مورخہ تیرہ جولائی سن دو ہزار نو
بروز سوموار کو محترم سلیم اللہ شیخ صاحب کا ایک عدد آرٹیکل بعنوان ‘شعر،
شاعر اور فلمی شاعری‘ نظروں سے گزرا اور جس میں شاعروں، اور شاعری سے شغف
رکھنے والوں کا جہاں مذاق اُڑایا گیا وہیں پر انہیں مزاحیہ طرزِ تحریر میں
ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے اور اس قسم کے ذوقِ جمال رکھنے والوں کو اندر
کھاتے ‘خدا کے ناپسندیدہ بندے‘ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ موصوف
بدقسمتی سے ‘ملاں ازم‘ کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں- حیرانگی والی بات یہ ہے کہ
موصوف نے ‘حمد‘، ‘نعت‘ اور ‘مرثیہ‘ کا ذکر تک نہیں کیا کہ یہ بھی شاعری کی
ہی صنف ہیں، اور جس کی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ موصوف نے معزز قارئین کو
دانستہ تصویر کے ایک ہی رُخ کو منفی بنا کر دکھایا جبکہ دوسرا رُخ چُھپا
لیا- اس ڈنڈی سے جو بات ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ موصوف نے اپنے کالم میں
‘حقیقت پسندی‘ کا عملی مظاہرہ نہیں کیا جس سے ان کی جابنداری بُری طرح عیاں
ہو جاتی ہے- اگرچہ محترم سلیم اللہ شیخ صاحب کا طرز نگارش مزاحیہ تھا لیکن
راقم السطور اس کو سنجیدگی سے اس لیے لینے پر مجبور و لاچار و بے بس ہے کہ
اول تو مذکورہ آرٹیکل ‘ادب و مزاح‘ میں نہیں بلکہ باقاعدہ ‘شعر و شاعری‘
کیٹیگری میں پڑھنے کو ملا ہے اور دوم اس آرٹیکل سے بہت سے ایسے لوگ اور
معزز قارئین جو شعر و شاعری سے شغف و دلچسپی رکھتے ہیں اور اسی ہماری ویب
ڈاٹ کام پر اپنے ذوقِ شاعری کا بھرپور اظہار بھی کرتے رہتے ہیں، کی (دانستہ
یا نادانستہ) حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور انہیں احساسِ کمتری اور سب سے بڑھ
کر ‘احساسِ گناہ‘ میں مبتلا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی
جائے اتنی ہی کم ہے- خاکسار کا یہ آرٹیکل ان تمام معزز صاحبان کی حوصلہ
افزائی کے لیے بطور خاص پیش کیا جا رہا ہے جو شاعری میں دلچسپی لیتے ہیں
اور اسے دوسری اصناف کے مقابلے میں ترجیح دیتے ہیں-
ٹیسی ٹس کہتا ہے کہ سنگ تراش کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ہتھوڑی، مصور کا قلم
اور شاعر کا خیال تینوں عالمِ بالا سے اترتے ہیں لیکن اسے پورا سچ نہیں
سمجھنا چاہیے- قدرت نے ہر انسان کے اندر ہر قسم کی صفات بھر دی ہیں، اب یہ
انسان پر منحصر ہے کہ وہ کن صفات کو اولیت دیتا ہے، کن خصوصیات کو پروان
چڑھاتا ہے، کن باتوں میں دلجمعی سے دلچسپی لیتا ہے- ملکی معاشرہ کے اکثر
لوگ اپنے اندر موجود صفات کو جاننے کی تگ و دود ہی نہیں کرتے، اپنے اندر
جھاتی مارنے کی تکلیف ہی گوارا نہیں کرتے، وہ دنیا کی گہما گہمی میں اس قدر
کھو چکے ہوتے ہیں کہ ان کو اپنی طرف توجہ کرنے کی فرصت ہی نہیں ہوتی- جس کے
نتیجہ میں انسان میں موجود ٹیلنٹ ظاہر ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتا ہے- بعض
افراد نثر میں لوہا منواتے ہیں اور بعض لوگ شاعری میں- شاعری بہ نسبت نثر
کے زیادہ مشکل اور کٹھن کام ہے- جس طرح ایک مصور سارے منظر کو رنگوں میں
