اعدل الاصحاب ، مزین منبر و محراب ، ثانی الخلفاء ، مرادِ
مصطفی ، قدیم الاسلام ،کامران مقام، فارقِ حق و باطل ، امام الھدیٰ ،
امیرالمؤمنین ، خلیفۃ المسلمین ، پیکر شجاعت ، جبل استقامت، عاشقِ زارِ
رسول اکرم ،حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ وہ شخصیت ہیں، جنہیں حضور پر
نور شافع یوم النشور ﷺ نے بارگاہِ خداوندی سے مانگ کر لیا تھا۔ قدرت نے ازل
ہی سے آپ کو بانی اسلام کی تائید و نصرت اور دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے
لئے چن رکھا تھا۔ آپ اعلان نبوت کے چھٹے سال 27برس کی عمر میں حلقہ بگوش
اسلام ہوئے۔
آپ کے اسلام لانے پر صرف اہل زمین ہی نہیں ، اہل آسمان نے بھی خوشی کے
شادیانے بجائے اور حضرت جبرائیل امین نے اہل آسمان کی طرف سے بارگاہِ رسالتﷺ
میں مبارکباد پیش کی۔ حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کا اسلام فتح مبین ، آپ
کی ہجرت نصرت خداوندی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انکا شجرۂ نسب 9ویں پشت
میں جناب کعب بن لوی پر حضور اکرم ﷺ کے شجرۂ نسب سے مل جاتا ہے۔ آپ کا
خاندان سارے عرب میں شرافت و نجابت اور عزت و عظمت کے اعتبار سے اہم اور
خاص مقام و مرتبہ کا حامل تھا۔ قبیلہ قریش کی سفارت آپ ہی کے سپرد تھی۔
نزاعی امور میں آپ کا فیصلہ حرف آخر تسلیم کیا جاتا تھا۔ جسمانی و جاہت اور
بلندوبالا قامت کی وجہ سے عرب کی ممتاز اور قدآور شخصیتوں میں نمایاں نظر
آتے تھے۔ دنیا آپ کی جسمانی طاقت اور منہ زوری کا لوہا مانتی تھی۔ شہسوار
میدان خطابت ہونے کے علاوہ شناور بحر فصاحت و بلاغت بھی تھے۔ صرف دورِ
جاہلیت ہی میں نہیں، اسلامی تاریخ میں بھی آپ کو زریں بلب کی حیثیت حاصل ہے۔
آپ ان دس صحابہ کرام میں دوسرے نمبر پر ہیں، جنہیں انکی زیست میں ہی ان کے
آقا و مولیٰ ﷺ نے جنت کی بشارت دے دی تھی۔ آپ حضور اکرم ﷺ کے دوسرے خلیفہ
ہیں۔ آپ کا دورِ خلافت دین کی نشرواشاعت، اسلامی حکومت کی وسعت و انصاف کی
فراوانی ، عوام کی خوشحالی اور اسلامی حکومت کی وسعت ، عدل انصاف کی
فراوانی ، عوام کی خوشحالی اور اسلامی علوم و فنون کی ترقی و ترویج کا دور
تھا۔ باطل قوتیں آپ کے نام سے لرزہ براندام تھیں۔ جو دیکھتا وہ آپ کا رعب و
دبدبہ اورجلال سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا، حتیٰ کہ آپ کو دیکھ کر شیطان
بھی اپنا راستہ بدل لیتا تھا۔ قرآن مجید کی متعدد آیات مبارکہ آپ کی رائے
کی تائید میں نازل ہوئیں۔ حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے آپ کو خلیفہ منتخب
فرمایا۔ 26ذی الحجہ 23ھ کو مجوسی غلام ابو لولو فیروز نے آپ پر قاتلانہ
حملہ کیا اور یکم محرم 24ھ کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ آپ کی مدت خلافت
دس سال چھ ماہ اور چار دن ہے۔
فاروقی افکار و نظریات :۔دورِ حاضر افتراق کا دور ہے۔ اس دور میں جہاں مالی،
معاشی اور معاشرتی مشکلات و مصائب کی کثرت ہے۔ وہاں ذہنی ، ایمانی اور
اسلامی بحران بھی عروج پر ہے۔ مذہب کے نام پہ عوام الناس کے ایمانوں کے
ساتھ ناروا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ ہر فرقہ اپنے خود ساختہ عقائد و نظریات اور
افکار و تخیلات کو اصل دین باور کراکے اہلسنت و جماعت کے مبنی برحقائق
عقائد و اعمال کو ’’حرف غلط‘‘ کی طرح متعارف کرا رہا ہے۔ تاہم اس بات میں
کوئی شبہ نہیں کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے افکار و اعمال شرک و بدعت کی
آمیزش سے قطعاً پاک ہیں۔ عقائد واعمال صحابہ پر کاربند حضرات یقینا جادۂ حق
پر گامزن ہیں۔ حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ صحابہ کرام میں ایک جلیل القدر
مقام کے حامل ہیں۔ درج ذیل سطور میں آپ کے چند افکار و نظریات پیش خدمت ہیں،
بغور ملاحظہ فرمائیں! اور صراطِ مستقیم کا سراغ لگائیں!
