پنجاب کے صوبائی وزیر قانون رانا
ثنا اﷲ نے یہ کہہ کر کہ پنجاب اسمبلی میں ڈرون گرانے اور نیٹو سپلائی بند
کرنے کی قرار داد پیش نہیں کرنے دی جائے گی بہت کچھ یاد کروا دیا ہے۔ایک
وقت تھا جب رانا ثنا اﷲ اور ان کی پارٹی کے اہم رہنما ڈرون حملے بند کرنے
ڈرون گرانے اور نیٹو سپلائی بند کرنے کے مطالبات کیا کرتے تھے جس کے جواب
میں پاکستان پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادی ڈرون گرانے اور نیٹو سپلائی بند
کرنے کے مسائل کا واحد حل قرار نہیں دیتے تھے ان کا موقف تھا کہ ایسے
اقدامات سے امریکہ مذید ناراض ہوگا اور معاشی پابندیوں سمیت کئی ایک
پابندیاں لگ جائیں گی۔اپوزیشن کے شدید احتجاج اور عوامی غم و غصہ کو دیکھتے
ہوئے متعدد بار قومی اسمبلی اور سینٹ سمیت کئی ایک صوبائی اسمبلیوں سے بھی
قرار دادیں منظورکروائی گئیں مگر ڈرون گرے اور نہ ہی مستقل نیٹو سپلائی بند
کرنے کے اقدامات کئے گئے،۔ایک وقت وہ بھی تھا جب سات ماہ کے لئے نیٹو
سپلائی بند بھی ہوئی مگر بعد ازاں پاک امریکہ مذاکرات کی روشنی میں نیٹو
سپلائی کھول دی گئی۔ڈرون حملے نیٹو سپلائی ،طالبان سب کچھ وہی ہے موقف بھی
پرانا ہے مگر چہرے بدل گئے ہیں نئے چہروں نے پرانا موقف اختیار کر دیاہے۔اس
ملک کا باسی جو تھوڑا سا بھی شعور رکھتا ہو،دل میں بغض نہ رکھتا ہو،جو اس
ملک کا اس عوام کا ،اس خطے کا،کسی بھی طرح سے ہمدرد ہو وہ اپنے دل پر ہاتھ
رکھ کر اگر سچ بولے اور حقائق کو سامنے رکھ کر سوچے تو اسے مشرف،زرداری اور
موجودہ حکومت میں کسی قسم کا کوئی فرق نظر نہیں آئے گا،بس اگر کچھ تبدیل ہے
تو صرف چہرے کی۔،پالیسی وہی،اصول وہی ،قانون کی اندھیر نگری وہی،سوچ
وہی،مہنگائی،بے روزگاری،دہشت گردی، جھوٹ، منافقت، امریکی غلامی،عوام دشمن
پالیساں،یہاں تک کے بیانات بھی وہی ماضی کے ہیں، بلکہ ان میں اضافہ ہوا کمی
نہیں آئی،پھر وہ لوگ ،وہ چمچے،وہ تبصرہ نگار،وہ سپوک پرسن کس منہ سے اور کس
سوچ سے موجودہ حکومت کی پالیسوں کو بہتر کہتے ہوئے ان کو سہراتے ہیں۔کل بھی
ملک میں خانہ جنگی کا عالم تھا اور حکومتی ایوانوں میں بس سب اچھا ہے کی
بحث ہوتی تھی،کل بھی ملک میں دہشت گردی تھی امریکہ ڈراون سے بے گناہ لوگوں
کو مارتا تھا اور حکومتی بیانات میں وہ دہشت گرد قرار دیے جاتے تھے آج بھی
وہی کچھ ہو رہا ہے۔کل بھی امریکی غلامی کو اپنی بہتر پالیسی کا نام دے کر
عوام کو بے وقوف بنایا جاتا تھا آج بھی وہی کچھ ہو رہا ہے،کل بھی بیرونی
طاقتیں اپنی کارروائیاں کر کے طالبان کا نام لگا کر مسلمانوں کو بد نام
کرتیں تھیں آج بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔کل بھی مردہ ہے ،نہیں شہید ہے،، یہ
نہیں سچ ہے،یہ جھوٹ ہے کی رٹ ہوتی تھی،امریکہ ہمارا آقا ہے، نہیں وہ دشمن
ہے ،اس سے د شمنی ہماری روزی بند کر دے گی،نیٹو سپلائی ٹھیک ہے ،نہیں اس کو
بند ہونا چاہئے،پچھلے دس سال سے حکومتیں اور نام نہاد امریکہ نواز لیڈر یہی
باتیں کر کے خود کو ملک و قوم کا وفادار سیاست دان کہتے تھے آج بھی وہی کچھ
ہو رہا ہے،تو یہ سوچنے والی بات ہے کہ پھر فرق کیا ہے اس جھوٹی عوامی حکومت
کا اور کل کی آمریت کا۔ملک آج بھی ان گنت مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے
اور ایوانوں میں باتیں کچھ اور ہو رہی ہیں۔موجودہ حکومت نے توبے شرمی،اور
ڈیٹھ پن کی انتہا کر دی اس نے تو دہشت گردی سے مرنے والے بے گناہ شہریوں کی
تعداد تک کم کر دی،136دہشت گرد حملوں میں 124افراد کی ہلاکت کے عداد وشمار