بھر دیتا ہے اسی طرح شاعر بھی اپنے خیالات و محسوسات و احساسات و تجربات و
ادراکات کو لفظوں میں اتار دیتا ہے-
انسان کا صرف جسم ہی نہیں ہے بلکہ اس کی روح بھی ہے- جسم کی پرورش کے لیے
تو مادی اشیاء کافی و شافی ہوتی ہیں لیکن روحانی پرورش اور دیکھ بھال کے
لیے مادی اشیاء بےکار اور فضول ہیں- روحانی دیکھ بھال اور پرورش کے واسطے
قدرت نے ایسی چیزیں پیدا کی ہیں جو کثیف نہیں بلکہ لطیف ہیں- ان چیزوں میں
ایک گانا بھی ہے اور گانا ہمیشہ شاعری کا محتاج ہوتا ہے- اچھی شاعری روحانی
تسکین اور پرورش کا ایک بہت بڑا ذریعہ بنتی ہے-
ہم جانتے ہیں کہ انسان لوہے کا نہیں بنا ہوا، ہر انسان خواہ کوئی کام کرتا
ہو، وہ دن بھر کی مشقت کے بعد کچھ آرام اور سکون بھی چاہتا ہے- اس مقصد کے
حصول کے لیے مختلف لوگ اپنی اپنی پسند و رحجان و طبیعت و ذوق کے مطابق
مختلف ذرائع اپناتے ہیں- کچھ لوگ کلبوں میں جاتے ہیں، کچھ پارکوں میں، کچھ
سینما گھروں میں، کچھ کھیتوں کی ہریالی دیکھنے زرعی زمین پر جانا پسند کرتے
ہیں، کچھ گپیں ہانکتے ہیں اور کچھ بیکار لیٹے رہتے ہیں- لیکن ایسے لوگوں کی
اکثریت ہے جو ایسے اوقات میں عمدہ شاعری سے لطف اندوز ہوتی ہے- اچھی شاعری
ہر لطیف بات، صلح و آشتی، اور پیار و محبت کی پرورش کرتی ہے اور اسکا واحد
اور عظیم مقصد دنیا کو زیادہ سے زیادہ خوبصورت اور مثلِ جنت بنانا ہے-
زمانہ جدید میں شاعری کی اہمیت و قدر اس وجہ سے بھی بہت بڑھ جاتی ہے کہ اس
میں اختصاریت و جامعیت ہوتی ہے- مشینی دور میں کہ جب بندے کو اپنے گوانڈھی
کی خبر تک لینے کا وقت نہیں ملتا، مہنگائی کی چکی میں وہ دو دو نوکریاں کر
کے اپنے گھر کی گاڑی آگے کھینچتا ہے تو ایسے میں وقت کی کمی کے باعث شاعری
کی اہمیت نثر سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ ایک شاعر اپنے ایک شعر میں وہ
بات کہہ دیتا ہے جس کے اظہار کرنے میں ایک کالم نگار تین صفحے کالے کرتا
ہے-
اپنے جذبات و تجربات کا شاعری میں اظہار کرنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں
ہوتا کہ جو مرضی آئے اور شاعر بن بیٹھے بلکہ اس کے لیے خون پسینہ ایک کرنا
پڑتا ہے، زیادہ گہرائی میں اترا جاتا ہے، دور تک خیال کو لے جانا پڑتا ہے-
شعر کہنے کے لیے صلاحیت، بصیرت، مسلسل دیکھنے اور سوچنے کی استعداد درکار
ہوتی ہے اور یہ سب تنہائی کے حصول کے بغیر ممکن نہیں ہوتی اور اس مشینی دور
میں تنہائی کے لیے وقت نکال لینا سب سے بڑی کامیابی ہے- جبکہ وہ لوگ جو
شاعری اور شاعروں پر اندھا دھند طنز کے نشتر چلاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ
شاعر بن جانا بھی دراصل ‘حلوہ‘ ہی ہے، درست نہیں- ایسے لوگ شاعری کو محض
عشق و عاشقی کے قصے سمجھ کر اس پر تنقید کرتے ہیں حالانکہ دنیا کا آج کوئی
ایسا موضوع باقی نہیں رہا جس کا اظہار شاعری میں نہ کیا گیا ہو- رومانس،
جبر و استبداد، ظلم و ناانصافی، ہجر، وچھوڑا، وصال، پیار، محبت، سماجی اونچ
نیچ، طبقاتی دنیا، حوصلہ افزائی، ہمت افزائی، معاشرت، رہن سہن، مزاح، ادب،
سیاسیات، مذہبی امور، صلح و جنگ، نئی نئی تحریکیں، اقتصادیات، سماجی کام،
