وزیراعظم ۔۔۔۔گوجر،راجپوٹ یا جاٹ ۔۔۔؟

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت عاصم ؒ کہتے ہیں حضرت ابو بکرؓ نے اپنی بیماری میں لوگوں کو جمع کیا پھر ایک آدمی کو حکم دیا جو آپ کو اٹھا کر ممبر پر لے گیا۔چنانچہ یہ آپؓ کا آخری بیان تھا آپؓ نے اﷲ تعالیٰ کی حمدوثناء کے بعد فرمایا
’’اے لوگودنیا سے بچ کر رہو اور اس پر بھروسہ نہ کرویہ بہت دھوکہ باز ہے اور آخرت کو دنیا پر ترجیح دو اور اس سے محبت کرو کیونکہ ان دونوں میں سے کسی ایک سے محبت کرنے سے ہی دوسرے سے بغض ہوتا ہے اور ہمارے تمام معاملات امر خلافت کے تابع ہیں اس امر خلافت کے آخری حصہ کی اصلاح اس طریقہ سے ہوگی جس طریقہ سے اس کے ابتدائی حصہ کی ہوئی تھی ۔اس امر خلافت کا بوجھ وہی اٹھا سکتا ہے جو تم میں زیادہ طاقت والا ہواور اپنے نفس پر سب سے زیادہ قابو پانے والا ہو سختی کے موقع پر خوب سخت اور نرمی کے موقع پر خوب نرم ہو اور شوریٰ والے اہل رائے کی رائے کو خوب جانتا ہو۔ لا یعنی میں مشغول نہ ہوتا ہو۔ جو بات ابھی پیش نہ آئی ہو اس کی وجہ سے غمگین و پریشان نہ ہو ۔علم سیکھنے سے شرماتا نہ ہو۔اچانک پیش آجانے والے کام سے گھبراتا نہ ہو۔ مال کے سنبھالنے میں خوب مضبوط اور غصہ میں آکر کمی زیادتی کر کے مال میں خیانت بالکل نہ کرے اور آئندہ پیش آنے والے امور کے لئے تیاری رکھے اور احتیاط اور چوکنا پن اور اطاعت خداوندی سے بروقت آراستہ ہوا ور ان تمام صفات کے حامل حضرت عمر بن خطاب ؓ ہیں ‘‘
یہ بیان فرما کر حضرت ابو بکر ؓ منبر سے نیچے تشریف لے آئے ۔
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت عمر بن خطابؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں انہوں نے اتنے زور سے سانس لیا کہ میں سمجھا کہ ان کی پسلیاں ٹوٹ گئی ہیں میں نے کہا اے امیرالمومنین آپ نے کسی بڑی پریشانی کی وجہ سے اتنا بڑا سانس لیا ہے انہوں کہا ہاں کسی بڑی پریشانی کی وجہ سے لیا ہے اور وہ یہ ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں اپنے بعد یہ امر خلافت کس کے سپرد کروں پھر میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا شاید تم اپنے ساتھی (حضرت علیؓ)کواس امر خلافت کا اہل سمجھتے ہو میں نے کہا جی ہاں بیشک وہ اس امر خلافت کے اہل ہیں کیونکہ وہ شروع میں مسلمان ہوئے تھے اور بڑے فضل وکمال والے ہیں انہوں نے فرمایا بیشک وہ ایسے ہی ہیں جیسے تم نے کہاکہ لیکن وہ ایسے آدمی ہیں کہ ان میں دل لگی اور مذاق کی عادت ہے پھر ان کا تذکرہ کرتے رہے اور پھر فرمایا اس امر خلافت کی صلاحیت صرف وہ آدمی رکھتا ہے جو مضبوط ہو لیکن درشت نہ ہو اور نرم ہو لیکن کنجوس نہ ہو حضرت ابن عباسؓ فرمایا کرتے تھے کہ یہ تمام صفات تو حضرت عمرؓ ہی میں پائی جاتی تھیں ۔

قارئین! آج کے کالم کے عنوان کی جانب جانے سے پہلے ہم تمام مسلمان بہن بھائیوں کو نیا اسلامی سال شروع ہونے پر نیک تمناؤں کی دعا دیتے ہیں محرم کی یکم تاریخ سید نا فاروق اعظمؓ کا یوم شہادت ہے اور دس محرم کا دن وہ دن ہے کہ جس دن نواسہ رسولؐ حضرت امام حسینؓ کو شہید کیا گیا تھا ۔دین حق کی سربلندی کی خاطر امام حسین ؓ اور ان کے قافلے نے سر تو کٹا دیئے لیکن باطل کے آگے سر نہ جھکایا اور پوری امت کو یہ سبق دیدیا کہ خلافت اور امارت اتنی مقدس اور اہم منصب ہے کہ اہل شخص ہی کی بیعت کی جا سکتی ہے اور نا اہل اور ظالم شخص کو کبھی بھی سربراہ مملکت کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا ۔