سکاٹ لینڈ یارڈ کے بعد اب اقوام
متحدہ کا کمیشن کیس کی تحقیقات کے لئے پاکستان پہنچ چکا ہے۔ کمیشن کے
سربراہ نے بڑے واشگاف الفاظ میں میڈیا کو بتا دیا ہے کہ فوجداری تحقیقات اس
کے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی کمیشن
ایک قتل کیس کی تحقیقات کررہا ہو اور فوجداری تحقیقات اس کا مینڈیٹ ہی نہ
ہو تو وہ کیسے تحقیقات پایہ تکمیل تک پہنچا سکے گا؟ کس کو ملزم گردانے گا؟
کس قسم کی تحقیقات کرے گا؟ دوسرا بڑا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی ایجنسیاں
جن کے بارے میں حکومت بھارت کو یہ کہتی آرہی ہے کہ وہ ممبئی میں دہشت گردی
کے ثبوت پاکستان کے حوالے کرے اور پاکستانی ایجنسیاں ان کی تحقیقات کریں گی،
وہ ایجنسیاں کسی قابل نہیں کہ اتنا مہنگا کمیشن قائم کروایا گیا؟ کیا کمیشن
کی تحقیقات پر اٹھنے والے اخراجات پیپلز پارٹی اپنی جیب سے ادا کرے گی؟
نہیں، ایسا ہرگز نہیں! ایک طرف تو پاکستان کے عوام پر پہلے ہی مہنگائی کی
یلغار ہو رہی ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے آئے دن عوام کی جیبوں
پر ڈاکے ڈالے جارہے ہیں تو دوسری طرف عوام کی خون پسینے کی کمائی کو کمیشن
کے اخراجات کی نذر بھی کیا جارہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے کرتا دھرتا اور اس پر
قابض اشخاص اتنے غریب تو نہیں کہ وہ ”چندہ“ اکٹھا کر کے بھی تحقیقاتی کمیشن
کے اخراجات ادا نہ کرسکیں!
جہاں تک حقائق کو سامنے لانے کا تعلق ہے، سارے شواہد تو پہلے دن سے ہی ضائع
کر دیے گئے تھے، حکومت میں بیٹھے ہوئے افراد بھی اس قتل سے تب تک بری الذمہ
نہیں ہو سکتے جب تک چودھری اسلم ایڈووکیٹ کی ایف آئی آر کے لئے درخواست پر
مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات نہیں ہوجاتیں۔ محترمہ نے جو ای میل اپنے
قتل سے کچھ روز قبل کی تھی وہ ان کا اپنی شہادت سے قبل واضح بیان تھا جسے
قانون کی نظر میں بہت اہمیت حاصل ہے، اس کے تحت نامزد ملزمان کو کیوں
گرفتار نہیں کیا گیا اور ان سے پوچھ گچھ کیوں نہ ہوئی؟ پرویز مشرف کو کیوں
آزاد چھوڑ دیا گیا جبکہ محترمہ کے قتل کی براہ راست ذمہ داری اس پر تھی!
بریگیڈئیر چیمہ جس نے چوبیس گھنٹوں میں 3/4 مرتبہ اپنا بیان بدلا، اس کو
کیوں شامل تفتیش نہیں کیا گیا، پاکستان میں اب تک ہونے والی دہشت گردانہ
کارروائیوں کا الزام فوراً بیت اللہ محسود قبول کرلیتا ہے، صرف اسی کو ملزم
بنا کر کیا فائدہ حاصل کیا گیا ہے؟ کیا کمیشن کے ارکان کی پہنچ ہر اس شخص
تک ہوپائے گی جو کمیشن کو بیان دینا چاہے گا؟ اگر کمیشن کسی شخص کو طلب
نہیں کر سکتا تو اس کا دائرہ کار کتنا ”وسیع“ ہے؟ کیا کمیشن اس امر کی بھی
تحقیق کرسکے گا کہ جب محترمہ جلسہ عام سے واپسی پر اپنی گاڑی میں بیٹھ چکی
تھیں تو مبینہ طور پر کس کی فون کال پر وہ مجبوراً گاڑی کے سن روف سے باہر
نکلیں؟ کیا کمیشن موجودہ حکومت کے اہم عہدیداران کو شک کی نگاہ سے دیکھ سکے
گا اور ان سے ”تفتیش“ کر سکے گا؟ پاکستانی عوام کافی حد تک سمجھ چکے ہیں کہ
محترمہ کا قتل کیوں کیا گیا، ویسے بھی عام اصول یہی ہے کہ کسی قتل سے جو
لوگ بالواسطہ یا بلا واسطہ فائدہ اٹھاتے ہیں انہیں سب سے پہلے ملزموں کی
فہرست میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہ بات سمجھنے کے لئے کسی آئن سٹائن کی عقل کی
ضرورت ہرگز نہیں کہ محترمہ کے قتل سے کن لوگوں نے فوائد حاصل کئے۔ لیاقت
باغ کے جلسہ عام میں خالد شہنشاہ کی پراسرار حرکات کا آج تک نوٹس کیوں نہیں
لیا گیا اور اسی خالد شہنشاہ کی پراسرار موت سے آج تک پردہ کیوں نہیں اٹھ
سکا؟ کیا چودھری اسلم ایڈوکیٹ، جو پیپلز پارٹی کے ایک معروف راہنما ہیں، ان
کی باتوں کو کوئی وزن دے سکے گا؟ کیا چودھری اسلم کی درخواست کے مطابق
رحمان ملک اور بابر اعوان کو ملزمان کی فہرست میں شامل کیا جاسکے گا؟ یہ
اتنے اہم سوالات ہیں کہ اگر پاکستانی عوام کے ٹیکس پر بننے والے کمیشن کو
ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے کی اجازت نہ ہوئی یا وہ ”کسی بھی وجہ سے“
ایسا نہ کرسکے تو ساری تحقیقات فضول ہوں گی۔ اس کے علاوہ کیا کمیشن محترمہ
کے قتل میں امریکہ اور اس کے پاکستانی ایجنٹوں کے کردار کو سامنے لاسکتا ہے؟
میرے خیال میں ایسا ہونا ممکن نہیں، اقوام متحدہ جس پر امریکہ کا مکمل قبضہ
ہے اس کے تحت بننے والا کمیشن ایسا ہرگز نہیں کرسکتا۔ کیا کوئی ذی عقل
محترمہ کے قتل سے امریکہ اور یہاں موجود اس کے ایجنٹوں کو بری کر سکتا ہے؟
اب دیکھتے ہیں کہ کمیشن کیا تحقیقات کرتا ہے اور بھاری ”فیس“ لے کر کیا نئی
بات ڈھونڈتا ہے جس کا عوام ، حکومت اور پیپلز پارٹی کو پہلے سے علم نہ ہو....! |