پیش کرنے والے ایک بار تو اپنے گریبان میں جھانکے وہ اگر اس ملک کی عوام کے
جان ومال کی حفاظت نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے مرنے والوں کی تعداد تو
کم نہ کریں،موجودہ حکومت اگر خود امریکہ کی غلامی سے آزاد نہیں ہو سکتی تو
اتنا تو بتا دے کے میرے آقا آپ کی کارگردگی سے ہمارے ملک کے اتنے کیڑے
مکوڑے مر گئے ان کو انسان کا درجہ تو اس نے پہلے سے ہی نہیں دیا ہے مگر ان
کی موت سے تو انحراف نہ کرے۔یہ تو ایک عقل سے آری انسان بھی سوچ سکتا ہے کہ
امن کے لئے مذاکرات کی فضا بحال کی جا رہی ہے اس دوران اگر کوئی ڈراون حملے
سے کسی بھی انتہا پسند جماعت ،چاہئے اس کا نام طالبان ہی رکھ لو کا لیڈر
مار دیا جائے اور یہ کہا جائے کہ ہم نے ٹھیک کیا ہے اور پھر یہ الزام بھی
لگایا جائے کہ طالبان مذاکرات کے لئے تیار نہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا
جن کا بندہ مارہ گیا یا جنہوں نے مارہ۔اس کا جواب دینا کوئی مشکل کام نہیں
مگر اس کے لئے ملک و قوم اور عوام کا خیر خواہ ہونا ضروری ہے جب دلوں میں
بغض اور نیتوں میں کھوٹ ہو تو سچ کبھی سچ نہیں لگتا۔ہماری بد قسمتی یہ نہیں
کہ امریکہ جیسے مکار سے ہمارے تعلقات ہیں بلکہ بد قسمتی یہ ہے کہ ہم نے
ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جو اپنی ذات ، اپنی تجوری سے باہر نہیں نکلتے جو
الیکشن سے پہلے تو بڑے بڑے دعوے کرتے تھے ،آج وہ اپنے ہی کئے ہوئے وعدوں سے
مکر کر اصل میں عوام دشمن ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔اس سے بڑی شرم کی اور
کیا بات ہو گی کہ ملک تباہی کے دہانے سے بھی اگے نکل چکا ہے اور سیاست دان
اس بات میں الجھے ہوئے ہیں کہ حکیم اﷲ مسعود شہید ہے اور کوئی کہہ رہا ہے
کہ نہیں شہید نہیں وہ مرا ہے۔وہی رانا صاحب اور ان کے رہنما کل تک ڈراون کو
ملک کی سلامتی کے خلاف کہتے تھے آج وہی اپنے منہ سے ان کو ملک کی مفاد میں
کہہ رہے ہیں،رہی نیٹو سپلائی کے بند ہونے یا نہ ہونے کی بات تو جن قوموں کے
سیاست دان ملک چلانے والے مردہ ہو جائیں جن کے دل ،سوچیں،اور ضمیر بے حس
اور مفاد پرست ہوجائیں وہ سوائے ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے اور مرغی
پہلے آئی یا انڈا کی بحث میں ہی پڑے رہتے ہیں۔اس ملک کی عوام کو اپنے ہی
کیے کی سزا مل رہی ہے اس عوام کو اپنے رشتے تعلق اور برادریاں پالنے کی سزا
مل رہی ہے،جب انسان کی سوچ غلام ہو جائے تو پھر پنجرے توڑنے سے کوئی فائدہ
نہیں،یہ قوم اور اس کے رہنما اصل میں غلام سوچ کے مالک ہیں ان کی روزی
امریکہ دیتا ہے اﷲ نہیں ان کی زندگی اور موت کا اختیار امریکہ کہ پاس ہے اﷲ
کے نہیں،ہماری بد قسمتی دیکھیں کہ ہمارے ملک کے لوگ،مدرسے کے طالبہ،یا
طالبان نام کے افراد نہیں بکے ہوئے بلکہ اس ملک کے وہ ادارے جو عوام کی سوچ
بدلنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں وہی خریدے ہوئے ہیں،ایک وقت میں لاکھوں
لوگوں تک آواز پہنچانے والے میڈیا کے ادارے پے رول پر کام کر رہے ہیں جس
ملک کو چلانے والے بک جائیں اس کا انجام کیا ہوگا یہی جو اس وقت اس ملک کا
ہو رہا ہے جو اس وقت اس عوام کے ساتھ ہو رہا ہے۔مگر ایک بات یاد رکھنے والی
ہے ماضی کے فراعون،نمرود،ہٹلر،اور بادشاہ نہیں رہے تو یہ بھی نہیں رہے گئے
ان کا انجام بھی وہی ہوگا جو آج کل کے حکمرانوں کا ہو رہا ہے۔وقت کسی کو
معاف نہیں کرتا بس انتظار کرو آج نہیں تو کل ان کی رسی بھی کھنچ جائے گی۔ |