جس وقت حضرت امام حسینؓ مدینہ سے مکہ روانہ ہوئے تو انہوں
نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کے نام ایک وصیت نامہ لکھا جس میں اپنی تحریک
کا محرک بیان کیا اور واضح کیا ہے کہ آپ مختلف حالات میں کیاطریق کار
اپنائیں گے۔ اس کے علاوہ امام نے ان باطل محرکات کی جانب بھی اشارہ کیا ہے
جو انسان کو اکساتے ہیں اور شہوات و نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے جنگ پر
آمادہ کرتے ہیں، لیکن مردان حق ایسے محرکات سے پاک ہوتے ہیں۔ نیز یہ بتایا
ہے کہ مردان حق کی تحریک نفسانیت سے پاک ہوتی ہے۔ حضرت امام حسین ؓ کا وصیت
نامہ یہ ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
"یہ وصیت ہے حسین بن علی بن ابی طالب کی محمد عرف ابن حنفیہ کے نام۔ میں
حسین گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور محمدؑ اللہ
کے بندے اور رسول ہیں جو حق تعالی کی طرف سے پیغام حق لیکر آئے۔ جنت حق ہے،
جہنم حق ہے اور اس میں شک نہیں کہ قیامت آنے والی ہے۔ اس دن اللہ مردوں کو
زندہ کرے گا۔"
یہ سب وہی عقائد ہیں جن پر ایمان لانا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے اور ان
عقائد کے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا۔ ان کے تذکرے سے حضرت امام حسینؓ کا
مقصدیہ تھا کہ اس وقت یہ اصول خطرے میں ہیں اور اگر معاملہ یونہی چلتا رہا
تو عین ممکن ہے کہ حکومت وقت اصول دین سے بھی تعرض کرنے سے گریز نہ کرے۔
دراصل حضرت امام حسینؓ کی تحریک کا اصل محرک یہی بنیادی اصول تھے جن پر
مسلمانوں کے تمام مذہبی اور اجتماعی معاملات کا دارومدارہے۔
اس کے بعد حضرت امام حسینؓ نے لکھا:
"میری تحریک کا مقصد نہ زیادتی ہے نہ سرکشی اور نہ ہی نفسانیت پر مبنی ہے۔
میرا یہ مقصد نہیں کہ میں فساد پھیلاوں یا کسی پر ظلم کروں میں تو اپنے
نانا کی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں اور اپنے نانا اور اپنے والد کی سیرت
کی پیروی کررہا ہوں"
اس وصیت نامے میں ان میں سے کوئی بات نہیں جو آجکل کے وصیت ناموں میں عموما
لکھی جاتی ہیں۔ اس میں اپنے لیے فاتحہ دلوانے اور ایصال ثواب کرنے کی وصیت
نہیں کی گئی بلکہ حضرت امام حسینؓ تو صرف اپنی تحریک کا مقصد واضح کرنا
چاہتے تھے۔ اس لیے آپ نے بتادیا کہ میری تحریک کا مقصد نہ کوئی تفریح ہے نہ
مال و دولت جمع کرنا ، نہ کسی پر ظلم ڈھانا اور نہ فساد پھیلانا ۔ یہ جملہ
کہ "میں اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں " ظاہر کرتا ہے کہ ۶۰
ہجری میں امت کو کسی شدید مذہبی اور اجتماعی بحران کا سامنا تھا جسے دور
کرنے کے لیے خونیں انقلاب کی ضرورت تھی جو حضرت امام حسینؓ کے ہاتھوں ہی
انجام پاسکتا تھا۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا:
"اگر لوگ میری دعوت کو قبول کرتے اور حق کو تسلیم کرتے ہیں خیر اور اگر
قبول نہیں کرتے تو میں صبر کروں گا" یہاں صبر سے مراد یہ نہیں ہے کہ میں
ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جاوں گا کہ یزید جو چاہے کرے بلکہ صحیح معنی میں
صبر سے مراد جو فرزند رسولؓ کے شایان شان ہے اور ایمان اور خداپرستی کی
اساس ہے یعنی پھر میں تن تنہا ہی اس راستے کو طے کروں گا یہاں تک کہ اللہ
میرے اور ان لوگوں کے درمیان فیصلہ کردے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا
ہے۔ اس کے بعد حضرت امام حسینؓ نے تحریر فرمایا: "میرے بھائی یہ میری وصیت
ہے تمہارے لیے میں صرف خدا سے توفیق کا طلبگار ہوں ۔ اسی پر میرا بھروسہ ہے
اور اسی کے پاس ہمیں لوٹ کر جانا ہے" |