بھولا بڑا بدمعاش ہے۔ہمیشہ دور کی کوڑی لاتا ہے۔آج آیا تو
خوشی اس کے چہرے سے پھوٹی پڑتی تھی ۔ایک اخبار اس کے ہاتھ میں تھا اور وہ
اس پہ چھپی مولٰنا فضل اﷲ کی تصویر کو دیوانوں کی طرح چومے جا رہا تھا۔میں
سمجھا مجھے چڑا رہا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میں طالبان کے بارے میں کیا
سوچ رکھتا ہوں۔میں چڑچڑاہٹ کا شکار نہیں ہوا کیونکہ میں یہ بھی جانتا تھا
کہ طالبان کے بارے میں بھولے کے اپنے خیالات کیا ہیں۔ جب میں نے زیادہ توجہ
نہیں دی تو اس نے "چوما چٹی" چھوڑ کے اپنی تقریر شروع کی۔ کہنے لگا اب
طالبان کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔میں نے پوچھا وہ کیسے تو جواب آیا وہ بھی
بتا دوں گا لیکن پہلے مجھے مولٰنا فضل اﷲ اور اس کے ساتھیوں کا شکریہ تو
ادا کرنے دو۔ اب میں واقعی مخمصے کا شکار ہو گیا کہ کہیں مولٰنا فضل اﷲ کی
بطور چیف تحریک ِطالبان نامزدگی پہ اس کا دماغ تو کھسک نہیں گیا۔وہ میرے
پہلو میں بیٹھا اور ایک خبر پہ انگلی رکھ دی۔میں نے خبر دیکھی تو انگلیاں
دانتوں میں داب لیں۔
ریاست اور حکمران رعایا کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو جائیں تو اسی طرح کی
سوچ ابھرا کرتی ہے۔ جب حکمران صرف اپنے خزانہ بھر رہے ہوں۔ جب لوٹ کا مال
انتہائی تیز رفتاری سے ڈالرز اور پونڈز میں تبدیل کیا جا رہا ہو۔ جب ملک
میں سرمایہ کاری کی بجائے اپنا کاروبار ملک سے باہر منتقل کیا جا رہا ہو۔جب
چوروں کو تحفظ دیا جا رہا ہو۔ جب غریب کو ہزاروں روپے کی نادہندگی پہ جیل
کی ہوا کھانی پڑے اور امیر اربوں لوٹ کر بھی بری الذمہ ہو جائیں ۔جب اقرباء
پروری عروج پر ہو اور ملک پہ ایک ہی گھر کے لوگ مسلط ہوں۔ جب حزب اختلاف
کوا حلال ہے یا حرام جیسی بحث میں مشغول ہو۔جب مذہبی قائدین کتوں کو شہید
قرار دے رہے ہوں،جب بم دھماکوں میں مرنے والے بھی شہید ہوں اور بم دھماکے
کرنے والا بھی شہید تو اس طرح کی سوچ کا ابھرنا کوئی اجنبھے کی بات
نہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ وہ حکمران جو اپنے عوام سے رابطے میں نہ رہے وقت نے
انہیں نشانِ عبرت بنا دیا۔
خیر آئیے وہ خبر پڑھتے ہیں۔ہر جگہ حملے کریں گے،پہلے پنجاب کی باری
ہے۔بازاروں پبلک مقامات اور عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنائینگے۔خبر کی
تفصیل کچھ یوں تھی کہ سی این این پہ ایک انٹرویو میں تحریک طالبان کے
ترجمان عصمت اﷲ شاہین نے کہا ہے کہ ہم حکیم اﷲ محسود کی شہادت کا بدلہ لیں
گے۔ہم ہر جگہ حملہ کرینگے لیکن اب کی بار پنجاب ہمارا پہلا نشانہ ہو گا۔ہم
عام لوگوں کو نشانہ نہیں بنائینگے بلکہ اب کی بار نواز شریف ہمارا پہلا
نشانہ ہو گا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ عام شہریوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں
ہم پبلک پارکس،بازاروں اور عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنائینگے ۔یہ تھی وہ
خبر جس پہ بھولے کی انگلی تھی اور اس پہ وہ پھولے نہیں سما رہا تھا۔ مجھے
