مولوی فضل اللہ کا تحریک طالبان
پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنا حکیم اللہ محسود کے مار ے جانے سے کہیں زیادہ
اہم خبر ہے۔ اس تبدیلی کے نتائج صرف فاٹا کی ایک ایجنسی تک محدود نہیں رہیں
گے بلکہ نام نہاد امن مذاکرات، تحریک طالبان کی کارروائیوں کے اہداف، سوات
میں امن، پاکستان افغانستان تعلقات کے علاوہ پاکستان اور امریکا کے درمیان
فوجی سطح پر مذاکرات اور بات چیت بھی ان سے متاثر ہو سکتی ہے۔
مولوی فضل اللہ ان عسکریت پسندوں میں سے ایک ہے جو پاکستان کی ریاست سے ہر
طرح کی ٹکر لینے کے لیے اُس وقت سے کمربستہ ہے جب سے وہ پراسرار طور پر
سوات کے گرد پاکستان آرمی کے تنگ گھیر ے میں سے مکھن کے بال کی طرح نکل کر
سرحد کے اُس پار کنڑ صوبے میں جا پہنچا۔ اِس معاملے پر اُن دنوں میری پشاور
میں موجود عسکری حکام سے طویل بحث ہوا کرتی تھی۔ میں دوسر ے صحافیوں کی طرح
یہ جاننے کے لیے بیتاب تھا کہ اتنے کامیاب آپریشن کے باوجود مالا کنڈ
ڈویژن اور اردگرد کے اضلاع میں ریاست کے خلاف شورش برپا کرنے کے پلان کا
سرغنہ پکڑ ا کیو ں نہ جا سکا؟ مولوی فضل اللہ جو اس وقت بعض خبروں کے مطابق
زخمی حالت میں تھا، کبھی بھی ان پھرتیلے لڑاکوں کے طور پر نہیں مانا جاتا
تھا جو گھائو کھانے کے باوجود بڑی مہارت سے اپنی جگہ تبدیل کر لیتے تھے۔
لحیم شحیم، فربہ جسم کا مالک مولوی فضل اللہ مشکل راستوں پر چلنے کا عادی
نہیں تھا۔ اُس کا کام ریڈیو کے ذریعے واعظ کرنا اور اپنے کمانڈرز کو
احکامات جاری کرنا تھا۔ مجھے اپنے سوال کا جواب کبھی نہیں ملا۔ جب بھی
مولوی فضل اللہ کا قصہ اٹھایا جاتا تو یا خاموشی اور یا پھر عدم دلچسپی کا
اظہار بطور ردعمل سامنے آتا۔ اُس وقت ایک انتہائی قابل اور ابھی بھی حاضر
سروس عسکری لیڈر اکثر صحافیوں کے فضل اللہ سے متعلق سوالوں کو ’’غیر
ضروری‘‘ یا ’’غیر اہم‘‘ قرار دیتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ مولوی فضل اللہ
جیسے لوگوں کے پیچھے جانا وسائل کے غلط استعمال کے زمر ے میں آتا ہے۔ وہ
سمجھتے تھے کہ مالا کنڈ ڈویژن میں عسکریت پسندوں کی شکست بھرپور تھی۔ مولوی
فضل اللہ بطور خطرہ مکمل طور پر ٹھکانے لگ چکا تھا لہذا اس پر توجہ دینے کی
ضرورت نہیں تھی۔
پاکستان کے فیصلہ ساز اداروں میں اس قسم کی سوچ اُس وقت بھی تبدیل نہیں
ہوئی جب فضل اللہ نے صحت یاب ہونے کے بعد کنڑ کے گورنر کی سربراہی میں ایک
بڑا لشکر تشکیل دیا۔ جس کو نہ پیسے کی کمی تھی نہ سرحد پار جنگ کے سامان
کی۔ باجوڑ میں فضل اللہ کی طرف سے بڑھتی ہوئی کارروائیوں اور مسلسل جھڑپوں
پر ہماری طرف سے احتجاج تو کیا گیا مگر کبھی بھی تسلسل کے ساتھ یہ مطالبہ
نہیں کیا گیا کہ ہمار ے ملک میں اس دراندازی کو روکا جائے اور فضل اللہ کو
ہمار ے حوالے کیا جائے۔ اس کے برعکس حکومتوں نے یہ جانتے ہوئے کہ صدر حامد
کرزئی اور غیر ملکی انٹیلی جنس کے ادارے فضل اللہ کو پاکستان کے خلاف ایک
زمینی ڈرون کی طرح استعمال کر رہے ہیں۔ کابل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی
خواہش کو ترک نہیں کیا۔ اب یہی فضل اللہ افغانستان میں سے اس تنظیم کی باگ
ڈور سنبھالے ہوئے ہے جسے حکیم اللہ محسود اور اس سے پہلے بیت اللہ محسود نے
وزیرستان میں رہتے ہوئے ملک اور قوم پر حملوں کے لیے استعمال کیا۔ دوسرے
الفاظ میں مولوی فضل اللہ کی صورت میں تحریک طالبان پاکستان اب تحریک
طالبان پاکستان افغانستان بن گئی ہے۔
افغانستان، انڈین اور امریکی انٹیلی جنس ایجنسیز کے لیے اس سے اچھی خبر
شاید اور کوئی نہ ہو۔ یہ تمام ممالک پچھلے کئی سال سے یہی الزام لگاتے چلے
آ رہے ہیں کہ حقانی نیٹ ورک اور ملا عمر پاکستان میں رہتے ہوئے نیٹو اور
آئی سیف کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔ پچھلے دنوں امریکا کے خصوصی ایلچی
