جناب وزیر اعظم حساب دینا مشکل ہے

ایک نامور کہاوت کے مطابق کسی سلطنت کے بادشاہ کے وصال کا وقت قریب آن پہنچا،پرانی وقتوں کی خوبصورت روایات کے مطابق بادشاہ نے اپنے پانچوں بیٹوں کو بلایا اور کہا کہ میرے مرنے کے بعد جب میری تدفین ہو گی تو اس کے بعد آپ میں سے کوئی ایک میرے ساتھ ہی قبر میں دفن ہوگا اور دفن بھی ہمیشہ کیلئے نہیں بلکہ صرف ایک رات کیلئے اورجوبیٹا ایسا کرے گا سلطنت کا بادشاہ وہی قرار پائے گا چنانچہ بادشاہ سلامت کو مرنے کے بعد قبر میں اتارا گیا تو پانچوں بچوں کو باری باری قبر میں والد محترم کے ساتھ رات گزارنے کا کہاگیا لیکن کیا تھا قبر میں مردے کے ساتھ زندہ حالت میں دفن ہونا معمولی بات نہیں بچوں نے صاف صاف انکار کر دیا ۔انکار کا مطلب یہ تھا کہ ان پانچوں میں سے کسی کو باپ کی وصیت کے مطابق بادشاہت نہیں مل سکے گی ۔اتنے میں ایک گدھا سوار پاس سے گزرا اور وہی کھڑا ہو گیا گدھا جس کو ہم عام زبان میں کھوتا بھی کہتے ہیں کے سوار نے سوچا کہ ساری زندگی ہو گئی دھکے کھا رہا ہوں کبھی روٹی ملتی ہے اورکبھی نہیں، زندگی وبال جان بن چکی ہے اچھا ہے کہ قبر میں بادشاہ کے ساتھ ہی دفن ہو جاؤں مر گیا تو خدا خافظ زندہ رہا تو بادشاہت مل جائے گی۔ گدھے سوار نے رسک لے لیا اور بادشاہ کے ساتھ قبر میں دفن ہونے کی حامی بھر لی۔ مٹی ڈالنے کے بعد جب ورثا اپنے گھروں میں چلے گئے تو قرشتے قبر میں حساب لینے حاضر ہو گئے فرشتوں کی پہلی ملاقات گدھے کے مالک سے ہو گئی فرشتوں نے گدھے کے مالک سے دریافت کیا اور پوچھا دنیا میں کیا کرتے رہے ہ جواباً عرض کی میں نے کیا کرنا تھا غریب آدمی ہوں کچھ نہیں کیا حساب لینا ہے تو بادشاہ سے لو جو پورے ملک کی بادشاہت کا مالک تھا فرشتوں نے کہاکہ اچھا۔ ۔۔۔۔پوچھا گیا قبر کے باہر قبرستان میں گدھا کس کا ہے گدھے کے مالک نے جواب دیا میرا ہے ۔ اچھا دنیا میں فلاں دن اور فلاں وقت اس کو بھوکا کیوں رکھا، جواباً خود بھوکا تھا اس لیئے اس کو کیا کھانا کھلاتا؟ فرشتوں نے کہا تم نے اپنے بھوکے ہونے کی سزا اسے کیوں دی ؟ لہذا حکم ہوا اس کو کوڑے مارو ، کچھ دیر بعد پھر سوال ہوا اس پر فلاں دن اور فلاں وقت تم نے وزن کیوں زیادہ ڈالا اور اس کو مارا کیوں تھا یہ تو بے زبان تھا۔جواب ملایہ میری بات نہیں مانتا تھا اچھا صرف بات نہ ماننے پر اس کو اتنی بڑی سزا دی۔ حکم ہوا اس کو کوڑے مارو اسی طرح کے سوالات اور جوابات پر کوڑے کھاتے ہوئے صبح ہو گئی۔ بادشاہ کی وصیت کے مطابق دوسرے روز قبر کشائی کی گئی تو گدھے کا مالک قبر میں زندہ تھا اس کو باہر نکال لیا گیا اور جب دنیا کے سامنے اس کے سر پر بادشاہت کا تاج رکھا جانے لگا تو اس نے فوری طور پر تاج زمین پر پھینکتے ہوئے بادشاہت لینے سے انکار کر دیااور کہا کہ پوری رات میں ایک گدھے کا حساب نہیں دے سکا تو پورے ملک کے بادشاہت کا حساب کیسے دونگا!!!!!!جناب وزیر اعظم آزاد کشمیر بات سمجھنے کی ہے حساب حساب ہی ہوتا ہے قبر کا ہو یا دنیا کا !!!!آپ دنیاوی قواعد و ضوابط اور مصنوعی اصولوں کے مطابق ریاست آزاد کشمیر کے بادشاہ ہیں آپ نے اپنی رعایا کا ہرحال میں خیال رکھنا ہے دشمن اور دوست کو انصاف کی نظر سے دیکھنا ہے بظاہر آپ کو تو ہر محکمے اور ہر ضلع کا علم ہے لیکن چونکہ آپ کا حلقہ انتخاب ضلع میرپور سے ہے اس لیئے میرپور کے مسائل سے زیادہ باخبر ہو نگے آپ کی معلومات میں محض اضافے کیلئے نہیں بلکہ اپنے صحافتی فرائض کے طور پر آ پ کو مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ میرپور کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال جس کو حکومتی نوٹیفکیشن کے مطابق ڈویژنل ہیڈ کواٹر کا درجہ دے دیا گیا ہے عملی طور پر عام آدمی کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ا س کی انتظامیہ کی کارکردگی فنڈز میں خرد برد، سرکاری ادوایات کی خرید و فروخت میں مالی بدعنوانی،ملازمین کی ٹرانسفر کی مد میں سفارش اور رشوت کا استعمال ،سرکاری ڈاکٹر کا لبادہ اوڑ ھ کر پرائیویٹ کلینکس میں پریکٹس،پرائیویٹ مریضوں کا سرکاری علاج ،سرکاری ملازمین کے فرضی علاج کے نام پر جعلی بلوں کی تیاری کے علاوہ کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ہسپتال بظاہر تو اچھی اور خوبصورت عمارت نظر آتا ہے ہے لیکن عملاًزبحہ خانہ ہے جہاں پر مریض پر توجہ کی بجائے اس کو کسی من پسند پرائیویٹ ہسپتال میں ریفر کرنے ،من پسند لیبارٹری سے اس کا ٹیسٹ کروانے ،اور اپنے پرائیویٹ کلینک پر آنے کی دعوت دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہاں آپ کو حیران کن بات یہ بھی بتاؤں کے اس ڈویژنل ہیڈ کواٹر ہسپتال میں نیورو سرجن نہیں اگر کوئی حادثہ ہو جائے تو مریض کے علاج کی بجائے اس کے مرنے کا انتظار کیا جاتا ہے !!!اگر کوئی بہت بڑی سفارش ہو تو اس کو اسلام آباد کے کسی ہسپتال میں ریفر کر دیا جاتاہے جناب وزیر اعظم حادثہ انسانوں کے ساتھ پیش آتا ہے اور ضروری نہیں کہ حادثہ کسی عام آدمی کے ساتھ پیش آئے جناب خود بھی یا جناب کا کوئی عزیز بھی حادثہ کا شکار ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
Mumtaz Ali Khaksar
About the Author: Mumtaz Ali Khaksar Read More Articles by Mumtaz Ali Khaksar: 49 Articles with 37476 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.