ہمدردی۔۔۔۔۔۔۔ تمام قسم کے موضوعات کو شاعری میں بہ احسن ڈھالا گیا ہے- محض
اس وجہ سے شاعری اور شاعروں کے پیچھے ہاتھ دھو کر دوالے ہو جانے کا کوئی
تُک نہیں بنتا کہ یہ صرف عشق و عاشقی تک محدود ہے اور عشق و عاشقی مذہب میں
اچھی نہیں سمجھی جاتی- یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہر بندے کو ایک
عدد دل لگا ہوا ہے تو اگر وہ دل کی باتیں ‘دلی انداز‘ میں کر ہی لے تو کیا
قیامت ٹوٹ پڑے گی؟ اور تو اور شاعری سے ‘ملاں ازم‘ کی وجہ سے بُغض و عدوات
رکھنے والوں کو اتنا علم ہی نہیں کہ دنیا میں شاید علم کی ابتدا شاعری ہی
سے ہوئی تھی اور حکمت کی انتہا آج بھی شاعری ہے-
جناح کے سیکولر پاکستان کو قیام پاکستان کے فوری بعد ہی ‘اغوا‘ کرنے والی
ملائیت کے کرتا دھرتا بھارت دشمنی کی آڑ میں ہر اس چیز کو نشانہ بناتے ہیں
چاہے وہ چیز کروڑوں دلوں کی دھڑکن میں سدا بہار بن کر ڈیرہ ہی کیوں نہ ڈالے
ہوئے ہو- بھارتی فلموں کو اور بھارتی شاعروں کو برا بھلا کہنا دراصل ملائیت
کی سیاست کی زندگی کے لیے ضروری ہے کیونکہ جب تک پاک بھارت دشمنی کے جراثیم
کشید ہوتے رہیں گے، ملائیت زندہ رہے گی بصورت دیگر اس کی موت واقع ہونا
یقینی ہے- روایت پسندی کی انتہا کا عالم ہے کہ یہ لوگ کام کی بجائے کام
کرنے والے کو دیکھتے ہیں- بھارتی ادیبوں کا دونوں پاکستان اور بھارت میں
عوام کو جگانے میں جو کردار ہے وہ کسی تعریف کا محتاج نہیں- محض اس وجہ سے
بھارت دشمنی کا اظہار کرنا کہ وہ دشمن ہے، عقل دشمنی کا زندہ جاوید ثبوت
ہے- فلمی شاعروں کے ساتھ یہ تعصب کا اظہار ہے کہ ان کا ادب سے کوئی ربط و
ضبط نہیں ہے- یہ ایک ایسی ادبی اور تاریخی بددیانتی ہے جسے معاف نہیں کیا
جا سکتا کیونکہ، ساحر لدھیانوی، قتیل شفائی، احمد راہی، مجروح سلطانپوری،
جاں نثار اختر، کیفی اعظمی، شکیل بدایوانی، تنویر نقوی، سیف الدین سیف ایسے
شاعر ہیں جنہوں نے ادب اور فلم کے لیے جو کچھ لکھا، جو شاعری کی، وہ بڑا
ادب کہلایا اور یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری پوری دنیا میں برسوں گزر جانے کے
بعد آج بھی زندہ ہے اور کروڑوں دلوں پر اپنا تاج سجائے ہوئے ہے-
المختصر، شاعری فنونِ لطیفہ میں سے ایک ہے اور فنونِ لطیفہ انسان کے اخلاق
پر گہرا اثر ڈالنے کی قوت رکھتے ہیں- شاعری انسان کی ایسی اخلاقی اقدار کی
پرورش کرتی ہے جو انسان اور اس کے معاشرے کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے- شاعری
الفت و محبت کی زبان ہے اور شعر ایک کُھلی ہوئی صداقت ہے- آخر میں خاکسار
کے شاعری کے انتخاب میں سے چند اشعار معزز قارئین کے لیے بصدِ خلوص درج
ہیں:
‘ممکن ہے کہ تُو جس کو سمجھتا ہے بہاراں
اوروں کی نگاہ میں وہ موسم ہو خزاں کا‘
‘زمیں کے لوگ تو کیا، دو دِلوں کی چاہت میں
خدا بھی ہو تو اسے درمیان لاؤں مَت‘
‘جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی‘
‘پوچھیے مَے کشوں سے لُطفِ شراب
یہ مزہ پاکباز کیا جانیں‘
‘مُجھے تمہاری جدائی کا کوئی رنج نہیں
میرے خیال کی دنیا میں میرے پاس ہو تُم‘
‘اُس نے خوشبو سے کرایا تھا تعارف میرا
اور پھر مُجھ کو بکھیرا بھی ہوا ہی کی طرح‘ |