برائے افغانستان پاکستان جیمز ڈوبن نے پاکستان کی وزرات خارجہ کو چند صفحات
پر مبنی ایک دستاویز دی۔ جس میں امریکا کی طرف سے حقانی نیٹ ورک کی بڑی بڑی
کارروائیوں کو پاکستان کے کھاتے میں دکھایا گیا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ مولوی
فضل اللہ کو اب پاکستان کے ساتھ حقانی نیٹ ورک کے معاملے پر پیشرفت کرنے کے
لیے استعمال کیا جائے گا۔
مگر اس سلسلے میں اس دبائو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو مولوی فضل
اللہ کا تحریک طالبان کی کمانڈ سنبھالنے کے بعد اوباما انتظامیہ پر پڑ سکتا
ہے چونکہ حکیم اللہ محسود کو مارنے پر واشنگٹن نے یہ نقطہ نظر اپنایا ہے کہ
اس کے قتل سے انھوں نے پاکستان کی تحریک طالبان کے خلاف کارروائیوں میں حصہ
ڈالا ہے جو ان کی طرف سے اچھی دوستی کا ثبوت ہے نہ کہ مذاکرات کو ناکام
بنانے کی کوئی سازش۔ لہذا امریکا کو منطقی طور پر یہی فارمولا مولوی فضل
اللہ سے متعلق بھی اپنانا ہو گا۔ بالخصوص ان حالات میں کہ جب تحریک طالبان
کا یہ قائد افغانستان میں موجود ہے جس کی ہر طرح کی نقل و حرکت امریکا کے
جدید ترین ریڈارز پر چوبیس گھنٹے تصویروں کے ساتھ نظر آتی رہتی ہے۔ اگر
پاکستان کی طرف سے مولوی ٖفضل اللہ کے خلاف امریکی مدد کا مطالبہ کیا جائے
مگر مسترد ہو جائے تو واضح ہو جائے گا کہ اب تحریک طالبان کس کا اثاثہ بن
گئی ہے۔ مگر مولوی فضل اللہ کو پکڑنے کا مطالبہ کرے گا کون؟ میاں محمد نواز
شریف کی حکومت نے تحریک طالبان کو عملًا اپنا منہ بولا بھائی بنا لیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف پہلے سے ہی اس نظریاتی رشتے میں بندھی ہوئی ہے لہذا اس
ماحول میں افغانستان کا تحریک طالبان کا اڈہ بنایا جانا موجودہ حکومت ہضم
کرنے کی کو شش کرے گی۔
بہر حال اس کے باجود طالبان کے ساتھ بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانے کی راہ
میں موجود نئے مسائل سے دامن چھڑ انا ممکن نہیں ہو گا۔ ریاست کے عہدیداران
کے مطابق مولوی فضل اللہ قانون کے تحت مطلوب اور ایک خطرناک مجرم ہے جو ایک
غیر ملک میں بیٹھ کر وہاں کی انٹیلی جنس ایجنسیز کی مدد سے پاکستان کی
سرزمین پر قتل و غارت گری کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اگر ریاست پاکستان کا یہ
موقف برقرار رہتا ہے تو فضل اللہ کی قیادت میں چلنے والی تنظیم سے ’’بھائی
بندی‘‘ والی بات چیت آگے کیسے بڑھے گی؟ اس کا جواب وزیر اعظم نواز شریف
اور عمران خان کو دینا ہو گا۔ اس دوران سوات کے اندر اضطراب اور خوف کی جس
نئی لہر نے جنم لے لیا ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مولوی فضل اللہ ایک
’’غیر اہم مفر ور‘‘ کے مقا م سے اٹھ کر تحریک طالبان کے قائد کی مسند پر جا
بیٹھا ہے۔ وہ اس وقت وہ تمام بدلے چکا سکتا ہے جو اس سرزمین سے نکلتے وقت
اس نے اپنے ذہن پر نقش کیے تھے۔
وہ بدلے کیسے ہوں گے، یہ سمجھنے کے لیے آپ کو اسلام آباد کی پرامن فضا
اور لاہور کے باغات اور رونقوں سے باہر نکل کر سوات جانا ہو گا۔ یہاں کے
باسی اِس سو چ میں پڑ ے ہوئے ہیں کہ اگر میاں نواز شریف، عمران خان اور
مولوی فضل اللہ نے ایک ہی تصویر کے تین رخ بن جانا تھا تو ان کو نواز لیگ
اور تحریک انصاف کے بجائے، تحریک نفاذ شریعت محمدی کو ہی اپنا سیاسی والی
مان کر منتخب کر لینا چاہیے تھا۔ ایک خاتون یہ سوچ کر پریشان ہو رہی تھیں
کہ ان کے خاندان نے خواہ مخواہ سواتی طالبان سے جھگڑا مول لیا اور اب حضرت
مولانا فضل اللہ کابل، اسلام آباد، لاہور اور پشاور میں حاکم سیاسی قوتوں
کے منظور نظر ہو کر مینگورہ کے بیچ اپنا پرانا دفتر دوبارہ کھولے گا تو کیا
ہو گا؟ میں نے ان کا غم غلط کرنے کے لیے کوئی تجویز نہیں دی۔ نہ ہی تسلی کہ
ایسا نہیں ہو گا۔ نواز لیگ اور تحریک انصاف کے حلقوں میں آجکل طالبان کی
محبت عروج پر ہے۔ محبت میں سب کچھ کیا جا سکتا ہے۔ |