اکیسویں صدی کا مسافر

فاقہ کشوں کی بستی میں جو آدمی موٹا تازہ دکھائی دے اُس کا وجود ساری بستی کے لئے باعث ِ شرم ہے۔ یہاں جو آدمی فربہ ہے اُس نے ضرور کسی اکڑے جسم والے کا حق مارا ہے اور جو اکڑے جسم والا ہے اُس نے کسی لاغر کا پیٹ کاٹا ہے۔ جو لاغر ہے اُس نے ضرور کسی ناتواں کے سامنے سے روٹی کا ٹکڑا اُٹھا کرکھایا ہے۔ اور جو ناتواں ہے وہ ضرور کسی کفن چور کی خیرات پر زندہ ہے۔

ہم اُن بیماریوں کی بستی میں رہتے ہیں جو یہ نہیں جان سکے کہ اُن کا مرض کیا ہے۔ ٹی وی دیکھ کے لگتا ہے کہ وہ سارے گونگے لوگ جو مدتوں سے کچھ بولنے سے قاصر تھے اچانک گویائی ملنے پر بولنے لگے ہیں۔ بولنے پر آئے ہیں تو یہ سمجھ نہیں پارہے کہ بولیں تو کیا بولیں؟ لہٰذا انہوں نے زبان سے وہ سب کچھ اُگلنا شروع کردیا ہے جو حلق تر کرے اور ہونٹوں کی سکت میں ہے۔

عجیب افتاد ہے کہ ہم جب اونچے اُٹھے تو نیچے بہت نیچے چھلانگ لگانے کیلئے۔ جب زمانے سے مہلت پائی تو اپنے ہی خلاف سازش اور آپس میں ہی دراندازی میں مصروف ہوگئے۔ جو کچھ سوچا گیا ہے وہ بری طرح سوچاگیا ہے۔ تب ہی جو کچھ ہورہا ہے وہ بری طرح ہورہا ہے۔ کیا اس بستی میں کوئی اچھی خبر،کیا کوئی نوید کی کرن بھی کہیں نظر آتی ہے۔

ہے یقینا ہے۔

دولت مندوں کے لئے خوش خبری ہے کہ حاجت مندوں نے بھنگ پی لی ہے۔ وہ اب اپنی حاجتوں سے بے پرواہ ہوچکے ہیں۔

امریکی اور اطالوی نژاد ریسٹورنٹس میں کھانا تناول کرتے صاحب ثروت لوگوں کے لئے خوش خبری ہے کہ اُس خوبصورت ماحول سے باہر پائے جانے والے بھوکے لوگوں کو اپنی بھوک کا احساس ختم ہوچکا ہے۔ وہ پیٹ پر پتھر باندھ کر سوچکے ہیں یا شاید اپنے بچوں کو قتل کرکے خود کشیاں کرچکے ہیں۔ تاریخ کے ایسے ظالم ادوار میں ایک ایسا مرحلہ آتا ہے جب مظلوم اپنی برسوں پرانی حالتوں پر اتنے دل برداشت ہوجاتے ہیں کہ مطمئن نظر آتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ مرحلے ہماری بستی پر بھی گزر رہے ہیں۔کچھ سجھ نہیں آتا کہ کون کس کے حق میں بول رہا ہے کس کو کس سے شکایت ہے۔ اِس قدر اندھیرا ہے کہ علم ہی نہیں ہوتا کہ کس کا گریبان کس کے ہاتھ میں ہے۔ یہ شور شرابہ شاید اسی لیے ہے بھوکا اپنی بھوک اور حاجت مند اپنی حاجت ہی بھول جائے اور تماشہ دیکھنے میں لگارہے۔ سارا دن اور ساری رات تماشہ دیکھنے میں محو ہو رہے۔ یہی ہم سب کا حال ہے۔ کہیں لکھا تھا۔

ایک غریب لیکن ہنرمند مصور نے ایک کبوتر کی بہت خوبصورت تصویر بنائی کونے پر اپنا نام لکھا اور بازار میں رکھ دی۔ ایک امیر آدمی بازار سے گزرا۔ اُس کو وہ تصویربہت پسند آئی۔ اُس نے اپنی کار رکوائی۔ اُترا اور مصور سے پوچھا کہ اس تصویر کی قیمت کیا ہے۔ مصور نے جو قیمت بتائی اُس نے اُس سے دُگنی ادا کی اور کہا اِس پر اپنا نام ہٹا کر میرا لکھ دو۔ مصور نے خوشی خوشی اپنا نام مٹا کر امیر آدمی کا نام خوش خط لکھ دیا۔اخبار میں لپیٹ کر باندھی اور امیر آدمی کے حوالے کردی۔ امیر آدمی اُس تصویر کو گھر لایا اور نوکر کو حکم دیا کہ کھول کر ڈرائنگ روم میں لگادو۔ کچھ دیر میں وہ ڈرائنگ روم میں گیا تو کبوتر کی خوبصورت تصویر کہیں نہیں نظر آئی۔ غصہ سے لال پیلا ہو کر نوکر کو بلایا۔ تصویر کا پوچھانوکر نے ایک تصویر کی طرف اشارہ کیاجس پر ایک خونخوار سی موٹی بلی بنی ہوئی تھی۔ وہ سمجھ گیا کہ مصور نے اُس کو دھوکہ دیا ہوگا۔ اُس نے تصویر لی اور واپس گیا ڈانٹ کر مصور سے پوچھا کہ کبوتر والی تصویر کہاں گئی۔ مصور نے غور سے تصویر دیکھی اور مصومیت سے بولا’’حضور یہ تصویر وہی والی ہے دراصل یہ بلی کبوتر کھا گئی ہے‘‘ وہ دیکھئے زمین پر کبوتر کا خون بھی نظر آرہا ہے۔

Nadeem Sarfaraz
About the Author: Nadeem Sarfaraz Read More Articles by Nadeem Sarfaraz: 2 Articles with 1455 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.