محبت مصطفی ﷺ جان ایمان :۔ایک روز بارگاہِ رسالتﷺ میں صحابہ کرام حاضر خدمت
تھے،رحمت عالم ﷺ نے حضرت فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنہکا ہاتھ اپنے دست مبارک میں
لے رکھا تھا۔ گویا حضرت عمر رضی اﷲ عنہ پر رحمت ایزدی کی موسلا دھار بارش
ہورہی تھی۔ خصوصی شفقت و محبت کا اظہار ہو رہا تھا کہ حضرت عمر گویا ہوئے:
’’یارسول اللّٰہ لانت احب الی من کل شییء الا نفسی۔‘‘ ’’یارسول اﷲ ! آپ
مجھے اپنی جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔‘‘ (بخاری)
تاجدار مدینہ ، راحت قلب و سینہ ، محبوب دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’لا
والذ ی نفسی بیدہ حتی اَکون الیک من نفسک۔‘‘ ترجمہ: ’’نہیں ! اس ذات کی قسم
جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے(تمہارا ایمان کامل نہیں ہو سکتا) جب تک
میں تجھے تیری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
بقول امام ملا علی قاری علیہ الرحمہ آپ ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمانے کیساتھ
ساتھ روحانی تصرف فرمایا اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے باطنی تصورات و خیالات
کو فی الفور تبدیل فرما کر اپنا عشق انکے سینے میں جاگزیں کر دیا۔ (مرقات)
دنیا و مافیھا کی محبتوں کو دل سے یوں نکال دیا جیسے مکھن سے بال نکالاجاتا
ہے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا باطن نبوی رنگ میں رنگا گیا تو حضرت عمر پکار
اٹھے: ’’فانہ الان واللّٰہ لانت احب الی من نفسی فقال النبیﷺ الان یا عمرا‘‘
’’قسم بخدا ! حضور ﷺاب تو آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ تو آپ ﷺ
نے فرمایا: عمر ! اب ٹھیک ہے۔‘‘
غور فرمایا آپ نے؟ ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ ساری کائنات ، اولاد
اور والدین حتیٰ کہ اپنی جان سے بھی زیادہ محبت ، الفت اور مودت رسول اکرم
ﷺ کی ذات بابرکات کے ساتھ کی جائے۔ محبت کے انتہائی مقام شدتِ محبت اور فرطِ
مؤدت کا دوسرا نام عشق ہے۔ گویا حضوراکرم ﷺ ہم سے مطالبہ فرما رہے ہیں کہ
اگر کامل ایما ن چاہتے ہو تو یہ دولت تمہیں عشق و محبت کرنے کی بدولت ہی
نصیب ہو سکتی ہے اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اسی بات پر لبیک کہی۔ لیکن آج
کل عشق رسول کو بیہودہ الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔ عشق رسول اپنانے والوں کو
طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کچھ بھی ہو حضور رسول اکرم ﷺ اور جناب
فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے اس واقعہ نے روزِ روشن کی طرح واضح کر دیا کہ
محمد کی محبت دین حق کی شرطِ اول ہے
اسی میں ہوا گر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
گستاخ رسول واجب القتل ہے:۔دورِ نبوی میں ایک منافق اور یہودی کاکسی امر
