طالبان سے طویل “گوریلا وار“ کا خواہشمند کون ہے ؟

اسرائیل ، امریکہ اور ان کی اتحادی قوتوں نے انتیائی منظم، ڈرامائی اور خفیہ پلان بناکر “ورلڈ ٹریڈ سنٹر۔ نیو یارک“ کو گراونڈ فلور میں ڈائنا میٹ فٹ کر کے تباہ کرنے کا ڈرامہ رچانے کے بعد جذباتی فضا تیار کی اور “ دہشت گردی کے خلاف جنگ “ کا اعلان کرکے اسلامی ملکوں کے خلاف تیسری عالمی جنگ شروع کردی اور کہیں خفیہ اور کہیں اعلانیہ حملہ کر دیا، جن میں عراق فلسطین، سوڈان، الجزائر، لیبیا، افغانستان، مصر وغیرہ اور پاکستان کے شمال مغربی علاقے شامل ہیں۔

اسلامی ملکوں کی زیادہ تر مغربی ایجنٹ اور غلام حکومتوں نے کفار کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ جس میں اسوقت کی پاکستانی حکومت بھی شامل تھی۔ لیکن سلام ہے کہ کچھ جراءت مند اسلامی مجاھدین کو کہ جنھوں نے افغان بارڈر کے دونوں سائڈ پر سفاک دشمن کے آگے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا، اور گوریلا جنگ کا آغاز کی اور دس سالہ طویل جنگ کے بعد دشمن کو اسکے مقاصد کے حصول میں کامیابی حاصل کیئے بغیر اپنی مقدس سرزمین سے نکل جانے پر مجبور کردیاہے۔

ہم پاکستانی عوام ان مجاھدین کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ محبت اور جنگ میں بہت کچھ جائز ہو جاتا ہے، اگر “کو-لیٹرل ڈیمیج“ میں چند ہزار معصوم پاکستانیوں اور افغانیوں کی جان بھی کام آگئ تو غیرت مند قوموں کی تاریخ میں یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ “کو-لیٹرل ڈیمیج“ میں اتحادی فوجوں نے بھی اپنے حامی ہزاروں وردی والوں اور بغیر وردی والے معصوموں کو قتل بھی کیا ہے اور معافی بھی مانگی ہے، یہ معافی ہمارے والے بھی مانگ سکتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کے کیا ہم کو حملہ آور طاغوتی فوجوں کی غلامی قبول کرنی ہے یا صرف ایک اللہ کی غلامی اختیار کرکے دوسرے تمام طوق غلامی سے اپنی گردنوں کو آزاد کرنا ہے۔
کیا ڈر ہے جو ساری ہی خدائی ہے مخالف - کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے - - - - - - - - -

اسرائیل کی تنظیم “فری میسن“ اور اسکے تنخواہ یافتہ نام نہاد مسلمان ایجنٹوں کی ساٹھ سالہ خفیہ سرگرمیاں اب منطر عام پر آہی چکی ہیں۔ یہ بھی منظر عام پر آچکا ہے کہ پاکستان اور دوسرے کچھ ممالک کو اسرائیل نے کس طرح اپنے آلہ کار ( Tool ) امریکہ کے ذریعے رفتہ رفتہ سودی قرضوں کے جال میں جکڑا تاکہ نازک وقت میں اقتصادی بلیک میلنگ کے ذریعے اس اہم ترین جغرافیائی اہمیت والے اسلامی ملک سے اپنی ناجائیز شرطیں منوائی جاسکیں۔ اس سے بھی قبل پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں میں اسرائیلیوں اور اسکے ایجنٹوں کا کتنا بڑا ہاتھ تھا اور کون کون سی عالمی قوتوں کو اپنے جال میں پھانس کر کیسے کیسے بلیک میل کیا۔ ان سب کو ایک امریکی حق پرست مصنف ڈاکٹر ولیم گائےکار اپنی کتاب Pawns in the game میں تفصیلاً لکھ چکا ہے، جس کا اردو ترجمہ“ بساط عالم کے مہرے“ کے عنوان سے ڈاکٹر رضی الدین سید نے شائع کیا ہے۔جسے پڑھ کر یہ پتہ چلتا ہے کہ اسرائیلی اپنے “تسخیر عالم“ کے منصوبے کی راہ میں آنے والی ہر چھوٹی اور بڑی رکاوٹوں کو کتنی سفاکیت اور بے رحمی سے اپنی راہ سے ہٹادیتے ہیں۔

لیکن افسوس کہ ابھی ہم اسی مخمصہ میں پھنسے ہؤے ہیں کہ حکیم اللہ محسود شہید ہے یا قاتل۔ مولوی فتوے بازیوں میں فرقہ واریوں میں خوش ہیں ، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ گو مگو کے عالم میں ہے کہ بیرونی دباؤ پر خود کو طویل گوریلا وار میں الجھالے اور پڑوسی ملک سے شکست خوردہ بیرونی افواج کے منہ کی کالک اپنے منہ پر مل لے۔ یا مزاکرات کے عمل کو ہر قیمت پر آگے بڑھائے کہ “وہ جو بیچتے تھے دوائے دل“ وہ بھی بھی اپنی دکان بڑھانے کے لئے افغانستان میں مزاکرات کا ڈول ڈال رہے ہیں۔

طالبان سے جنگ کی بھڑکیں لگانے والے دانشور ذرا یہ تو بتائیں کہ کیا ہمارے ملک کا کرپٹ ، نا اہل اور رشوت خور انفرا اسٹرکچر اس قابل ہے کہ وہ ‘پراکسی وار‘ کا متحمل ہو سکے گا۔ یا پھر وہ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کی تباہی دیکھنے کے خواہشمند ازلی دشمنوں کی چالوں اور سازشوں کی تکمیل کا کام ہم حود ہی بہت سرعت سے پایہ تکمیل تک پہنچادیں۔

Saeed Khan
About the Author: Saeed Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.