قوم مسلم میں اَنگِنت ایسے
سوالات ہیں جو’’کب‘‘،’’کیسے ‘‘اور ’’کیوں‘‘پر جاکر ختم ہوجاتے ہے
یہ مسلماںہیں! جنھیں دیکھ کہ شرمائیں یہود
قلب انسانی کو مضمحل اور امت محمدیہ کی فلاح وبہبود کے لئے کچھ کرگزرنے
کاجذبہ فراہم کرنے والی
اکناف عالم میں مسلمانوں کی جوموجودہ صورت حال ہے شاید ہی کوئی اس سے بے
خبرہوگا۔دنیا میں جہاں ہم اقلیت میں ہے وہاں اکثریت ہمیں تباہ وبرباد کررہی
ہے اور جہاں ہم اکثریت میں ہے وہاں ہم ایک دوسرے کو زیر کرنے کے درپے
ہے۔مشہورکہاوت ہے’’سمندر کی خاموشی آنے والے طوفان کی خبر دیتی ہے‘‘۔رات
کا گھنگھور اندھیراصبح نو کی نوید ہوتا ہے۔مگر نہ جانے امت مسلمہ کی اس
سیکڑوں سالوں کی خاموشی میں کب انقلاب کا طوفان آئے گا؟کب مسلمانوں پر
چھائے ہوئے سیاہ بادل چھٹے گے اورکب ایک نئی صبح کا اجالانمودار ہوگا؟مگر
ہماری زندگی میں انقلاب آئے تو کیونکر آئے؟سورج آکرکیوںروشن وتابناک
مستقبل کی خبردے؟اس لئے کہ اللہ پاک اس قوم کی حالت اس وقت تک تبدیل نہیں
کرتاجب تک اس قوم میںخودکو بدلنے کا احساس وشعور بیدار نہیں ہوتا۔
مگر حیف صد حیف!ہمارا رشتہ دن بہ دن خداورسولﷺ سے کمزور ہوتا جارہاہے۔اللہ
ورسول ﷺ کے نافرمانی میں ہم اوّل،احکام شریعت کو پس پشت ڈالنے میں ہم سر
فہرست،حکم عدولی گویا ہمارے رگ رگ میں سمائی ہو،عبادت وریاضت میں ہم صفر
اور ہمارے معاملات ہردن خستہ حال ہوتے جا رہے ہیں۔(الا ماشاء اللہ)پہلے لوگ
لین دین میں مسلمانوں کو اولیت دیتے تھے اور اب کتراتے ہے۔سودے بازی میں
دھوکہ دہی آج کے مسلمانوں کی شان،وعدہ کرکے مُکر جانا آج کے مسلمانوں کی
عظمت،قرض لے کر ادا نہ کرناآج کے مسلمانوںکی عادت ، حقوق کی پامالی آج کے
مسلمانوں کا شیوہ،خریدوفروخت کی اشیاء میں ملاوٹ کرنا طرۂ امتیاز،آخر
کوئی تو ایسا میدان ہو جہاںمسلمان لائق تعریف وتقلید ہو۔(الاماشاء اللہ)
سماجی ، معاشی ، ثقافتی ، تہذیبی اورسیاسی میدان میں ہم پچھڑے ہوئے،کاروبار
میںہمیں سب سے زیادہ چھٹیاں چاہئے،جمعہ کو ہم کاروبار کرتے نہیں،معمولی سے
معمولی تقریب کا بہانہ بناکر ہم چھٹی لے لیتے ہے ، مسلم مالکان اپنے
ورکروںکے حالات سے بے خبرہوتے ہیں اور مسلم ورکراپنے مالک سے عاجزوبیزار۔جس
قوم سے رب تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ نماز کی ادائیگی کے بعد زمین پر رزق خدا
کی تلاش کے لیے پھیل جائو،وہ قوم اس قدر کاہل وسست بن جائے،محنت ومشقت سے
بے پرواہ ہوجائے تو پھر غریبی ومفلسی دستک نہیں دے گی تو اور کیا ہوگا؟آج
کوئی آسمان سے من وسلویٰ نازل نہیں ہونے والاہے۔اللہ کے عطا کردہ رزق
کوہمیں ہی محنت ومشقت سے حاصل کرنا ہوگا۔