یکم محرم اور دس محرم تک پوری امت مسلمہ ایک غم کی کیفیت میں مبتلا ہوتی ہے لیکن دراصل ہمیں سید نا فاروق اعظمؓ اور امام حسینؓ کی شہادتوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اسلامی مہینے کی ابتداء ہی حق کی خاطر سر کٹانے سے ہوتی ہے اور آج جتنے بھی چیلنجز سے امت مسلمہ گزر رہی ہے اس کا حل اسی سبق کے اندر موجود ہے جو حضرت عمر فاروق ؓ اور امام حسین ؓ نے حق کی خاطر اپنی جان قربان کر کے دیا۔ امت مسلمہ کو چاہیے کہ ان دونوں عظیم شخصیات کو اتحاد امت کا ذریعہ بنائیں نہ کہ فساد کرتے ہوئے فروعی اختلافات کو ہو ا دے کر یہود وہنود اور نصاریٰ کے مقاصد کی تکمیل کی جائے ۔حضرت عمر فاروق ؓ اور حضرت علی المرتضیؓ ایک دوسرے سے کتنی محبت کرتے تھے اور ان میں کتنا احترام کا رشتہ تھا اس حوالے سے اسلامی تاریخ میں رقم کئی واقعات گواہی دے رہے ہیں ۔آج وطن عزیز میں بدقسمتی سے انکل سام اور دیگر پاکستان دشمن قوتوں کی وجہ سے مختلف مکاتب فکر اور مسالک سے تعلق رکھنے والے کلمہ گو غلط فہمیوں کا شکار ہو کر قتل وغارتگری میں گھرے ہوئے ہیں ہمیں ان سازشوں کو سمجھنا ہوگا۔

قارئین! آئیے اب چلتے ہیں آج کے موضوع کی جانب ۔موضوع پر بات کرنے سے پہلے ہم ابن انشاء کی ایک نظم آپ کی نذر کر رہے ہیں۔
انشاء جی بہت دن بیت چکے
تم تنہا تھے، تم تنہا ہو
یہ جوگ بجوگ تو ٹھیک نہیں
یہ روگ کسی کا اچھا ہو؟
کبھی پورب میں، کبھی پچھم میں
تم پُروا ہو،تم پچھوا ہو؟
جو نگری نگری بھٹکائے
ایسا بھی نہ من میں کانٹا ہو
کیا اور سبھی چونچال یہاں ؟
کیا ایک تمہی یہاں دکھیا ہو
کیا ایک تمہی پر دھوپ کڑی
جب سب پر سکھ کاسایہ ہو
تم کس جنگل کا پھول میاں
تم کس بگیا کا بیلا ہو؟
تم کس ساگر کی لہربھلا
تم کس بادل کی برکھا ہو؟
تم کس پونم کا اجیارا
کس اندھی رین کی اوشا ہو
تم کن ہاتھوں کی مہندی ہو
تم کس ماتھے کا ٹیکا ہو
کیوں شہر تجا، کیوں جوگ لیا
کیوں وحشی ہو، کیوں رسوا ہو
ہم جب دیکھیں بہروپ نیا
ہم کیا جانیں تم کیا کیا ہو؟

ابن انشاء کی اس نظم کو اگر ہم آج کے کالم کے عنوان کیساتھ جوڑیں تو یقین جانیئے کہ ایک جوگی کی کیفیت راقم پر بھی طاری ہو جاتی ہے جس طرح ایلس ایک حیرت کدے میں گم ہو کر مختلف دلچسپ واقعات اور حادثات سے گزرتے ہوئے مختلف کیفیات سے دوچارہوتی ہے اسی طرح کی کیفیات کچھ ہم پر بھی طاری ہو جاتی ہیں ۔اس ملک کی سیاست اور حالات کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ خون کے آنسوؤں کے ساتھ بھی ماتم کیا جائے تو حق ادا نہیں ہو سکتا۔پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی اچانک پراسرار وفات کے بعد جس طرح کی قومی قیادت گزشتہ 66 سالوں سے سامنے آئی اور قوم اور ملک کیساتھ جو جوسلوک روا رکھا گیا وہ مرثیے کی زبان ہی میں لکھا جا سکتا ہے اسی طرح آزاد کشمیر جسے تحریک آزادی کشمیر کا بیس کیمپ قراردیا گیا تھا اور لاکھوں کشمیری شہداء کی روحوں سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ ہم آپ کے مشن کو پورا کریں گے آج وہ مشن عارضی اور بے وقعت اقتدار کے حصول کی مشق کی نذر ہو چکا ہے اور کسی کو بھی احساس زیاں نہیں ہے ۔