تم دنیاکے جس گوشہ کے بھی رہنے والے
ہو،تم جس نسل اورنسب کے بھی ہو،نہ تمہاراگوراہونااس بات کی علامت ہے کہ
تمہارانقطۂ اتحادالگ ہواورنہ تمہاراکالاہونااس مرکزاتحادمیں شامل ہونے کے
لیے مانع ہے،خواہ تم ہندی ہویاعربی،امریکی ہویایورپی،چاہے تم پہاڑکے رہنے
والے ہو یا جزیروں میں زندگی بسرکرنے والے،یادرکھو!تمہارے لیے
مرکزاتحادواتفاق صرف اورصرف ایک ہے اوروہے اﷲ رب العالمین اوراحکم الحاکمین
کانازل کیاہوا’’قرآن مجید‘‘ یہ وہی قرآن مجیدہے جوتمام شکوک وشبہات سے
پاک،تمام تحریف وتاویل سے محفوظ اورپوری عالم انسانیت کے لیے رہنمائے ہدایت
ہے۔تمہارے لیے لازم ہے کہ تم اس قرآن کو مضبوطی سے پکڑلو،اس کے احکام پرعمل
کرو،فروعی مسائل میں ہزاراختلاف سہی مجموعی طورپرکلمۂ توحید’’لاالہٰ الااﷲ
محمدرسول اﷲ ‘‘کی بنیادپرپوری دنیامیں ایک امت محمدیہ کے نام
پرمتحدہوجاؤ،اسی میں تمہارے لیے فلاح ہے،کامیابی وکامرانی ہے۔
ایک طرف قرآن کے اصول اتحادپرنظرڈالیں،اوردوسری جانب ملت اسلامیہ ہندیہ کے
منتشرہوتے شیرازہ پرغورکریں تویہ بات صاف دکھائی دیتی ہے کہ آج ہمارے اندر
اختلاف کی وجہ صرف اورصرف قرآن کے اس نظریہ سے منحرف ہوناہے۔ہم ببانگ دہل
یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم حامل قرآن وسنت ہیں،ہم محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کی
امت ہیں، اور ساتھ ہی ہم دین کے داعی اوراس کے محافظ ہیں،پھربھی
ہماراشیرازہ منتشرہے،آخرکیوں؟ہم مسلکوں،فرقوں،جماعتوں سے ہوتے ہوئے ٹکڑوں
میں بٹ چکے ہیں؟ ہمیں برباد کرنے کے لیے پوری دنیا’’الکفرملۃ واحدۃ‘‘کے
اصول پرعمل پیراہواکر ایک پلیٹ فارم پرمتحدہوچکے ہیں،اورہم بربادہونے کے
لیے مسلک ومشرب سے آگے بڑھ کر جماعتوں سے الگ ہوکراتنے ٹکڑوں میں بٹ چکے
ہیں کہ ایک چھوٹے سے چھوٹے معمولی دشمن کامقابلہ بھی ہمارے لیے ناممکن
ہوچکاہے،آخرکیوں؟ان کی کیاوجوہات ہیں؟کبھی ہم نے غورکیاہے اس پر؟نہیں،کیوں
کہ ہم نے کبھی اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی،بس ہم میں سے ہرشخص کایہ حال
ہے کہ اسے پنی فکرہے،ہمارااپناکام ہوگیااورہم چلتے بنے،ہم نے پلٹ کرکبھی یہ
نہیں سوچاکہ نہ جانے اس اختلاف و انتشارسے ملت اسلامیہ اورامت محمدیہ
کاکتنانقصان ہورہاہے؟کبھی یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی،ان سب کی وجہ
صرف اورصرف ایک ہے اوروہ ہے قرآن وسنت سے دوری ،احکام خداوندی سے روگردانی
اورمرکزاتحادسے اپنے ذاتی مقاصدکے لیے راہ فرار اختیار کرنا ہے۔ انا اور
خواہشات نفس کی تکمیل کے لیے جماعتوں سے اختلاف پیداکرکے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی
مسجدتعمیرکرنا،عہدے اورمناصب کے لالچ میں جماعتوں کے ٹکڑے کرنایہ سب وہ
وجوہات ہیں جس کی بنیادپرآج ملت اسلامیہ ہندیہ کاشیرازہ بکھرچکاہے اوروہ
چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے جس کاخمیازہ عام مسلمانوں کو بھگتنا
پڑتا ہے۔
بہرکیف!اب بھی وقت ہے کہ ملت اسلامیہ ہندیہ کی نمائندگی کرنے والی ملی
تنظیمیں آپس میں سرجوڑکربیٹھیں،اورآپسی فروعی اختلافات کوپس پشت ڈالتے ہوئے
ایک نقطۂ اتحاد ’’لاالٰہ الااﷲ محمدرسول اﷲ ‘’صلی اﷲ علیہ وسلم پرجمع
