لفظِ عاشورہ ’’عشر‘‘ سے بنا ہوا ہے جو کہ دسویں کے معنی
میں ہے۔ عاشورہ کو عاشورہ کہنے کی چند وجہیں ہیں:(۱)یہ ماہِ محرم الحرام کا
دسواں دن ہوتا ہے اس وجہ سے اس دن کو عاشورہ کہتے ہیں۔(۲)سال کے دس ایام کو
اللہ عزوجل نے بزرگی عطا فرمائی ہے، ان میں سے یہ دن دسویں منزل پر ہے، اس
لئے اس دن کو عاشورہ کہا جاتا ہے۔(۳)اس دن اللہ عزوجل نے دس انبیائے کرام
علیہ السلام پر خصوصی عنایتیں فرمائیں، اس نسبت سے اس دن کو عاشورہ کہا
جاتا ہے۔ ( غنیۃ الطالبین)
یومِ عاشورہ اورزمانۂ جاہلیت
یہودی یومِ عاشورہ کو اپنے لئے نجات کے طور پر مناتے تھے کیوں کہ اس دن ان
کو فرعون کے ظلم و ستم سے نجات ملی تھی۔ صاحبِ تفسیر ابنِ کثیر نے بھی اس
بات کی طرف اشارہ دیا ہے کہ جب حضور نبی اکرم ا نے دیکھا کہ یہود عاشورہ کے
دن روزہ رکھتے ہیں تو آپ نے اس کی وجہ دریافت فرمائی تو یہودیوں نے کہایہ
وہ دن ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرتِ موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل
کو فرعونیوں کے مقابلے میں فتح و نصرت سے نوازا تھا لہٰذا ہم لوگ اس دن کے
احترام کے لئے روزہ رکھتے ہیں۔ (مسلم شریف)
عاشورہ کے دن غسل و عبادت
اللہ کے پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے عاشورہ کے
دن غسل کیا وہ مرض الموت کے سوا کسی بھی بیماری میں مبتلا نہ ہوگا۔(غنیۃ
الطالبین)حضرتِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ا نے ارشاد
فرمایا جس نے عاشورہ کی شب عبادت کی تو اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا اس کو
زندہ رکھے گا۔ (غنیۃ الطالبین)
عاشورہ اور اعمالِ صالحہ
نبی اکرم تاجدارِ عرب و عجم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے
عاشورہ کے دن پتھر کا سرمہ آنکھ میں لگایا تمام سال اس کو آشوبِ چشم نہیں
ہوگا، جس نے اس دن کسی کی عیادت کی گویا اس نے تمام اولادِ آدم کی عیادت
کی، جس نے عاشورہ کے دن کسی کو ایک گھونٹ پانی پلایا اس نے گویا ایک لمحہ
کو اللہ کی نافرمانی نہیں کی۔(غنیۃ الطالبین)
یتیم پر شفقت
اللہ کے پیارے رسول صاحبِ لولاک حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد
فرمایا جس نے عاشورہ کے دن کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا تو یتیم کے سر کے
ہر بال کے عوض جنت میں اس کا مرتبہ بلند کیا جائے گا۔ (غنیۃ الطالبین)
عاشورہ کے دن کی نفل نماز
حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ عاشورہ کے دن چار رکعتیں
دو سلاموں کے ساتھ پڑھے، اس طرح کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ
زلزال، سورۂ کافرون اور سورۂ اخلاص ایک ایک دفعہ پڑھے اور نماز کے بعد
ستر بار دورد شریف پڑھے۔دوسری روایت میں ہے کہ جس نے عاشورہ کے دن چار رکعت
نماز اس طرح پڑھی کہ ہر رکعت میں ایک دفعہ سورۂ فاتحہ اور پچاس بار سورۂ
اخلاص پڑھی اللہ تعالیٰ اس کے پچاس برس گزشتہ اور پچاس برس آئندہ کے گناہ
معاف فرمائے گا، ملا ِاعلیٰ میں اس کے لئے نور کے ہزار محل تعمیر فرمائے
گا۔ (غنیۃ الطالبین)قارئین کرام! بہتر تو یہ ہے کہ عاشورہ کی پوری رات ہی
عبادت میں گزاری جائے اور اگر یہ مشکل ہو تو رات کے آخری حصہ میں ضرور
عبادت کی جائے کہ یہ وقت تو عام راتوں میں بھی قبولیتِ دعا اور نزولِ رحمت
کا ہے، ساری رات ان مصائب و آلام کا تصور بھی رہنا چاہئے جو عاشورہ کی صبح
امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کے رفقا
کو پہنچے کہ یہ تصور بھی حصولِ رحمت و برکت کا ذریعہ ہے۔
عاشورہ کا روزہ
عاشورہ کے دن روزہ رکھنا صرف ہمارے آقا و مولیٰﷺ کا معمول نہ تھا بلکہ آپ
سے پہلے آنے والے انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام بھی اس دن روزہ
رکھا کرتے تھے، چنانچہ حدیثِ پاک میں سرورِ کونین ا نے ارشاد فرمایا:عاشورہ
کے دن روزہ رکھو، کیوں کہ یہ وہ دن ہے کہ اس کا روزہ انبیائے کرام رکھتے
تھے۔(جامع صغیر)
گناہوں کی معافی
حضور اکرم نورِ مجسم ﷺ نے فرمایا:عاشورہ کے دن روزہ رکھنے پر مجھے یقین ہے
کہ اللہ تعالیٰ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ بنادے گا۔(مشکوٰۃ شریف،
بیہقی)حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے :رسول اکرم ﷺ سے
عاشورا کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا آپ نے فرمایا یہ روزہ گزشتہ سال کے
گناہ مٹا دیتا ہے۔ (مسلم شریف)
سب سے افضل
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے
فرمایا:رمضان کے بعد افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں اور فرض
نماز کے بعد افضل نماز رات کی نماز ہے۔ (مسلم شریف)حضرت سیدنا عبداللہ ابن
عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے رسولِ اکرم ﷺکو
کسی دن کے روزے کو اس دن یعنی یومِ عاشورہ کے روزے پر بزرگی دیتے ہوئے
رکھنے کی جستجو کرتے نہیں دیکھا۔(بخاری، مسلم)
چار خصلتیں
حضرتِ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:چار چیزیں ایسی تھیں جنہیں
حضور نبیِ اکرم ﷺ نے کبھی ترک نہیں کیا، یومِ عاشورہ کا روزہ، ذو الحجہ کے
عشرہ یعنی نو دن کے روزے، ہر ماہ کے تین دن یعنی ایامِ بیض کے روزے اور فجر
کی فرض سے پہلے کی دو رکعتیں۔ (مشکوٰۃ شریف)
نویں محرم کا روزہ
حضرتِ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا :جب رسول
اللہ ﷺنے یومِ عاشورہ کا روزہ رکھا اور اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم ارشاد
فرمایا تو صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ!یہ تو وہ دن ہے جس دن کی
یہود و نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں، اس پر رسولِ اکرم ا نے ارشاد فرمایا کہ اگر
میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں محرم کا روزہ ضرور رکھوں گا۔
موت کی تنگی دور
حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے پیارے رسول ﷺنے
ارشاد فرمایا:بنی اسرائیل پر سال میں ایک دن جو کہ یوم عاشورہ یعنی دس محرم
الحرام کا روزہ فرض ہوا تھا، لہٰذا تم بھی اس دن کا روزہ رکھا کرو اور اس
روز اپنے اہل و عیال پر وسعت اور فراخی کیا کرو اور جس نے اپنے مال میں سے
اس عاشورہ کے روز اپنے اہل و عیال پر ہاتھ کھلا کیا تو اللہ تعالیٰ سارا
سال اسے وسعت عطا فرمائے گا اور جس نے اس روز روزہ رکھا تو اس کے چالیس
سالوں کا کفارہ بن جائے گا اور جس کسی نے عاشورہ کی رات بیدار رہ کر گزاری
اور دن روزے کی حالت میں گزارا وہ مرتے وقت موت کی تنگی محسوس نہیں کرے گا۔
(غنیۃ الطالبین)
|