کہنے لگا کہ میرا تو طالبان سے جھگڑا ہی یہی تھا کہ وہ حکمرانوں کے فیصلوں
کی سزا معصوم اور بے نوا لوگوں کو دے رہے تھے۔ اگر طالبان عوام کو معاف کر
دیں اور امریکہ کی غلامی کی سزا امریکہ کے غلاموں کو دیں تو ہمیں بھلا اس
پہ کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ کیا آج تک کسی حکمران کو ہماری شہادتوں پہ کوئی
دکھ ہوا ہے۔کیا آج تک کسی نے مسئلے کو دل سے سلجھانے کی کوشش کی ہے؟
وہ بولتا رہا کہ مزہ تو اب آئے گا جب ہم تماشہ دیکھیں گے۔جب انہیں چن چن کے
مارا جائے گا۔ جب ان کے محل خالی ہوں گے جب وہاں سے جنازے اٹھیں گے ۔جب
گدیاں خالی ہو جائیں گی اور جب گاؤں چوہدریوں سے خالی ہو جائینگے اور جب
راج کرے گی خلق خدا۔ جب یہ لوگ اپنے اپنے محل اپنے چوکیداروں مالیوں اور
خانساماؤں کے حوالے کر کے خود پیا دیس سدھاریں گے تو خس کم ہو گی اور جہاں
پاک۔ پھر نہ یہ ہونگے نہ ان کی نحوست۔پھر فیصلے بھی ہمارے ہونگے اور ان پہ
عمل بھی ہم ہی کریں گے۔ ہم ٹیکس دینگے اور اس یقین کے ساتھ کہ وہ ٹیکس ان
بد معاشوں کے اللے تللوں پہ نہیں ہمارے ملک کی بہتری اور ہمارے بچوں کے
مستقبل کی بہتری کے لئے خرچ ہو گا۔پھر وہی حکمران بنے گا جسے ہم چاہیں گے۔
ہمارا مینڈیٹ کوئی چوری کر کے کسی پٹھو کو ہمارے سر پہ مسلط نہیں کر پائے
گا۔
بھولا بڑا چول ہے بولنا شروع کر دے تو نان سٹاپ بولتا ہے اور اسے چپ کرنا
مشکل ہو جاتا ہے۔اسے روکنے کو میں نے اسے باقاعدہ ڈانٹ دیااور چیختے ہوئے
کہا کہ چپ ہو جاؤ۔ جو منہ میں آتا ہے بولتے چلے جاتے ہو۔یکا یک اس کا چہرہ
بجھ سا گیا جیسے اسے میری چیخ وپکار سے دھچکا لگا ہو۔ مجھے اس کے چہرے کے
تائثرات سے یوں محسوس ہوا کہ جیسے اس نے مجھے بھی اس لسٹ میں شامل کر دیا
ہے جن کو کل کلاں اس نے قرارِ واقعی سزا دلوانے کے لئے اپنی لسٹ میں شامل
کر رکھا ہے۔یہ خوشی ابھی تو میں نے بھولے کے چہرے پہ دیکھی ہے جو جاہل آدمی
ہے لیکن یہ شادمانی کل کو میرے چہرے پہ بھی آسکتی ہے۔بہت ہو گئی اب فیصلے
کرنے کا وقت ہے۔مقتدر قوتیں اور افراد اگر چاہتے ہیں کہ لوگ اس طرح کی
خبروں پہ خوشی کا اظہار نہ کریں تو خدا را ان کے دل کی جاننے کی کوشش
کریں۔مر تو ہم ویسے بھی گئے ہیں۔ یہ کوئی زندگی ہے جس میں نہ کھانے کو کچھ
ہے نہ پہننے کو۔گردے بیچنے اور بچے فروخت کرنے کے فسانے بھی اب پرانے ہوئے
اب تو لوگ سیدھا اٹھا کے نہر میں پھینکتے ہیں اور جہاں نہر نہیں وہاں چوہے
مار گولیاں ان کی مشکل آسان کر دیتی ہیں۔ایسے لوگوں کو کیا فکر ہو گی کہ
کون مر رہا ہے اور کون مار رہا ہے۔وہ تو خود اپنی جان ہتھیلی پہ لئے پھرتے
ہیں۔پاکستان کے لوگ جتنی نفرت طالبان سے کرتے ہیں اس سے بڑھ کے نفرت وہ
امریکہ سے کرتے ہیں۔وہ جہاں طالبان کے ہاتھوں تنگ ہیں وہیں وہ اپنی تمام
مصیبتوں کا ذمہ دار امریکہ کو سمجھتے ہیں جو اپنے مقامی آلہ کاروں یعنی
ہماری اشرافیہ کے ذریعے ہم پہ مصیبتیں نازل کرتا ہے۔امریکہ کی محبت پہ لعنت
بھیجئیے اور اس کے بعد یکسو ہو کے طالبان سے بات کریں۔بیس کروڑ کے مقابلے
میں ایک لاکھ طالبان کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ |