ہزار چہرے خود آرا ہیں کون جھانکے گا
میرے نہ ہونے کی ہونی کو کون دیکھے گا
مجید امجد نے 3 جون 1966 کو اپنے بارے میں یہ پیشن گوئی کی
ایک اخبار کی 11 مئی 1974 کی اشاعت میں چھپنے والی ایک خبر کے مطابق"ممتاز
شاعر مجید امجد فرید ٹاؤن ساھیوال میں اپنے گھر پر مردہ پائے گئے.مرحوم کی
میت فرش پر پڑی تھی کہ ایک شخص نے کھڑکی میں سے جھانکا جس پر 2 افراد دیوار
پھاند کر اندر داخل ہوئے تو انہیں مردہ پایا.
فرید ٹاؤن ساھیوال سے سرشام روز ایک سائیکل سوار دھیرے دھیرے سائیکل چلاتا
ہوا روانہ ہوتا راستے میں بزم فکر و ادب کی لائبریری میں کچھ دیر قیام کے
بعد پھر روانہ ہو کر اسٹیڈیم ہوٹل میں دائیں جانب بنے ہوئے کیبن میں آ
بیٹھتا، آہستہ آہستہ طالبان علم و فن وہاں جمع ہو جاتے، منحنی سے وجود والے
اس سائیکل سوار کا نام مجید امجد تھا.
مجید امجد کو دنیا کی بے ثباتی، لوگوں خاص طور پر اپنے ارد گرد پھیلے علم و
فن کے داعی حضرات کی بےحسی کا بڑی شدت سے احساس تھا وہ خود کہتے ہیں
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں ،کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا،کون دیکھے گا
مجید امجد کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف دنیا نے اب کرنا شروع کیا ہے جبکہ
مجید امجد نے خود کہا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب یہ دنیا میرے خیالات کو
پوجے گی، وہ کہتے ہیں
اور اب، یہ اک سنبھلا سنبھلا، تھکا تھکا سا شخص
اب بھی جس کے جھریوں والے چہرے پر اک پیلی سوچ کا بچپن ہے
ساری عمر اس کی
ابھی اس اک دھن کو بڑھاوا دینے میں گزری
مگن مگن بیٹھیں
چاندی کی چھت کے نیچے
اس قرنوں کے بچھونوں پر
مگن مگن بیٹھیں
چنیں خود اپنے خیالوں کے کنکر
یہ کنکر مل کر بن جائیں کے لوحیں
لوحیں، جن کو دنیا اک دن پوجے گی
اور اب یہ اک شخص
اک جانب کو اس کے قد کا جھکاؤ
اور اسی جانب کے بوٹ کی ایڑی گھسی ہوئی
اور اسی جانب کا پلو مڑا ہوا،اک جامد بازو کے نیچے
اور وہ خود ساکت
اس کے گرد ہزاروں تیز ہراساں قدموں کا اک لہراتا جنگل
اور وہ ان قدموں کے سفر میں تنہا
جاتے جاتے کسی نے پوچھا "بھائی کیسے ہو"
اس کی آنکھوں میں بچپن لوٹ آیا
ہنس کے وہ کہنے لگا
" تم تو مجھے پہچانتے ہو، تم جانتے ہو جو زینہ تمہارے دل سے
میرے دل تک ہے
تم میرے دل تک آ سکتے ہو
آؤ گے
آؤ بیٹھ کے اپنے خیالوں کے کنکر رولیں
یہ کنکر مل کر بن جائیں گے لوحیں
لوحیںَ جن کو دنیا اک دن پوجے گی
اور پھراک دن امڈ پڑے گا زمانہ ہماری طرف"
اور پھر مجید امجد نے اپنے خیال کے جو کنکر چنے ان سے واقعی لوحیں رقم
ہوئیں جنہیں دنیا آج پوج رہی ہے اور زمانہ ان کی جانب امڈ پڑا ہے اور اب
جبکہ وہ ہم میں نہیں ہیں ان کی شاعرانہ عظمت کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے.
