ہم نے تو اپنے پچھلے کالم میں ہی یہ عرض کر دیاتھا کہ
ڈرون حملوں کے باوجود نیٹو سپلائی نہیں رُکے گی کیونکہ ہماری تاریخ یہی
بتلاتی ہے کہ ہم احتجاج تو ہزاروں کی تعداد میں ریکارڈ کرواتے ہیں لیکن پھر
تھک ہار کر اُسی تنخواہ پر کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ عمران خاں صاحب نے
اپنی پریس کانفرنس میں فرمایا کہ اگر ڈرون حملے نہ رکے تو ہم نیٹو سپلائی
بند کر دیں گے ۔اِس سے پہلے خیبر پختونخواہ کے وزیرِ اعلیٰ جناب پرویز خٹک
بھی یہی بات زور دے کر کہی لیکن امریکا اپنی شرارتوں سے باز نہ آیا اور ایک
دفعہ پھر ڈرون ’’کھڑکا‘‘ دیا اور ایسا کھڑکایا کہ تحریکِ طالبان پاکستان کا
امیر حکیم اﷲ محسود اور اُس کے قریبی ساتھی اُس کی غذا بن گئے ۔ حکیم اﷲ
محسود کی ہلاکت جمعرات کو ہوئی جبکہ ہمارا تیز و طرار میڈیا اور وزارتِ
داخلہ اِن ہلاکتوں سے بے خبر رہے ۔لیکن جب غیر ملکی نیوز ایجنسی کے ذریعے
حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت کی خبر پہنچی تو سارے نیوز چینلز پر ’’بریکنگ نیوز
‘‘کا طوفان بپا ہو گیا ۔جب ہر نیوز چینل یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا
زور لگا رہا تھا کہ نیوز سب سے پہلے اُس نے بریک کی ہے ، اُس وقت بھی یا تو
طالبان حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت کی تصدیق کرنے سے گریزاں نظر آئے یا پھر
ہمارے بھولے بھالے وزیرِ داخلہ۔دوسری طرف اِس ڈرون حملے کے بعد نہ تو خیبر
پختون خواہ حکومت کی طرف سے کوئی بیان آیا اور نہ ہی اپنے خاں صاحب کی
تلملاہٹ دکھائی یا سنائی دی البتہ جب حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت کی افواہ اُڑی
تو سونامی نے بھی تھوڑی سی انگڑائی لی ۔ہو سکتا ہے کہ مجھے ہی غلط فہمی
ہوئی ہو اور تحریکِ انصاف کے رہنما ’’اپنی‘‘ سونامی کے گرد گھیرا ڈال کے
بیٹھے نیٹو سپلائی بند کرنے کے طریقے سوچ رہے ہوں۔کپتان صاحب نے آج (2
نومبر ) کور کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں ہو سکتا ہے کہ نیٹو
سپلائی بند کرنے کے بارے میں غور کیا جائے اور یہ فیصلہ کیا جائے کہ مستقبل
قریب میں جب امریکہ افغانستان خالی کرکے واپس چلا جائے تو نیٹو
کنٹینرزروکنے کا اعلان کر دیا جائے۔ظاہر ہے کہ اگر نیٹو سپلائی بند کرنے کا
فیصلہ ہوتا ہے تو اُس پر عمل درآمد کے لیے سال ڈیڑھ سال کا عرصہ تو درکار
ہو گا ہی ۔
چونکہ ہمیں بھی اپنے ’’سونامیے‘‘ ہونے پر فخر ہے اِس لیے ہمارے ذہن میں بھی
نیٹو سپلائی بند کرنے کے کئی طریقے آئے اور ہماری فہم و فراست اور ذہنِ
رَسا نے جو بہترین طریقہ سوچا وہ یہ ہے کہ چونکہ ہماری پارٹی کو ’’انٹرنیٹ
پارٹی‘‘ کہا جاتا ہے اِس لیے ہم انٹرنیٹ پر نیٹو سپلائی بند کر دیں ۔ ہم نے
اپنے میاں سے بھی نیٹو کنٹینر بند کرنے کے بارے میں مشورہ کیا تھا لیکن