ہوجائیں،ہروہ شخص جواس کلمہ کاپڑھنے والاہواسے ایک پلیٹ فارم پرجمع
کیاجائے،خواہ مسلک کے اعتبارسے وہ شافعی ہو،مالکی یاحنبلی یاپھرحنفی
ہو،سلفی ہویاکسی بھی مسلک ومشرب سے تعلق رکھنے والاہوآخرکلمۂ
توحیدکااقرارکرنے والاتوہے ،ان سب کوایک پلیٹ فارم پرجمع کیاجائے اورکم
ازکم مشترکہ پروگرام کے تحت ایک ایسی جماعت تشکیل کی جائے کہ جب بھی حکومت
وقت کے سامنے مسلمانوں کی نمائندگی کامسئلہ آئے توایسانہ ہوکہ یہ فلاں
تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں تویہ سنی حلقہ کے نمائندہ شخص ہیں تویہ شیعہ جماعت
کی نمائندہ شخصیت ہیں،نہیں بلکہ وہاں صرف اورصرف اس ایک متحدہ ملت اسلامیہ
ہندیہ کی نمائندہ جماعت ہو،تبھی ہم بااثرہوسکتے ہیں ورنہ وہی ہوگاجوگذشتہ
صدیوں سے ہوتاچلاآیاہے۔یہ کسی بڑے المیہ سے کم نہیں کہ سیاسی جماعتیں جوکہ
اخلاقی قدروں سے عاری اوراصول وضوابط سے خالی ہوتی ہیں وہ تو کرسی اقتدارکے
حصول کے لیے کم ازکم مشترکہ پروگرام بناکرایک پلیٹ فام پرجمع ہوجاتی ہیں
اورامت محمدیہ جس کے پاس ہدایت کے لیے قرآن وسنت موجودہے،مرکزاتحاد’’لاالٰہ
الااﷲ محمدرسول اﷲ‘‘ہے پھربھی متحدنہیں ہیں۔گذشتہ دنوں ہندستان کی ایک
مقتدرملی تنظیم مسلم مجلس مشاورت نے ہندستان کی دیگرملی تنظیموں کے لیے
اتحادکی ایک اچھی مثال پیش کی ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ دیگروہ تمام
تنظیمیں جواس طرح کے آپس کے اختلاف وانتشارکاشکارہوچکی ہیں امت مسلمہ کی
بھلائی کے لیے اتحادکی اس مثال کوسامنے رکھتے ہوئے اپنے فروعی اختلافات
کوبھلاکرملت اسلامیہ کے وسیع ترمفادات کوپیش نظررکھتے ہوئے آپس میں
متحدہوجائیں،اس حقیقت سے وہ بھی باخبرہیں کہ ان کے اس اختلاف کا عام
مسلمانوں کو کتنی قیمت چکانی پڑتی ہے،لیکن ذاتی انااورمفادپرستی ،عہدے
اورمناصب کی لالچ انہیں متحدہونے سے بازرکھے ہوئی ہے،جبکہ قرآن کایہ اصول
ان کے سامنے ہے،ہم ان کے لیے صرف اﷲ سے یہی دعاکرسکتے ہیں کہ اﷲ انہیں
ہدایت کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین۔
اس وقت وطن عزیزکی جوصورت حال ہے اس کے پیش نظرہندستان کی تمام چھوٹی بڑی
ملی تنظیموں کامتحدہوناناگزیرہے،اس کی بہت ہی آسان شکل ہے،تمام تنظیمیں
سماجی وفلاح کاموں کواپنے حسب صلاحیت اوراپنے اپنے اصولوں پررہ کرانجام
دیں،لیکن ملت اسلامیہ ہندیہ کے وسیع ترمفادات کے پیش نظروہ آپس میں قومی
سطح پراپناایک وفاق تشکیل دیں کہ جس کے بینرتلے وہ ہندستان میں بسنے والے
عام مسلمانوں کے مفادکی بات کریں،یہ بڑااہم اورنازک وقت ہے،۲۰۱۴ء کے انتخاب
کی آمدآمدہے،اس سے قبل پانچ ریاستوں میں انتخاب ہوناہے،بہت سولیے،کم ازکم
اب توخواب غفلت سے بیدارہوجائیں اورصرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے نہیں بلکہ
پوری ملت اسلامیہ ہندیہ کے وسیع تر مفادات کاخیال رکھتے ہوئے ایک پلیٹ فارم
پرمتحدہوجائیں،آپ کایہ اتحادپوری دنیاکے لیے ایک مثال ہوگا،اورآپ صرف
ہندستان ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پرمسلمانوں پرہونے ہوالے مظالم کوروکنے میں
ایک بڑاکرداراداکرسکیں گے ،ورنہ علامہ اقبال کی زبان میں یہی کہاجاسکتاہے:
متحدہوتوبدل ڈالوزمانہ کانظام……منتشرہوتومروشورمچاتے کیوں ہو٭ |