ڈاکٹر وزیر آغا ان کے بارے میں لکھتے ہیں "شاعر کے باطن کی دنیا خارج کی
مظاہر سے منسلک اور ہم آہنگ ہے مگر یہ ہم آہنگی عافیت کوشی یا فراق کے
مماثل نہیں بلکہ شدید جذبے کی پیداوار ہیں جو جزو کو کل سے مربوط کرتا ہے
جس کے دباؤ کے تحت شاعر اپنی انا کی دیواروں کو عبور کر کے وسیع تر زندگی
سے ہمکنار ہو جاتا ہے اور اس ربط باہم کو دریافت کر لیتا ہے جو کائنات میں
جاری و ساری ہے"
مجید امجد کا کہنا ہے
شہر در شہر منادی ہے کہ
اے خندہ فروشان حیات
ہر بجھی روح کے آنگن میں کھلا چمن امکانات
نہ کوئی سلطنت غم ہے نہ اقلیم طرب
زندگی ہی فقط آئین جہاں بانی ہے
جانے کس تیرہ افق سے یہ گھٹاؤں کے تھرکتے سائے
ماہتابوں کے چمکتے ہوئے سینوں سے نتھر کر آئے
ساتھ لے کر وہ خنک موج، خماریں جھونکے
جن کی زد میں میری تپتی ہوئی پیشانی ہے
اپنے سینے میں جگا کر انہی دورون، انہی یادوں کے فسوں
پھر تمناؤں کے تصویر کدے میں نگراں بیٹھا ہوں
سانے صفحہ صد رنگ رموز کونین
کانپتی انگلیوں میں موقلم مانی ہے
مجید امجد-- فیض احمد فیض، ناصر کاظمی اور ن م راشد جیسے لب و لہجے کے شعرا
کا ہم عصر ہے لیکن اس کے ہاں عرب و عجم کے شعری رچاؤ کی بجائے مقامی رنگ
نمایاں ہے- مجید امجد نے اردو زبان کو مقامی رنگ دیا یہی وجہ ہے کہ ان کی
شاعری میں زمین کی مہک نمایاں ہے یا شاید دبستان ساھیوال کا یہی خاصہ ہے.
مجید امجد کی غزل کا بھی اگرچہ کوئی مقابل نہیں ہے لیکن ان کی اصل شناخت
نظم ہے اپنی نئی شکل اور نئی معنوی صورت کے ساتھ. مثال کے طور پر وطن کے
حوالے سے وہ کہتے ہیں
وطن چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں
یہ تیرے جسم تری روح سے عبارت ہے
لیکن وطن کو نظم میں انہوں نے نئے مفاہیم سے روشناس کرایا ہے
وطن ڈھیر اک ان منجھے برتنوں کا
جسے زندگی کے پسینوں میں ڈوبی ہوئی محنتیں دربد
ڈھونڈھتی ہیں
وطن، وہ مسافر اندھیرا
جو اونچے پہاڑوں سے گرتی ہوئی ندیوں کے
کناروں پہ
شاداب شہروں میں رک کر
کسی آہنی چھت سے اتھتا اھواں بن گیا ہے (پہاڑوں کے بیٹے)
مجید امجد کی مشاہداتی نظر جب توسیع شہر کے نئے ہرے بھرے اشجار پر چلنے
والے تیشے پر پڑتی ھے تو وہ بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں
بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر، بانکے پہرے دار
گھنے، سہانے، چھاؤں چھڑکتے، بور لدے چھتنار
بیس ہزار میں بک گئے سارے، ہرے بھرے اشجار
جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چیر گئے ان ساونتوں کے جسم
گری دھڑام سے گھائل پیڑوں کی نیلی دیوار
کشتے بیکل، جھڑتے پنجر، چھٹتے برگ و بار
سہمی دھوپ کے زرد کفن میں لاشوں کے انبار
آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار
اس مقتل میں صرف اک میری سوچ لہکتی ڈال
مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک، اے آدم کی آل
وہ شخص جس کی شاعری کا ہر رنگ، انگ معنی کا ہشت پہلو لئے ہوئے تھا اپنی
حقیقی زندگی کے اکہرے پن کے ساتھ سوچ کا ایک سمندر چھوڑ گیا.
کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد
میری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول |