دوگانہ وگلے شکوے اور نوازواُوباما ملاقات ...،تمہاری
نظرکیوں خفاہوگئی,خطابخش دوگرخطاہوگئی
جب اُوبامانے نوازشریف کو کہا اِے جی... ،ملاقات پراتنے مغرورکیوں ہو ..؟ہماری
خوشامدپر مجبورکیوں ہو..؟
آج یہ بات تو سب ہی کو معلوم ہے کہ جب ہماری نومولود حکومت کے وزیراعظم
میاں محمدنوازشریف وزارتِ عظمیٰ کا تیسری مرتبہ حلف لینے کے لئے آئے تھے تو
اُنہوں نے اپنے خاندانی درزی سے اپنے لئے خصوصی طور پر جو شیراونی
تیارکرائی تھی اُس کی قیمت اتنی تھی کہ اِس سے کئی غریب گھرانوں کی بچیوں
کی ٹھیک ٹھاک طریقے سے شادی ہوسکتی تھیں، جو شادی کی عمرکو تو پہنچ چکی ہیں
مگراِن کے والدین کے پاس کتنی رقم نہیں ہے کہ آج جتنی کسی لڑکی کی شادی کے
لئے درکارہوتی ہے۔
مگر چونکہ تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کا اعزازوشرف ہمارے
نومولود وزیراعظم میاں محمدنواز شریف کو حاصل ہے کہ یہ تیسری مرتبہ وزارتِ
عظمیٰ کا باضابطہ حلف اُٹھانے والے ہمارے وطنِ عزیزکے پہلے وزیراعظم ہیں
اور وزیراعظم بھی ایسے کہ جو کئی کٹھن مراحل سے گزرنے کے بعد اِس مقام اور
مرتبے تک پہنچے ہیں،توابھی اِس لئے قوم نے اِنہیں صرف حلف اُٹھانے پر اتنی
مہنگی ترین شیروانی سلوانے اورپہننے پر معاف ضرورکردیاہے مگرجیسے یہ اِن
دنوں یعنی اپنی سویا سواسو دِنوں کی حکمرانی میں قوم کے معیار پر پورانہیں
اُترسکے ہیں اگریہ آئندہ بھی ایسے ہی رہے توقوم اِن کا احتساب ضرورکرے گی
اِنہیں جس کے لئے ابھی سے تیاریاں شروع کردینی چاہئے۔
بہرحال..! تب تک کے لئے تو قوم نے اِنہیں معاف کررکھاہے ابھی وقت ہے کہ یہ
اپنا اور اپنی حکومت کا قوم کی طرف سے قبلہ درست کرلیں اور اِس کے مفادات
میں ایسے فیصلے کریں جس سے اِسے فائدے حاصل ہوں ورنہ قوم اگلے ایک دو سالوں
میںاِن کاوہ حشرکرے گی کہ یہ حکمرانی تودورکی بات ہے یہ سیاست کرنابھی بھول
جائیں گے خیرابھی چھوڑیں اِن باتوں کو ایسی باتیںمیں اگلے وقتوںمیں اپنی
کسی اور کالم میں لکھنے کے لئے رکھ چھوڑتاہوں ، اورآگے بڑھتاہوں ۔
ہاں...! تو میں بات کررہاتھااپنے نومولوداور اکلوتے وزیراعظم میاں
محمدنوازشریف جی کی جنہوں نے مُلک کے تیسری مرتبہ بطوروزیراعظم کا حلف ا ُٹھانے
کے لئے مہنگی ترین شیروانی سلوائی اور اِسے انتہائی تُزک واحتشام کے ساتھ
زیب تن بھی کیایقیناجس کے قیمتی ہونے کا یہ اپنی قریبی حلقوں میں اقراربھی
کرچکے ہوںگے اور یوں یہ خود بھی کئی مرتبہ اپنے قریبی حلقوں میں یہ بھی کہہ
چکے ہوں گے کہ یہ خودکواِس کا حقدار بھی سمجھتے ہیںاور اکثر سرکاری و نجی
تقریبات میں اِس کا اظہاربھی کُھلے اور دبے لفظوں میں کرچکے ہوں گے کہ یہ
وطنِ عزیزپاکستان کی تاریخ کے ایسے وزیراعظم ہیں جنہوں نے تیسری مرتبہ اِس