میں جھگڑا ہو گیا۔ فیصلہ کیلئے ثالث کی ضرورت پڑی۔ تو منافق چاہتا تھا کہ
یہودیوں کے سردار کعب بن اشرف کے پاس جاکر تصفیہ کر ا لیا جائے۔ یہودی کہنے
لگا تو اچھا مسلمان ہے کہ کلمہ اسلام کا پڑھتا ہے اور فیصلہ کعب بن اشرف کا
مانتا ہے۔ فیصلہ تیرے نبی (محمد ﷺ) سے کرائیں گے۔ یہودی سمجھتا تھا کہ کعب
تو رشوت وغیرہ کے لالچ میں آکر غلط فیصلہ کر دیگا، لیکن مسلمانوں کے نبی
حضرت محمد مصطفیﷺ کی بارگاہ میں کسی اپنے اور پرائے کا فرق روا نہیں رکھا
جاتا۔ وہاں تو جو حق بجانب ہو، اس کے حق میں فیصلہ صادر کر دیا جاتا ہے۔
لہٰذا چارو نچار منافق کو بارگاہِ نبوی ﷺمیں جانا پڑا۔ امام المنصفین ، سید
العالمین ،رحمۃ اللعالمین علیہ الصلٰوۃ والتسلیم نے فریقین کے بیان سماعت
فرمانے کے بعد یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ باہر آکر منافق یہودی سے
جھگڑنے لگا کہ مجھے یہ فیصلہ قطعاً نامنظور ہے۔ میں تو حضرت عمررضی اﷲ عنہ
کا فیصلہ تسلیم کرونگا۔ یہودی نے لاکھ سمجھایا کہ بڑی عدالت کے فیصلہ کو
ٹھکرا کر چھوٹی عدالت میں مقدمہ دائر نہیں کرواتے ، لیکن منافق نہ مانا۔
حتیٰ کہ دونوں آستانہ فاروقی پر حاضر ہوگئے۔آنے کا مقصد پیش کیااور اپنے
اپنے مؤقف کو واضح کیا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ بھی اپنا فیصلہ سنانے لگے تھے
کہ یہودی بول پڑا۔ عمر! فیصلہ سناتے وقت یہ بات ذہن میں رکھ لیں کہ نزاع کا
فیصلہ آپ کے نبیﷺ نے میرے حق میں کر دیا ہے، لیکن یہ نہیں مانتا۔ حضرت
فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے جونہی یہ الفاظ سنے آپ کی آنکھوں میں سرخی اترآئی،
فرمایا میرا انتظار کرو میں ابھی آیا۔ گھر میں داخل ہوئے جب واپس آئے تو
ہاتھ میں چمکتی ہوئی تلوار تھی، اس منافق کی گردن پر تلوار چلاتے ہوئے
فرمایا: ’’ھکذا اقضی بینی من لم یرض بقضاء اللّٰہ و رسولہ۔‘‘ (خازن ۔تاریخ
الخلفاء) ’’جو اﷲ اور اسکے رسول کے فیصلہ پر راضی نہ ہو میں اسکا یہی فیصلہ
کرتا ہوں۔‘‘
چونکہ اس آدمی نے رسول اﷲ ﷺ کے فیصلہ کو ٹھکرا کر آپ کی زبردست توہین کی
تھی ، حضرت عمر رضی اﷲ عنہجیسی غیرت مند، جانثار اور عاشق زار شخصیت یہ کب
گوارا کر سکتی تھی کہ ان کے جیتے جی کوئی انکے محبوب ﷺ کے حکم اور فیصلہ کو
ٹھکراتا پھرے۔ آپ نے اس منافق کی نماز، روزہ ،عبادت و ریاضت اور کلمہ گوئی
کاکوئی اعتبار نہ کیا۔ گویا بتلا دیا کہ جو ظالم ہمارے آقا محبوب خدا
،تاجدارِ انبیاء ﷺ کی تعظیم و توقیر اور ادب و احترام بجا نہیں لاتا اسکی
عبادت و ریاضت ، تقویٰ و طہارت اور زہدونفاست کا کوئی اعتبار نہیں، وہ واجب
القتل ہے۔
ترقی پسند لوگوں کو یہ بات قطعاً اچھی نہیں لگتی کہ کسی کلمہ گو شخص کو
گستاخ رسول یا واجب القتل اور مرتد کہا جائے۔ ان کے زعم میں جو آدمی روزے
کا پابند ہو، کلمہ اسلام پڑھتا ہو، وہ لاکھ گستاخیوں کا مرتکب ہو، ضروریات
دین کا منکر ہو، نبوت و رسالت کی تنقیص کرتا پھرے، اس سے بصد عزت و اکرام
پیش آنا چاہئے۔ اس کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرنا چاہئے جس طرح کہ کسی
مسلمان سے کیا جاتا ہے، جبکہ یہ بات سراسر غیر اسلامی ہے۔ اگر گستاخ رسول
کیلئے کوئی نرمی کا پہلو نکلتا ہوتا تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہضرور نکالتے۔
لیکن آپ نے اس منافق کی گردن اڑا کر قیامت تک آنیوالے غیرت مند مسلمانوں کو
بتا دیا کہ گستاخ رسول کوئی بھی ہو، بہرحال وہ واجب القتل ہے اور یہی بات
قرآن و حدیث کی واضح نصوص سے ثابت ہے۔
ذات کا وسیلہ :۔دورِ فاروقی میں ایک مرتبہ قحط پڑ گیا ، بارش کی سخت ضرورت
تھی اور لوگ جاں بلب تھے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے صحابہ کرام اور دیگر
حضرات کو ساتھ لیا اور بارگاہِ ربوبیت میں دستِ سوال دراز کیا۔ دعا میں
حضرت عباس رضی اﷲ عنہ (حضور ﷺ کے چچا) کو وسیلہ بنایا اور مالک الملک کی
بارگاہ میں عرض کیا۔ ’’اللھم انا کنا نتوسل الیک نبینا صلی اللّٰہ تعالی
علیہ وآلہ وسلم فتسقینا وانا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا قال فیسقون۔ ‘‘
’’اے اﷲ !ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی ﷺ کا وسیلہ پیش کیا کرتے تھے تو تو
ہمیں سیراب فرماتا تھا اور اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی کے چچا کا وسیلہ
لے کر آئے ہیں، ہمیں سیراب فرما! حضرت انس فرماتے ہیں کہ انہیں سیراب کیا
گیا۔‘‘ (بخاری)
صرف یہی نہیں بلکہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے لوگوں کو خطاب فرماتے ہوئے ارشاد
فرمایا: ’’رسول اﷲ ﷺ حضرت عباس رضی اﷲ عنہسے ویسا ہی سلوک کیا کرتے تھے،
جیسا ایک بیٹا اپنے باپ سے کرتا ہے۔ پس اے لوگو! تم بھی حضور ﷺکے طریقہ کو
اپناتے ہوئے آپ سے ویسا ہی سلوک کرو! ’’واتخذوہ وسبیلۃ الی اللّٰہ۔‘‘ ’’اور
حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کا وسیلہ اﷲ کی بارگاہ میں پیش کرو!‘‘(فتح الباری)
دیکھ رہے ہیں آپ! کس قدر محبت تھی حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو محبوب دو جہاں ،
تاجدارِ مرسلاں، رسول انس وجاںﷺسے کہ ان کے چچا کا وسیلہ پیش کر رہے ہیں۔
معلوم ہوا نبیوں کے علاوہ دوسرے بزرگوں کا وسیلہ پیش کرنا بھی درست ہے۔
تبرکات کی اہمیت :۔ایک روز حضرت فاروق اعظمرضی اﷲ عنہ نے بارگاہِ مصطفوی
میں عرض کیا: ’’یارسول اللّٰہ لو اتخذنا من مقام ابراھیم مصلی۔‘‘ یارسول اﷲ
! ہم مقام ابراہیم (جس پتھر پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے
خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی) کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لیں۔‘‘ (بخاری)
ابھی یہ بات عرض کی ہی تھی کہ اﷲ رب العزت کی طرف سے حکم آ گیا: ’’واتخذوا
من مقامِ ابراھیم مصلی۔ ‘‘ ترجمہ: ’’مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا
لو!‘‘
چونکہ اس پتھر نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مبارک قدموں کے بوسے لئے تھے
جس کی بنا پر وہ متبرک ہو گیا تھا، اس کا مقا م عام پتھر سے بلند و بالا
تھا اور اسکا ادب و احترام لازم و ضروری تھا۔ انبیاء کرام اور نیک لوگوں سے
نسبت و سنگت رکھنے والی اشیاء بھی افضل و اعلیٰ ہو جاتی ہیں۔ ان سے برکت
حاصل کرنا فاروقی نظریہ ہے، جسکی تائید اﷲ تعالیٰ نے بھی فرما دی ہے۔
محبوب خدا، حضرت رسول مجتبیٰ علیہ التحیۃ والثناء سے منسوب ہونے والی ہر
چیز ممتاز اور منفرد ہو جاتی ہے۔ حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ مسجد حرام میں
حجر اسود کے قریب آئے، بوسہ لے کر فرمانے لگے۔’’انی لا علم انک حجر لا تضر
ولا تنفع ولولا انی رایت النبی یقبلک ما قبلتک۔ ‘‘ ’’بے شک میں جانتا ہوں
تو ایک پتھر ہے۔ تو نہ نقصان دیتا ہے اور نہ نفع اور اگر میں نے نبی اکرم ﷺ
کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہو تا تو میں تجھے کبھی نہ چومتا۔‘‘
(بخاری)
معلوم ہوا جس چیز کی نسبت محبوب دو عالم حضور ﷺ سے ہو جائے، وہ نفع دیتی ہے
اور اس میں برکت آجاتی ہے۔
حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کو سنت محبوب ﷺ سے اتنا پیار تھا کہ دن رات
بارگاہِ خداوندی میں شہر محبوب میں موت کی دعائیں مانگا کرتے۔ عرض کرتے۔
’’اللھم ارزقنی شھادۃ فی سبیلک واجعل موتی فی بلد رسولک۔ ‘‘ (بخاری) ’’اے
اﷲ! مجھے اپنے راستے میں مقام شہادت عطا فرما! اور اپنے رسول کے شہر
(مدینہ) میں مجھے موت عطا فرما!‘‘
شہر مدینہ تو محبوب کی جائے سکونت ہے خدا تو اس محبوب کے مبارک تلوؤں سے
لگنے والی مٹی کی بھی قسمیں ارشاد فرماتا ہے۔ اگر محبوب کے قدم سے مس ہونے
والی جگہ کا یہ مقام ہے تو محبوب کے بدن سے مس ہونے والی جگہ (گنبد خضراء)
کا مقام کیا ہوگا، وہ کس قدر عظمتوں اور برکتوں کا حامل ہوگا؟
نبی غیب داں، مخبر صادق ، حضرت رسول اکرم ﷺ نے اپنی ظاہری زندگی میں ہی
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو شہادت کی خبر دے دی تھی، اسی لئے آپ مقام شہادت کی
دعائیں بھی مانگتے رہے۔ بالآخر آپ کو خدا نے اس بلند مقام پر سرفراز
فرمایا۔ ابولولومجوسی نے خنجر کے ساتھ آپ کو زخمی کیا، زخم بہت گہرا تھا جو
کہ جان لیوا ثابت ہوا۔ وفات سے قبل دیگر و صایا کے علاوہ آپ نے اپنے
صاحبزادے حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ کو فرمایا کہ جاؤ! ام المؤمنین حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں عرض کرو! ’’یستأذن عمر ان یدفن مع
صاحبیہ۔ (تاریخ الخلفاء) ’’عمر اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی
اجازت مانگتے ہیں۔‘‘
حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ نے حضرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہم
کی خدمت میں یہ عرض پیش کی تو آپ نے فرمایا کہ وہ جگہ میں نے اپنے لئے