کشمیری قوم بھی پاکستانی قوم کی طرح تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتی چلی گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس طرح پاکستان میں پنجابی ،سندھی، بلوچی ،پٹھان سے لیکر شیعہ، سنی ،بریلوی، وہابی اور دیگر عنوانات سے علاقائی اور مذہبی تقسیمیں دیکھنے میں آئیں اسی طرح آزاد کشمیر میں بھی معصوم کشمیریوں کو اضلاع میں بانٹا گیا ،برادریوں کے نام پر تعصبات کو فروغ دیا گیا اور دیگر تقسیموں کے ذریعے اصل ایشوز سے قوم کی توجہ ہٹا کر نان ایشوز کی جانب کشمیری قوم کی توجہ بھٹکا دی گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج لاکھوں کشمیری شہداء کی روحیں آزاد کشمیر کے بے رحم سیاستدانوں اور حکمرانوں اور عوام کی طرف دیکھ رہی ہیں کہ ہمارے ادھورے مشن کو کون پورا کریگا؟ـ

قارئین!سابق وزیراعظم آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے موجودہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید پر کرپشن کے سنگین ترین الزامات عائد کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ کرپشن کے تمام دستاویزی ثبوت برطانیہ میں ہاؤس آف لارڈز کے تاحیات رکن لارڈنذیراحمد کے ذریعے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف اور براہ راست پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری ،شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ، محترمہ فریال تالپور اور دیگر تک پہنچا دیئے گئے ہیں اور بہت جلد اس حوالے سے ڈراپ سین ہو جائیگا۔بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہاکہ مجاور وزیراعظم نے کشمیری قوم کا تشخص مجروح کیا اور جناح ماڈل ٹاؤن سے لے کر میڈیکل کالجز تک اور آئی کلک سکینڈل سے لے کر دیگر تمام ترقیاتی منصوبوں میں اربوں روپے کی کرپشن کی ان کیطرف سے کلک آئی ڈیز سکینڈل میں نہ صرف سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پامالی کی گئی بلکہ دستاویزی ثبوت بتا رہے ہیں کہ مجاور ٹولہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی سربراہی میں معصوم کشمیری عوام کے پانچ ارب روپے سے زائد کی ر قوم لوٹنے میں براہ راست ملوث ہے ۔بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں یہ ثبوت بھی ملے ہیں کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کرپشن کے اس کھیل میں افغان نیٹ ورک کو بھی ملوث کر چکے ہیں اور یہ ایک سکیورٹی رسک کا معاملہ بھی دکھائی دیتا ہے ۔ملک وقوم کے تحفظ کیلئے کام کرنیوالے تمام اداروں سے میں اپیل کرتا ہوں کہ سکیورٹی رسک بننے والے مجاور وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید کے ان تمام خطرناک معاملات کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کروائی جائیں اور ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا جائے ۔بیرسٹرسلطان محمودچوہدری نے کہاکہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے وزارت عظمیٰ کے منصب کی توہین کرتے ہوئے میرپور میں آزادکشمیر کے سب سے بڑے پریس کلب کشمیر پریس کلب میرپور میں سینئر صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے جو زبان استعمال کی ہے اس پر پوری دنیا میں کشمیریوں کی توہین ہوئی ہے ۔ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے گالیوں اور ناشائستہ الفاظ پر مبنی جو جملے صحافیوں کے متعلق ایوان صحافت میں استعمال کئے ہیں اس پر اسلام آباد اور پاکستان بھر کے سینئرصحافیوں اور ٹی۔وی وریڈیو اینکرز نے مجھ سے رابطہ کر کے اپنا شدید ترین احتجاج بھی ریکارڈ کروایا ہے۔ میں اس تمام احتجاج کو درست سمجھتا ہوں اور وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ سینئر صحافیوں سے فوراً معافی مانگیں ۔ سیاستدانوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ریاست کے چوتھے ستون صحافت اور صحافیوں کا احترام کریں اور ان کی طرف سے پوچھے گئے تمام سوالات کا سنجیدگی کیساتھ جواب دیں ۔بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہاکہ پوری دنیا میں آباد کشمیری مجاور ٹولے کی کرپشن کہانیوں کی وجہ سے شرمسار ہو رہے ہیں ۔وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کرپشن کے الزامات کا جواب دینے کی بجائے جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں اور ان جھوٹی قسموں کے نتیجے میں ان کے چہرے پرنور جھلک رہا ہے انہیں توبہ کرنی چاہیے۔ بیرسٹرسلطان محمودچوہدری نے کہاکہ میری جدوجہد اقتدار کی خاطر نہیں بلکہ کشمیری قوم کی عزت اور وقار کی بحالی کی خاطر ہے اور میں اپنی جدوجہد جاری رکھوں گا ۔

قارئین! یہ تو وہ موقف ہے جو سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمودچوہدری نے اپنایا ہوا ہے یہاں پر ہم اس موقف کے اپنانے کے بعد کی پیدا ہونیوالی صورتحال پر بات کرتے چلیں ۔26 جون 2011ء سے پہلے اور بعد ہم نے استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان اور سٹیشن ڈائریکٹر ایف ایم 93میرپور ریڈیو آزاد کشمیر چوہدری محمد شکیل کی خصوصی مشاورت اور رہنمائی سے ایف ایم 93 کے مقبول ترین پروگرام’’لائیو ٹاک ود جنیدانصاری‘‘ میں بلامبالغہ درجنوں پروگرام کئے جن میں بہت سی سیاسی شخصیات کو انٹرویو کیا ۔ان سیاسی شخصیات میں موجودہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید ،سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمودچوہدری، موجودہ صدر الحاج سردار یعقوب خان، سابق صدر راجہ ذوالقرنین خان ،سابق صدر ووزیراعظم سالار جمہوریت سردار سکندر حیات خان، سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان، سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان، سابق سپیکر شاہ غلام قادر، موجودہ ڈپٹی اپوزیشن لیڈر چوہدری طارق فاروق، موجودہ سینئر وزیر چوہدری یٰسین، وزرائے کرام چوہدری لطیف اکبر ایڈووکیٹ، محمد مطلوب انقلابی، جاوید اقبال بڈھانوی، افسرشاہد ایڈووکیٹ، عبدالسلام بٹ، محمد سلیم بٹ، طاہر کھوکھر سے لیکر ایک بہت بڑی فہرست موجود ہے ہم نے انتخابات کے فوراًبعد جب متوقع صدر ،وزیراعظم، سپیکراور ڈپٹی سپیکر دیگر اہم عہدوں کے حوالے سے بات چیت کی توواضح طور پر دکھائی دے رہا تھا کہ صدارت اور وزارت عظمیٰ کے لئے گوجر برادری کے سربراہ چوہدری لطیف اکبر ایڈووکیٹ فیورٹ ہیں اور ان کی پاکستان پیپلزپارٹی کیلئے دیرینہ خدمات اور وابستگی ان کا سب سے بڑا میرٹ ہیں اور اگر دورحاضر کے اقتدار کے لوازمات یعنی دنیاوی دولت کی بات کریں تو وہ شاید ان کے پاس کم ہے لیکن ہمیں یقین تھا اور استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کی بھی یہ پیش گوئی تھی کہ لطیف اکبر صدر یا وزیراعظم کسی ایک عہدے پر ضرور براجمان ہونگے لیکن جب نتائج سامنے آئے تو دروغ برگردن راوی ’’چمک کام کر گئی‘‘اور نظریاتی وابستگی شکست