مسلمانوں کے بچے دینی وعصری تعلیم سے دورگلی محلوں میںکرکٹ،گلی
ڈنڈا،کاچولی،تاش،جوا اور ایک دوسرے کے ماں باپ کو گالی گلوچ کرتے ہوئے دن
رات دیکھے جاسکتے ہیں۔نہ بچوں کو اپنے مستقبل کا کچھ خیال ہے اور نہ ہی ان
کے والدین کو بچوں کے روشن مستقبل کا کچھ خیال و احساس۔وہ ماں جو اپنے
نونہال کی تربیت کے اوقات کو پڑوسیوں کی غیبت کرنے اور ٹی وی سیریل دیکھنے
میںگزاردیتی ہو،وہ باپ جو بچے کی تعلیم ونگہداشت پر توجہ دینے کے وقت کو
چوک چوراہوں اور ہوٹلوں پر گپ شپ کی نذرکردیتا ہو،بھلا ایسے والدین کو اپنے
بچوں کے مستقبل کی کیا فکر ہوسکتی ہے؟بچوں کے آگے صرف دووقت کی روٹی رکھ
دینا ہی ماںباپ کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ان کی پرورش کے ساتھ ان کی تعلیم،
تربیت، صحبت، سنگت اور رات ودن کے معمولات کو بہتر بنانا اور اسلامی تہذیب
وتمدن کا عادی بنانابھی والدین ہی کافریضہ ہے۔اگر بچے پہلے ہی دن سے کوئی
منصوبہ لے کر قدم بڑھائیںاور والدین واستاذ کی سرپرستی ورہنمائی انھیں حاصل
رہی تو یقینا وہ تعلیمی میدان میںسرخرو ہونگے اور جس دن ہماری مکمل ایک نسل
تعلیمی میدان میں کامیاب ہوجائے تو قوم مسلم سے غربت،تنگدستی اور مفلسی
کاخاتمہ ممکن ہے اور تعلیم سے زمانے میں جینے کاشعور بھی پیدا ہوگا اور یہ
نسل آئندہ نسلوں کے لیے نمونہ بھی ہوگی،نتیجہ کے طور پر پھر قوم مسلم ایک
عظیم قوت بن کر ابھرے گی۔انشاء اللہ۔
یاد رہے مرجانے والے اورسوجانے والے میں فرق صرف اتنا ہے کہ سوجانے والے
اُٹھانے پر اٹھ جاتے ہے اور مرجانے والے نہیں۔آج ہزاروں قیامتیں ہمارے
دروازے پر دستک دے رہی ہیںپھر ہم کیوں نیند سے بیدار نہیں ہوتے؟آخر ہم کب
تک سونے کاڈھونگ رچاتے رہینگے؟آخر کب ہم بیدار ہوکر زمام قیادت کو
سنبھالنے کا عزم کرینگے؟آخر کب ہم منصوبہ بند طریقے سے زندگی کی راہوں میں
قدم بڑھائینگے؟اعلیٰ تعلیمی میدان میںآخرہم کب قدم بڑھائینگے؟رفتار زمانہ
کے ساتھ چلنے کا شعور ہم میںآخر کب بیدارہوگا؟میدان سیاست کے شہسواری آخر
ہم کب کرینگے؟ہم اپنی مٹتی ہوئی شناخت اور کھوتے ہوئے وقارکو کب بحال
کرینگے؟تعظیم رسول ﷺاور ناموس رسالت کی خاطر ہم میں اتحاد کب پیداہوگا؟ نہ
جانے ایسے کتنے سوالات ہے جو’’کب‘‘،’’کیسے ‘‘اور ’’کیوں‘‘پر جاکر ختم
ہوجاتے ہے۔جس دن ہم نے اس ’’کب‘‘کو’’آج‘‘اور ’’ابھی‘‘میں تبدیل کردیا ،
اسی دن سے ہماری کامیابی کاآغاز ہوگا۔مگر ذہن نشین رہے کہ کسی ایک فرد یا
ایک خاندان کے لائحہ عمل بنالینے سے کوئی اعلیٰ انقلاب رونمانہیں
ہوسکتا،انقلاب کے لیے قوم مسلم کے ہر فرد کو منصوبہ بند طریقے سے زندگی کی
راہوں میں قدم بڑھانا ہوگا۔
٭٭٭ |