مقام اور مرتبے تک پہنچنے کے لئے کئی آگ و خون کے دریاعبورکئے ہیں،اور یوں
اِس کے بعد یہ شرفِ عظیم اللہ رب العزت نے صرف اِنہیں ہی بخشاہے،کہ یہ اپنی
محنت اوراپنے پرائے کی چاپلوسیوں سے ہی تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے مرتبے
پر فائز ہونے والے ایک ایسے وزیراعظم ہیں جنہیں اِس مقام تک پہنچانے میں
صرف اِن کی دانش اور وہ سیاسی حربے اور چالیں اورایسی ایسی سیاسی حکمتِ
عملیاں بھی شامل ہیں جو کسی اور کے حصے میں نہیں آئیں ہیں۔
یوں اِس بِناپرآج ہمارے وزیراعظم میاں محمدنوازشریف اِس گھمنڈمیں بھی
مبتلاہوگئے ہوں گے کہ یہ اپنی محنت اور جدوجہدسے ہی اِس مقام تک پہنچے
ہیں،اِس لئے قوم نے اِن سے یہ نہیں پوچھاکہ آپ نے اتنی مہنگی شیروانی کیوں
اور کس لئے سلوائی ہے ...؟ جبکہ ایک عام اور سستی سی شیروانی زیب تن کرکے
بھی تو یہ تقریبِ حلف برداری میں شرکت کرکے حلف لے سکتے تھے...؟آج اِسی قسم
کے اور بھی بہت سے ایسے سوالات ہیں ، جو وزیراعظم نوازشریف اور اِن کی
تقریب حلف برداری والی شیروانی سے متعلق قوم کے ذہنوں میں جنم لے چکے ہیں
اِدھراگرمیں ابھی اِنہیں دہرانے بیٹھوں تو بات طول پکڑجائے گی اور میں اپنے
موضوع سے کہیں کا کہیں نکل جاؤں گا،اِسے میں پھر کسی اور کالم کے لئے
چھوڑتاہوں اور اپنے اصل موضوع کی طرف آتاہوں۔
بہر کیف ..! اِس میں کوئی ابہام نہیں کہ نوازشریف ہمارے مُلک کے ایک ایسے
وزیراعظم ہیں جو تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں اوراَب
اِس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اِنہیں یہ مقام و مرتبہ بھلے اپنے پرائے کی
چاپلوسی سے ہی حاصل ہواہے مگر صحیح بات تو یہ ہے کہ یہ تیسری مرتبہ وزارتِ
عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے والے ہمارے اکلوتے وزیراعظم ثابت ہوگئے ہیں،
اور اِس کے ساتھ ہی اِنہیںیہ شرف بھی حاصل ہے کہ یہ بطوروزیراعظم پاکستان
کے سب سے زیادہ امریکی صدورسے ملاقات کرنے والے ہمارے ایسے وزیراعظم ہیں
جنہیںامریکی صدور اکثرکبھی کُھلے توکبھی دبے لفظوں میں دکٹیشنز بھی خوب
دیتے رہےہیں اور اِنہوں نے اِن ڈکٹیشنز پر آنکھیں بندکرکے عمل بھی خوب
کیاہے اور اپنی چاپلوسیوں سے امریکی صدوراور امریکی انتظامیہ کو یہ بھی
باورکرایاہے کہ یہ جس طرح اور جب اور جہاں چاہیں مجھ سے اور میری حکومت سے
اپنے مفادات کے خاطر کام لے سکتے ہیں اور میں اِن کے ہر حکم کو
اپناسرتسلیمِ خم کرتے ہوئے تکمیل کرنے کا پابندرہوں گا۔
جبکہ یہاں امرواقع یہ ہے کہ آج بھی متذکراقسام کے جذبات کو اپنے سینے میں
چھپائے ہماری چھ ساڑھے چھ ماہ کی کچی اور نومولودحکومت کے وزیراعظم
میاںمحمدنوازشریف لگ بھگ اپنے تین درجن پرمشتمل جانثاراور قابلِ
اعتبارواعتماد افرادکے ساتھ جب چارروزہ امریکی یاترا(دورے) پر گئے تواِس کے
لئے بھی اِنہوںنے انتہائی قیمتی اور امپورٹد سوٹ خریدے اورسلوائے زیب تن
کئے ہیں آج جس کااندازہ میری طرح قوم کو بھی وائٹ ہاؤس سے آنے والی خبروں
اور سرکاری اور نجی ٹی وی چینلز اور مُلکی و عالمی اخبارات میں شائع ہونے
والی اُن تصاویرسے بھی ہوگیاہوگا جو امریکامیں نوازشریف اور اِن کے وفودمیں
شامل افراد سے متعلق سامنے آئیں ہیں۔
ارے بھئی ..! اَب ہمارے نومولود وزیراعظم میاں محمدنوازشریف اور اِن کے
وفدمیں شامل افراد ایسابھی نہ کرتے توپھر بتاؤ ہمارے مُلک کے تیسری مرتبہ
منتخب ہونے والے وزیراعظم اور کیاکرتے ..؟،اِس مرتبہ امریکی دورے پر اِنہوں
نے اور اِن کے رفقائے کار نے قومی خزانے کا جتنابیڑاغرق کیاہے آج اِس کا
بھی کوئی پرسانِ حال نہیں ہے، اتنے قیمتی سوٹ زیب تن کرنے کے باوجود بھی
اِنہوں نے مُلک اور قوم کی سلامتی و خودمختاری اور سا لمیت کا سوداکرنے کے
لئے امریکاسے جووعدے اور معاہدے کئے اِس کی ایک جھلک تو قوم نے گزشتہ
دِنوںامریکی ڈرون حملے سے حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن
مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ ہونے سے دیکھ ہی لی ہوگی اورہمارے یہاں اور کیا
کچھ ہونے والاہے اِس کے لئے قوم کو ہر مرتبہ تھوڑی تھوڑی دیرکا
انتظارکرناپڑے گا، نوازاُوباماملاقات میں جو وعدے اور معاہدے ہوئے ہیں اِن
سب کا قوم کے سامنے آنایقینی ہوگیاہے۔
جبکہ اَب اِس سارے منظر اور پس منظر میں راقم الحرف کا خام خیال یہ ہے کہ
آج امریکی ڈرون حملے میں ٹی ٹی پی کے ایک فرنٹ لائن رہنما کی ہلاکت کے
بعددونوں ممالک(پاک امریکا) کی جانب سے آنے والی جو خبروں ہیںاِن سے یہ
اندازہ ہورہاہے کہ جیسے بظاہرتودونوں طرف کی صورتِ حال کشیدہ ہے
مگرایساہرگز نہیں ہے جیسانظرآرہاہے جبکہ اندرونِ خانہ بات کچھ اور ہے،آج جس
کو یہ دونوں باری باری چھپانے اور اِس پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں مصروفِ
عمل ہیں اورموجودہ حالات میں ایسالگتاہے کہ جیسے نوازواُوباما آپس میں
دوگانے کی شکل میں کچھ اِس قسم کے گلے شکوہ اور شکایات کرتے محسوس ہورہے
ہیںاور جیسے حالیہ ڈرون حملے پر اُوباما نوازشریف کو سمجھانے کی کوشش کرتے
ہوئے کہہ رہے ہیںکہ:-
تمہاری نظرکیوں خفاہوگئی
خطابخش دوگرخطاہوگئی ۔
اور اِسی طرح جیسے کہ نوازشریف یہ کہہ رہے ہوں :-
ہمارااِرادہ تو کچھ بھی نہ تھا
تمہاری خطاخودسزاہوگئی۔
اور دوسری طرف نوازشریف کے جواب میں جیسے اُوبامانوازشریف کو سمجھانے کی
کوشش کرتے ہوئے کہہ رہے ہوں کہ: -
ملاقات پراتنے مغرور کیوں ہو
ہماری خوشامدپر مجبورکیوں ہو۔
اوراَب جس پر نواز شریف اُوباما کو کچھ یوں جواب دے رہے ہیں۔
محبت کا اَب کچھ بھی انجام ہو
ملاقات کی ابتدا ہوگئی ۔ |