کھا گئی اور گوجر قبیلہ جو آزاد کشمیر کا سب سے بڑا قبیلہ ہے اور اسمبلی میں بھی اس قبیلے سے تعلق رکھنے والے ممبران کی تعداد سب سے زیادہ ہے واضح طور پر نظر انداز کردیاگیا ہم نے اپنے پروگرام میں چوہدری لطیف اکبر کا اس موقع پر انٹرویو کیا تو انہوں نے انتہائی سنجیدہ، ذہین اور ایک متحمل سیاستدان کی طرح گفتگو کر تے ہوئے پارٹی قیادت کے تمام فیصلوں کوتسلیم کرنے کااعلان کیا اور ثبوت دیا کہ وہ ایک نظم وضبط کے پابند نظریاتی پارٹی رہنما ہیں -

قارئین!آج جب بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سابق وزیراعظم آزاد کشمیر نے میڈیا کے سامنے دستاویزی ثبوت بھی پیش کر دیئے ہیں اور موجودہ حکومت کی کرپشن کے تمام ثبوت اپنی پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف تک بھی پہنچا دیئے ہیں تو دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے صورتحال کا انتہائی سنجیدہ نوٹس لیا ہے اور آزادکشمیر کی تمام پارلیمانی پارٹی کا ایک اہم اجلاس جلد ہی طلب کیا ہے جس میں ’’نئے تخت وتاج ‘‘ کے فیصلے ہونگے یہاں پر سیاسی پنڈتوں نے پیشگوئیاں شروع کردی ہیں اور بتایا جا رہا ہے کہ دیر آید درست آید کے مصداق آخر کار مظلوم گوجر برادری کا حق تسلیم کرتے ہوئے چوہدری لطیف اکبر یا محمدمطلوب انقلابی کے سر پر تاج رکھا جا سکتا ہے اس حوالے سے موجودہ وزیرہاؤسنگ چوہدری پرویز اشرف کا نام جاٹ قبیلے کی طرف سے تجویز کیا جا رہا ہے کیونکہ بیرسٹرسلطان محمودچوہدری، چوہدری محمد یٰسین اور موجودہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اقتدار کی کشمکش کی وجہ سے کچھ دوستوں کے خیال میں متنازعہ حیثیت اختیار کر چکے ہیں ۔یہ تو وقت ہی فیصلہ کریگا کہ سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری اور محترمہ فریال تالپور کس کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں لیکن واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی میں فیصلے ’’گوجر اور جاٹ قبیلوں‘‘کے سرخیلوں کے نام ہونگے ۔

قارئین! یہاں پر ہم اپنے ایک مہربان دوست مرکزی ترجمان پاکستان مسلم لیگ ن صدیق الفاروق کا ذکرخیربھی کرتے چلیں ہم پاکستان پیپلزپارٹی کی سابقہ وفاقی حکومت کو مکمل کریڈٹ دیتے ہیں کہ میڈیا کو جتنا انہوں نے برداشت کیا اتنا کسی کا بھی دل گردہ نہیں ہے اپنے ٹاک شو میں ہم نے پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں اس وقت کی اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی چیئرمین راجہ ظفرالحق ،مرکزی ترجمان صدیق الفاروق، احسن اقبال ،جنرل عبدالقادر بلوچ، بلیغ الرحمن، شیخ روحیل اصغر سمیت دیگر شخصیات کو متعدد بار انٹرویو کیا اور ان شخصیات نے پیپلزپارٹی پر کڑی تنقیدکی لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت نے یہ تنقیدخندہ پیشانی کیساتھ برداشت کی ۔ہم نے آج سے چندہفتے قبل جب تحریک عدم اعتماد سے پاکستان مسلم لیگ ن نے قدم پیچھے ہٹائے اور بیرسٹرسلطان محمود چوہدری کی قیادت میں تحریک عدم اعتماد بقول ان کے وقتی طور پر واپس لے لی گئی اس حوالے سے استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کے ہمراہ اپنے ٹاک شو میں مرکزی ترجمان مسلم لیگ ن صدیق الفاروق سے بات کرنے کی گزارش کی تو انہوں نے عنایت کرتے ہوئے وقت دیا اس حوالے سے ان کی گفتگو کا مرکزی نکتہ یہ تھاکہ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف جس طرح بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں اپوزیشن جماعتوں کا مینڈیٹ تسلیم کرتے ہیں اسی طرح آزاد کشمیر میں بھی پیپلزپارٹی کا مینڈیٹ قابل احترام سمجھتے ہیں۔