اُنہوں نے حسبِ سابق ایسا جواب دیا جس سے ہم جَل بھُن کر ’’سیخ کباب‘‘ ہو
گئے ۔اُنہوں نے کہا ’’تُم جا کر کسی نیٹو کنٹینر کے آگے دھرنا دے دو، اگر
کنٹینر تمہارے اوپر سے گزر گیا تو بھلے میں ’’خس کم جہاں پاک ‘‘ کہوں لیکن
تم ’’شہیدِ پاکستان ‘‘کہلاؤ گی اور قوی اُمید ہے کہ مجھے تمہاری شہادت کے
عوض حکومتِ پاکستان سے پندرہ بیس لاکھ روپے بھی مل جائیں گے ۔ویسے تو حکومت
کا ریٹ فی شہادت دو ، چار لاکھ ہی ہے لیکن تمہاری شہادت چونکہ ’’وکھری ٹائپ‘‘
کی ہو گی اِس لیے بونس کے طور پر زیادہ پیسے ملنے کا قوّی امکان ہو گا ۔
دوسری طرف اگر تمہارے دھرنے سے کنٹینر رُک گئے تو تمہاری ’’بَلّے بَلّے‘‘
ہو جائے گی اور تحریکِ انصاف کی طرف سے تمہاری قومی اسمبلی کی سیٹ پکی ‘‘۔میرے
میاں چونکہ پکّے نواز لیگیے ہیں اِس لیے تحریکِ انصاف کے خلاف زہر اُگلتے
رہتے ہیں لیکن میں اُن کی زہرناک باتوں کا بُرا منانے کی بجائے اپنی دھن
میں مگن رہتی ہوں۔یہ چونکہ ہم ’’سونامیوں‘‘ کی عزت بے عزتی کا معاملہ ہے
اِس لیے میں اب بھی دھڑا دھڑ نیٹو سپلائی روکنے کے طریقے سوچ رہی ہوں۔نیٹو
سپلائی روکنے کا ایک اور تیر بہدف نسخہ یہ ہے کہ کپتان صاحب طالبان کی
خدمات حاصل کر لیں اور اُنہیں سمجھائیں کہ ڈرون چونکہ اُنہی کے ساتھیوں کو
’’پھڑکا‘‘ رہے ہیں اور حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت کے بعد اُن کی غیرتِ ایمانی
کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اپنے خودکُش بمباروں کا رُخ نیٹو کنٹینر کی طرف موڑ
دیں ۔مجھے یقین ہے کہ دو چارکنٹینر ہی ہوا میں بکھرنے پر اوباما پہلے سے
زیادہ ’’روسیاہ‘‘ ہو جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ امریکی خود ہی اُسے اٹھا کر
افریقہ کے جنگلوں میں پھینک آئیں اور ہم گنگنانے لگیں کہ ’’پہنچی وہیں پہ
خاک ، جہاں کا خمیر تھا ‘‘۔یہ طریقہ یقیناََ ثمر آور ہو سکتا ہے لیکن اِس
میں ایک قباحت یہ ہے کہ طالبان کپتان صاحب پر کم کم ہی یقین کرتے ہیں اِس
لیے اُنہیں طالبان کو سمجھانے کے لیے مولانا فضل الرحمٰن کی خدمات حاصل
کرنی ہونگی جو شاید خاں صاحب کی غیرت و حمیت گوارا نہ کرے ، اگرکر بھی لے
تو سارا کریڈٹ مولانا صاحب لے اُڑیں گے اور ہو سکتا ہے کہ کریڈٹ کے ساتھ
مولانا صاحب خیبر پختونخواہ کی حکومت بھی لے اُڑیں اور خاں صاحب ہاتھ ملتے
رہ جائیں ۔اِس نسخے کی خطرناکی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اِس نسخے کو
چاروناچار ہی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
نیٹو کنٹینر جذبۂ ایمانی سے بھی روکے جا سکتے ہیں جو ہمارے علماء کے ہاں
وافر مقدار میں پایا جاتا ہے ۔ اگر علماء کرام سے تھوڑا سا جذبۂ ایمانی
اُدھار لے کر استعمال میں لایا جائے تو یقیناََ نیٹو سپلائی روکنے میں
افاقہ ہو سکتا ہے ۔ایسی صورت میں جماعتِ اسلامی تو ویسے ہی ہماری اتحادی ہے
، جماعت الدعوۃ نے نیٹو سپلائی روکنے کا اعلان کر رکھا ہے بس سُنی اتحاد
کونسل اور کچھ دوسرے علماء کو ساتھ ملانے کی ضرورت ہے ۔ایسی صورت میں محترم
جنرل حمید گُل کا جذبۂ ایمانی بھی کام میں لایا جا سکتا ہے اور جنابِ شیخ
رشید احمد کی ’’بڑھکیں‘‘ بھی کارگر ہو سکتی ہیں ۔ویسے تو سونامی اکیلے ہی
نیٹو کنٹینر روک سکتی ہے لیکن سنا ہے کہ اتحاد میں برکت ہوتی ہے اور اگر
اتحاد میں ایمان کا ’’تڑکا‘‘ بھی لگا دیا جائے تو یہ برکت اور بھی مضبوط ہو
جاتی ہے ۔مجھے تو یقین ہے کہ اگر یہ نسخہ استعمال کیا جائے تو ہم نیٹو
کنٹینر تو کیا وائٹ ہاؤس پر بھی سبز ہلالی پرچم لہرا سکتے ہیں ۔اِس سے پہلے
بھی ہم دَلّی کے لال قلعے پر ہلالی پرچم لہرانے ہی والے تھے کہ حکومتِ ہند
نے منت سماجت شروع کر دی اور ہم نے اپنا ارادہ ترک کر دیا لیکن امریکی فی
الحال منت سماجت کی بجائے ’’دھکے شاہی ‘‘ سے کام لے رہے ہیں جو مستقبل قریب
میں نہ سہی ، مستقبل بعید میں تو یقیناََاُن کا بیڑا غرق کر دے گی ۔
چونکہ تا حال ہمارے گھوڑے تیار نہیں اور شنید ہے کہ ہمارے ایٹم بموں کو بھی
پڑے پڑے دیمک اتناچاٹ چکی ہے کہ اب وہ محض ’’پھُل جھڑیاں‘‘ رہ گئے ہیں اِس
لیے نیٹو سپلائی روکنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ پوری قوم یک زبان ہو کر
امریکہ کو ’’بد دعائیں‘‘ دینا شروع کر دے ۔عرصہ ہوا مسلمانوں کی دُعائیں
بارگاہِ ربی میں مستجاب نہیں ہو رہیں اِس لیے بہتر یہی ہے کہ ہم اپنا سارا
زور دُعاؤں کی جگ بد دعاؤں پہ صرف کر دیں ۔ویسے بھی یہ قوم بد دعاؤں کی
ماہر ہے اور ہم نے تو ایسی ایسی بد دُعائیں ایجاد کر رکھی ہیں کہ پوری لغت
مرتب کی جاسکتی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ
خُدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ہم اپنی حالت پر خوش اور مطمعن ہیں اور فی الحال اِس کو بدلنے کا کوئی
پروگرام بھی نہیں ۔اسی اطمینانِ قلب کی بنا پر ہم یہ چاہتے ہیں کہ باقی
دنیا بھی ہمارے جیسی ہو جائے ، اگر دُعاؤں سے نہیں تو بد دُعاؤں سے ہی سہی
۔
ہمارے پاس ڈرون حملے روکنے کے بھی کئی نسخہ ہائے کیمیا موجود ہیں لیکن فی
الحال ہم وہ ظاہر نہیں کر رہے کیونکہ ابھی تک حاکمانِ وقت نے ہماری خدمات
سے استفادہ کرنے کی کسی خواہش کا اظہار نہیں کیا جس پر ہمیں حیرت ہے ۔اسی
حیرت کا اظہار جب ہم نے اپنے ایک جاننے والے سے کیا تو اُس نے مسکراتے ہوئے
کہا کہ اگر حکومت تمہاری خدمات سے استفادہ کرکے ڈرون حملے رکوانے میں
کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر طالبان کو کون سنبھالے گا؟۔اسی لیے حکومت بھرپور
احتجاج تو کرتی ہے لیکن ڈرون رکوانے میں دلچسپی نہیں رکھتی ۔جاننے والے کی
بات میری سمجھ میں آ گئی اور میں نے اپنے نسخہ ہائے کیمیا کو پوٹلی میں
باندھ کر آنے والے وقتوں کے لیے محفوظ کر لیا ۔ |