سنبھال رکھی تھی لیکن میں عمر کو اپنے اوپر ترجیح دیتی ہوں۔ جاؤ! عمر سے جا
کر کہہ دینا کہ آپ کو وہاں دفن ہونے کی اجازت ہے۔ حضرت عبداﷲ نے جب یہ
خوشخبری حضرت عمر کو سنائی تو آپ کی خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ آخر وقت
آپ کو یہی حسرت تھی کہ کاش! مجھے محبوب کے دامن میں جگہ نصیب ہو جائے۔ جب
آپ کی دلی آرزو پوری ہوئی تو آپ نے اس پر خدا کا شکر ادا کیا کہ گوہر مراد
حاصل ہوا۔
قارئین کرام! ان چاروں واقعات سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ محبوبان
خدا کی طرف منسوب ہونے والی چیزوں کو مبارک اور متبرک سمجھنا، محبوب کی
نسبت کا احترام کرنا، شہر مدینہ میں موت کی تمنا کرنا اور متبرک مقامات پر
فوت شدگان کو دفن کرنا درست اور پسندیدہ ہے اور اسکی مخالفت کرنا سراسر
نادانی و جہالت ہے۔ اگر متبرک مقامات سے برکت حاصل کرنا شرک اور غلط ہوتا
تو حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ مندرجہ بالا انداز ہر گز نہ اپناتے۔
علم غیب :۔مدینہ منورہ کے مبارک پہاڑوں میں احد پہاڑ ایک امتیازی شان کا
حامل ہے۔ اس پہاڑ کے متعلق سرور عالم ﷺ نے فرمایا ہے: ’’احد جبل یحبنا
ونحبہ۔ ‘‘ (بخاری)
’’احد پہاڑ ہے کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘
اس محب اور محبوب پہاڑ کی ایک دن قسمت جاگی۔ لامکاں کے مہماں، تاجدار
مرسلاں ﷺ نے حضرت صدیق اکبر ، حضرت فاروق اعظم اور حضرت عثمان غنی رضی اﷲ
عنہ کو ساتھ لیا اور اس پہاڑ کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے مشرف فرمایا۔ احد
پہاڑ نے جب اپنی پشت پر ان مبارک ہستیوں کو جلوہ فرما دیکھا تو خوشی سے
جھومنے لگا۔ اپنے مقدر پہ ناز کرنے لگا کہ جس محبوب کو عرش پر بلایا گیا
تھا آج میری قسمت کا ستارہ بلند کرنے خود ہی تشریف لے آئے ہیں۔ پہاڑ جھوم
رہا تھا کہ حضور اکرم ﷺ نے اسے پاؤں مبارک سے ٹھوکر لگائی اور فرمایا:
’’اثبت احد فا نما علیک نبی و صدیق وشھیدان۔‘‘ ’’احد ٹھرجا! کیونکہ تجھ پر
نبی ، صدیق اور دو شہید ہیں۔‘‘(بخاری)تجھے یہ سعادت نصیب ہوئی ہے اور تو اس
شرف سے مشرف ہوا ہے کہ تجھ پر اﷲ کا نبی ، ابوبکر صدیق اور عمر و عثمان
شہید تشریف فرما ہیں۔
اس مقام پر نبی غیب دان ﷺ نے حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہماکو شہید
کہہ کر یہ واضح فرمایا کہ دونوں کو طبعی موت نہیں، شہادت کی موت نصیب ہوگی۔
اندازہ فرمائیں علم نبوی کا! کہ ان دونوں حضرات نے اپنے اپنے دورِ خلافت
میں شہید ہونا تھا لیکن آپ نے قبل از وقت ہی وہ خبر سنا دی ہے۔
حضور ﷺغیب پر مطلع ہیں اور وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کے غلاموں کا خاتمہ کس
حالت میں ہوگا۔
وہ عمر جس کے اعداء پہ شیدا سقر
اس خدا دوست حضرت پہ لاکھوں سلام
مصطفےٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
|