امریکہ تو اِس غلط فہمی میں
مبتلاء رہا کہ ہم ڈرون گرا نہیں سکتے جبکہ اِس چھوٹے سے ریموٹ کنٹرول چیل
نما پرندے کو گراتے ہوئے ہمیں شرم محسوس ہوتی رہی ۔مقابلہ برابر کا ہو تو
کوئی مزہ بھی آئے لیکن یہاں تو عالم یہ ہے کہ جب یہ چیل اُڑتی ہے تو ہمارے
شاہین اُسے دیکھ کر مُنہ پھیر لیتے ہیں کہ یہ آئینِ شہبازی کے خلاف ہے ۔
گورے سمجھتے تھے کہ ہم ڈر گئے حالانکہ ہم ’’ڈرتے ورتے‘‘ کسی سے نہیں۔یہی
ثابت کرنے کے لیے ہم نے بھی ایک ڈرون گرا کر امریکہ کو یہ پیغام دے دیا کہ
’’ہم زندہ قوم ہیں ، پائیندہ قوم ہیں‘‘ ۔
ہوا یوں کہ بہاولپور کے صحرا خیر پور ٹامیانوالی میں ہماری مسلح افواج عزمِ
نَو چہارم کے نام سے جنگی مشقیں کر رہی تھی کہ اسی دوران امریکہ نے شمالی
وزیرستان میں ڈرون حملہ کرکے حکیم اﷲ محسود کو ’’پھڑکا‘‘ دیا۔حکیم اﷲ محسود
کو انتہائی محترم امیرِ جماعتِ اسلامی سیّد منور حسن نے شہید قرار دے دیا
اور جب مولانا فضل الرحمٰن سے پوچھا گیا تو اُنہوں نے فرمایا کہ اگر امریکی
حملوں سے کوئی کتا بھی مر جائے تو میں اُسے بھی شہید کہوں گا ۔سیاسی
نومولود بلاول زرداری نے سیّد منور حسن صاحب کے اِس بیان کے ردِ عمل میں
ٹویٹر پرجماعتِ اسلامی کو غدار قرار دے دیا اور ساتھ ہی پیپلز پارٹی کو ایک
نیا نعرہ بھی بخش دیا کہ ’’دہشت گردوں کا جو یار ہے ، غدار ہے ، غدار
ہے‘‘۔بلاول نے مولانا فضل الرحمٰن کے بارے میں کچھ لکھنے سے شاید اِس لیے
پرہیز کیا ہو گا کہ ماضی میں وہ پیپلز پارٹی کے اتحادی تھے اور مستقبل میں
اتحادی ہونے کی اُمید جبکہ جماعت اسلامی سے اُن کا ’’اِٹ کھڑّکا‘‘ تو بھٹو
مرحوم کے دور سے جاری ہے ۔امریکی ڈرون حملے کے ردِ عمل میں ہمارے رہنما سَر
جوڑ کر بیٹھے اور یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال
کر بات کرنے کی تو کسی میں ہمت نہیں اِس لیے کوئی ’’علامتی پیغام‘‘ ہی
پہنچا دیا جائے ۔چنانچہ عزمِ نَو چہارم کی مشقوں کے آخری دن ڈرون گرانے کا
فیصلہ ہوا ۔مہمانِ خصوصی میاں نواز شریف کے سامنے جب پاک فوج کے جوانوں نے
کاندھے سے میزائل فائر کرکے ڈرون گرانے کا کامیاب عملی مظاہرہ کیا تو میاں
نواز شریف مسکرا اُٹھے ۔میاں صاحب کی یہ مسکراہٹ بڑی معنی خیز تھی ۔اُن کے
حامی یہ کہتے ہیں کہ ڈرون گرانے کی مشق کرکے در اصل امریکہ کو یہ پیغام دیا
گیا ہے کہ ’’اب کے مار‘‘ ۔جبکہ مخالفین اِس مسکراہٹ کو کچھ اور ہی معنی
پہناتے ہیں ۔اُن کے خیال میں اِس مسکراہٹ میں پہلو میں بیٹھے جنرل اشفاق
پرویز کیانی صاحب کے لیے یہ پیغام مضمر تھا کہ ’’کر لو جو کرنا، اب کے میں
ہاتھ آنے والا نہیں‘‘۔ مخالفین کی یہ سوچ کچھ کچھ دل کو بھاتی ہے کیونکہ
پہلے بھی شور مچاکہ ’’قدم بڑھاؤ نواز شریف ! ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘‘ لیکن جب
میاں صاحب نے قدم بڑھا یا اور کچھ دور جا کر پیچھے مُڑ کر دیکھا تو وہ
اکیلے ہی محوِ سفرتھے ۔میاں صاحب کا یہ سفر لگ بھگ آٹھ سالوں پر محیط تھا
اِس لیے اب وہ اور تو سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن بلا سوچے سمجھے قدم نہیں
بڑھا سکتے ۔اب اِس کام کے لیے اُنہوں نے رانا ثنا اﷲ کی ڈیوٹی لگا رکھی ہے
اور اگر کوئی معاملہ گھمبیر صورت اختیار کر جائے تو پھر خادمِ اعلیٰ تو ہیں
ہی ۔
انوکھے لاڈلے محترم عمران خاں صاحب کو خوش ہو جانا چاہیے کہ حکومت نے اُن
کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ’’کھلونا ڈرون‘‘ ہی سہی لیکن گرایا تو ۔ ویسے
بھی میدانِ سیاست میں ابھی اُن کی عمر کھلونوں سے کھیلنے کی ہی ہے ۔جب ایک
دو عشروں کے بعد وہ پختہ کار سیاست دان بن جائیں گے تو پھر اصلی ڈرون بھی
گرا لیں گے ، جلدی کاہے کی ہے۔رہی نیٹو سپلائی بند کرنے کی بات تو وہ بھی
بند ہو جائے گی لیکن اُس کے لیے ایک سال صبر کرنا پڑے گا ۔ کہتے ہیں کہ صبر