صدیق الفاروق کی یہ گفتگو چند ہفتوں تک آرٹیکلز اور خبروں کے ذریعے اخبارات کی زینت بنتی رہی کہ اچانک ایک دن ہمیں موبائل پر صدیق الفاروق کی کال آئی اور انہوں نے چند ہفتے قبل دیئے گئے انٹرویو میں دیئے گئے موقف میں کچھ اضافہ کیا اور کہنے لگے کہ جب بھی آزاد کشمیر میں اگلے انتخابات ہونگے تو پاکستان مسلم لیگ ن کے نامزد وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان ہونگے اور اس حوالے سے وہ اپنے موقف میں کچھ اضافہ چاہتے ہیں ۔آج کے آرٹیکل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم صدیق الفاروق کی طرف سے دیئے گئے واضح اشارے کوقارئین کی نذرکررہے ہیں ۔یہاں چندپیش گوئیاں کرتے چلیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی آزاد کشمیر کی پارٹی صدارت تبدیل ہو سکتی ہے، صدر ووزیراعظم کے عہدوں پر نئے چہرے نظرآسکتے ہیں اور اگر بیرسٹرسلطان محمود چوہدری اور پاکستان مسلم لیگ ن اکٹھے ہو گئے اور مسلم کانفرنس نے بھی ان کا ساتھ دیا تو آزاد کشمیر میں وقت سے پہلے نئے الیکشن ہو سکتے ہیں اور ان کانتیجہ راجپوت برادری سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے صدر راجہ فاروق حیدر خان کے وزیراعظم بننے کی صورت میں برآمد ہوگا۔ گویا وزارت عظمیٰ اس وقت گوجر ،جاٹ اورراجپوت قبائل کے درمیان موجود ہے بقول غالب
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو جینا تو مرنے کا مزا کیا
تجاہل پیشگی سے مدعا کیا؟
کہاں تک، اے سراپا ناز کیا کیا؟
نوازش ہائے بے جادیکھتا ہوں
شکایت ہائے رنگیں کا ،گلہ کیا
نفس موجِ محیطِ بے خودی ہے
تغافل ہائے ساقی کا گلہ کیا؟
دماغِ عطرِ پیراہن نہیں ہے
غمِ آوارگی ہائے صبا، کیا؟
بلائے جاں ہے غالب اس کی ہر بات
عبارت کیا،اشارت کیا، ادا کیا؟

قارئین! اس وقت کافی ساری باتیں اشاروں کنایوں میں ہو رہی ہیں اور پاکستان مسلم لیگ ن بھی اس وقت فیصلہ کن مرحلے پر کھڑی کچھ سوچ رہی ہے دیکھتے ہیں نتیجہ کیا نکلتا ہے۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے۔
ننھا طالب علم صبح کی نماز کے بعد گڑگڑا کر دعا مانگ رہا تھا
’’یا اﷲ جہلم کو پاکستان کا دارالحکومت بنا دے‘‘
ماں نے حیران ہو کر پوچھا
’’بیٹا تم یہ دعا کیوں مانگ رہے ہو؟‘‘
طالب علم نے جواب دیا
’’اس لئے اماں کہ میں پرچے میں یہی لکھ کر آیا ہوں‘‘

قارئین!آج کا کالم تحریر کرنے کے بعد ہم بھی سوچ رہے ہیں کہ مصلیٰ بچھا کر دعا مانگنے کا سلسلہ شروع کر دیا جائے کہ اگلا وزیراعظم ’’گوجر، جاٹ یا راجپوت قبیلے ‘‘ سے ہی ہو تاکہ انصار کی عزت کچھ باقی رہ جائے لیکن شاید مانگے جانے کے قابل دعا یہ ہے کہ اﷲ کشمیری قوم کو وہ قیادت نصیب کرے جو قبیلائی، نسلی، علاقائی اور مذہبی تعصبات سے بالاتر ہو کر کشمیری قوم کی قیادت کا حق بھی ادا کر سکے اور لاکھوں کشمیری شہداء کی روحوں سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے عملی کام بھی کر سکے۔آمین
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336922 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More