کا پھل میٹھا ہوتا ہے اور ہم تو چاہیں گے کہ خاں صاحب یہ میٹھا پھل کھا کر
آرام سے بیٹھ رہیں۔امریکہ نے ایک سال کے اندر افغانستان سے کوچ کرنا ہی ہے
اور سال بعد نیٹو کنٹینرز کا آنا جانا بھی مفقود ہو جائے گا اِس لیے
خوامخواہ سونامیوں کو ’’وخت‘‘ میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے ۔
خیبر پختونخواہ کی حکومت نے ڈرون حملے بند کرنے کی 20نومبرکی ’’ڈیڈ لائن‘‘
دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اگر ڈرون حملے بند نہ ہوئے تو 21نومبر کو نیٹو
کنٹینرز بند کر دیئے جائیں گے ۔ہم اپنے مربی و محسن ، مکرمی و مخدومی ،
لائقِ صد احترام امریکہ سے دست بستہ گزارش کرتے ہیں کہ 20نومبر تک کوئی
ڈرون حملہ نہ کیا جائے اور اپنے حامی طالبان اور سی۔آئی۔اے کے ایجنٹوں کو
بھی یہ ہدایت جاری فرما دی جائے کہ اِس دوران خود کش حملوں سے پرہیز کیا
جائے ۔20نومبر کے بعد وہ جتنے جی چاہے حملے کر لے ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو
گا ۔اگر ہماری یہ عرضداشت بارگاہِ امریکہ میں شرفِ قبولیت حاصل کر لیتی ہے
تو ہمارے کپتان صاحب کی کچھ لاج رہ جائے گی اور ہم سونامیوں کا دل بھی
ٹھنڈا ہو جائے گا ۔لیکن اگر امریکہ نے ہماری عرضداشت پہ غور کرنے کی بجائے
اُسے ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا تو ہم بہرحال ’’کنٹینر‘‘ تو بند کریں گے
ہی خواہ ہمیں بازار سے ’’کھلونا کنٹینر‘‘ خرید کر ہی کیوں نہ بند کرنا پڑیں۔
خاں صاحب کہتے ہیں کہ وہ نیٹو کنٹینرز روکنے کے لیے مولانا فضل الرحٰمن کے
پاس جانے کے لیے بھی تیار ہیں لیکن ہم کہے دیتے ہیں کہ خاں صاحب ایسی غلطی
کرکے بہت پچھتائیں گے ۔وجہ یہ ہے کہ مولانا صاحب خیبر پختونخواہ کی حکومت
ہتھیانے کے لیے ہمہ وقت اپنے دانت تیز کرتے رہتے ہیں ۔ حکومت میں شمولیت کی
خاطرحکمرانوں کو بطور ’’منجن‘‘ استعمال کرنے میں وہ مہارتِ تامہ رکھتے
ہیں۔میاں برادران فی الحال تو منجن بننے کو تیار نہیں لیکن ہمیں مولانا
صاحب کی صلاحیتوں پہ بھروسہ ہے اور یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ آج نہیں تو کل
کامیابی مولانا صاحب کا ہی مقدر ٹھہرے گی ۔
اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے کپتان صاحب تحریکِ انصاف کو داغِ مفارقت
دیتے دیتے رہ گئے ۔اُنہوں نے ٹی۔وی اینکر کامران شاہد کو انٹرویو دیتے ہوئے
یہ فرمایا کہ اگر نیٹو کنٹینر کی بندش کے بارے میں پارٹی مثبت فیصلہ نہ
کرتی تو میں پارٹی چھوڑ دیتا ۔اگرچہ اﷲ سلامت رکھے خاں صاحب اب بھی پارٹی
کے چیئرمین ہیں لیکن اب بھی مارے خوف کے ہمارے پاؤں تلے سے زمین محض اِس
لیے کھسکتی جا رہی ہے کہ اگر کسی وقت عالمِ غیض میں خاں صاحب پارٹی چھوڑ کر
لندن جا بیٹھے تو ہم سونامیوں کا کیا بنے گا ؟۔امریکہ ہماری بات مانتا ہے
نہ خاں صاحب کا غصّہ ٹھنڈا ہوتا ہے اِس لیے مجھے تو سونامیوں کا مستقبل
تاریک ہی نظر آتا ہے ۔ نیٹو کنٹینرز کی بندش کے بارے میں خاں صاحب کی مَن
مرضی کا فیصلہ آنے کے بعد خاں صاحب نے وا شگاف الفاظ میں فرمایا’’ خیبر
پختون خواہ کی حکومت جاتی ہے تو جائے لیکن ہم نیٹو کنٹینر روک کر دکھائیں
گے‘‘ ۔اُس وقت ساتھ کھڑے وزیرِ اعلیٰ جناب پرویز خٹک کے چہرے پر کئی رنگ
آئے اور گزر گئے اور مجھے وہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ کمزور محسوس ہونے لگے
۔دروغ بَر گردنِ راوی شنید ہے کہ خاں صاحب کے اِس بیان کو سننے کے بعد
مولانا فضل الرحمٰن کے ہاتھ پاؤں خوشی سے پھول گئے اورکچھ بد باطن تو یہ
بھی کہتے ہیں کہ اِس خبر کے سنتے ہی مولانا کا وزن دس کلو بڑھ گیا اور آجکل
وہ کھُلے کپڑے سلوانے کے چکر میں درزی کی تلاش کے ساتھ ہی ساتھ اپنی کابینہ
کی تشکیل میں بھی مصروف ہیں۔ |