بھارتی قیادت نے تمام پریشانیوں کا بہت اچھا حل تلاش
کرلیا ہے۔ جب معاملات سمجھ میں نہ آرہے ہوں تو انہیں یا تو ’’بالائے طاق کے
اوپر‘‘ رکھ دینا چاہیے یا پھر بوریا بستر لپیٹ کر کہیں اور چل دینا چاہیے۔
جو لوگ زمین پر مسائل حل نہیں کر پاتے وہ آسمانوں میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔
زندگی بھر کچھ نہ کرنے والے آسمان کو تکتے ہوئے دست بہ دعا رہتے ہیں۔ دِلّی
سرکار خیر سے دعا کی منزل سے بہت آگے بڑھ گئی ہے۔ چاند پر تو مغرب کے یاروں
نے پہلے بستیاں بسالی ہیں اِس لیے چانکیہ کے چیلوں نے آسمان کی چادر میں
ذرا آگے جاکر پیوند لگانے کا سوچا اور مریخ کا رخ کیا ہے۔
علاقائی سُپر پاور بننے کے چکر میں بھارت نے سفارتی دستر خوان پر ہر پڑوسی
ملک کے سامنے خوب خوب تنازعات پروسے ہیں۔ ایک پاکستان پر کیا موقوف ہے،
نیپال سے سری لنکا تک سبھی پریشان ہیں۔ لے دے کر بس چین ہے جس نے بھارت کا
ناطقہ بند کیا ہے۔ چین نے 1962 میں بھارت کی مہم جُو طبعیت کو ایسی لگام دی
کہ دِلّی سرکار کو اگر وہ چند روزہ جنگ کبھی یاد بھی آ جائے تو سَر اور دِل
دونوں تھام لیتی ہے!
نومبر 2011 میں چین نے مریخ کیلئے تحقیقی مشن روانہ کرنا چاہا مگر تجربہ
ناکام رہا۔ اس سے قبل 1998 میں جاپان بھی ناکامی سے دوچار رہا تھا۔ چین کی
ٹیکنالوجی کے بارے میں تو دو رائے ہوسکتی ہے مگر جاپان؟ وہ تو ٹیکنالوجی کا
امام ہے۔ اُس کی ٹیکنالوجی بھی ناکام ہوگئی! مگر اِن دونوں کے تجربے سے نئی
دہلی کے حکمرانوں نے کوئی سبق نہ سیکھا اور مریخ پر مشن بھیجنے کیلئے کمر
کس لی۔
5 نومبر کو بھارت نے جنوبی ریاست آندھرا پردیش کے مشرقی حصے میں واقع سری
ہری کوٹا لانچنگ گراؤنڈ سے اپنا مشن ’’منگل یان‘‘ مریخ کی طرف روانہ کردیا۔
’’منگل یان‘‘ 30 نومبر تک زمین کے مدار میں رہے گا جس کے بعد بنگلور کا
خلائی مرکز اِسے مریخ کے 9 ماہ کے سفر پر روانہ کرے گا۔ 40 کروڑ کلو میٹر
کا فاصلہ طے کرکے یہ خلائی جہاز 12 ستمبر 2014 کو مریخ کے مدار میں داخل
ہوگا۔ ’’منگل یان‘‘ کو 500 سائنس دانوں نے 15 ماہ کی شبانہ روز محنت کے بعد
تیار کیا ہے۔ اس منصوبے پر ساڑھے چار تا پانچ ارب روپے خرچ ہوئے ہیں۔
پاکستانی کرنسی میں یہ رقم آٹھ ارب روپے تک جا پہنچتی ہے۔
’’منگل یان‘‘ کے بطن سے اب تک کچھ برآمد نہیں ہوا مگر اِس کی لانچنگ نے
بھارت میں ایک نئی بحث کو ضرور جنم دیا ہے۔ سائنس دان، دانشور اور سیاسی
مبصرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا بھارتی قیادت نے تمام بنیادی مسائل حل
کرلیے جو اب زمین سے یاری ترک کرکے خلاء کی گہرائیوں کو کھنگالا جارہا ہے؟
ان تبصروں میں بھارتی قیادت کے لیے ایک ہی مشورہ ہے ع
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ!
1350 کلو گرام کا ’’منگل یان‘‘ مریخ کی طرف اُسی بھارت نے روانہ کیا ہے جس
کے 23 کروڑ سے زائد باشندے آج بھی پینے کے صاف پانی سے یکسر محروم ہیں۔
اِتنی ہی تعداد میں لوگ آج بھی ایک وقت بھوکے رہتے ہیں۔ 12 کروڑ سے زائد
افراد خوراک کی مقدار اور معیار دونوں کے معاملے میں انتہائی پچھڑے ہوئے
ہیں۔ 20 کروڑ سے زائد بھارتی گھرانے آج بھی گھر کے نام پر ایک تنگ و تاریک
کمرے میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک کمرے کے ان مکانات کے ایک کونے
میں ’’کچن‘‘ اور دوسرے کونے میں برتن اور کپڑے دھونے کا چوکھٹا بھی بنا
ہوتا ہے۔ کروڑوں افراد کو اپنے نام نہاد گھروں میں بیت الخلاء اور غسل خانے
کی سہولت میسر نہیں۔ دہلی، مدراس، کولکتہ، ممبئی، حیدر آباد دکن اور احمد
آباد سمیت 20 چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں کم و بیش 8 کروڑ افراد علی
الصباح فطرت کی پُکار پر کھیتوں، ریل کی پٹڑیوں اور خالی پلاٹس کا رُخ کرنے
پر مجبور ہوتے ہیں!
’’منگل یان‘‘ کی لانچنگ کی شکل میں کی گئی ’’خلائی فضول خرچی‘‘ پر خلائی
تحقیق کے ادارے انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اِسرو) کے سابق سربراہان میں
شدید اختلافات سامنے آئے ہیں۔ ’’اِسرو‘‘ کے سابق سربراہ جی مادھون نایر کا
کہنا ہے کہ ’’اِس مشن سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرنا چاہئیں کیونکہ
خلائی تحقیق کا امریکی ادارہ ’ناسا‘ پہلے ہی واضح کرچکا ہے کہ مریخ پر
زندگی کے آثار نہیں اور وہاں میتھین گیس کے ذخائر کا سُراغ لگاکر اُن سے
متعلق اعداد و شمار بھی انٹرنیٹ پر جاری کئے جاچکے ہیں۔ اب ایسا کیا ہے جو
بھارت دریافت کرے گا؟ جب ’ناسا‘ نے مریخ کے بارے میں بہت سی بنیادیں باتیں
معلوم کر ہی لی ہیں تو بھارت کا مریخ پر تحقیق کرنا عوام کو بے وقوف بنانے
کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ خلائی تحقیق سے وابستہ سائنس امیتابھ گھوش نے
’’اِسرو‘‘ کے سابق سربراہان ڈاکٹر کے کستوری رنگن اور یو آر آر راؤ کے
بیانات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کا مریخ مشن کوئی نیا اور
مفید کام نہیں! جو کچھ انٹرنیٹ کے ذریعے چند منٹوں میں معلوم کیا جاسکتا ہے
اُسے جاننے کے لیے زرِ کثیر خرچ کرکے خلائی مہم جُوئی کا ’’ارتکاب‘‘ کسی
طور قابل قبول نہیں! معروف سماجی رہنما ہرش مندر نے بھی مریخ مشن پر 500
کروڑ روپے خرچ کئے جانے کو صریح فضول خرچی قرار دیا ہے۔
ہندی کے معروف اخبار ’’جاگرن‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ مریخ کی طرف مشن روانہ
کرنے کی 9 کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئی تھیں۔ اگر بھارت 30 نومبر کے بعد
’’منگل یان‘‘ کو زمین کے مدار سے مریخ کی طرف روانہ کرنے میں کامیاب ہوگیا
تو وہ ایسا کرنے والا پہلا ایشیائی ملک ہوگا۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ بھارت مریخ تک اپنا تحقیقی جہاز پہنچاکر کیا حاصل
کرنا چاہتا ہے؟ کیا پڑوسیوں اور دیگر علاقائی ممالک پر اپنی ٹیکنالوجیکل
برتری کا رعب جمانا ہے؟ مریخ کے مدار میں داخل ہونے کا خواہش مند بھارت اب
تک اپنے 50 کروڑ باشندوں کو غربت کی لکیر کے مدار سے نکالنے میں کامیاب
نہیں ہوسکا۔ اپنے ہاں معاشی ناہمواری دور کرنے میں قدم قدم پر ناکام رہنے
والا ملک کبھی عالمی معیشت میں بڑا کردار ادا کرنے کی باتیں کرتا ہے اور
کبھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دائمی نشست حاصل کرنے کی دوڑ میں حصہ
لیتا دکھائی دیتا ہے۔ بھارت نے کئی شعبوں میں ترقی کی ہے۔ انفارمیشن
ٹیکنالوجی اُن میں نمایاں ہے مگر ایسی ترقی کس کام کی جو ملک کی آدھی سے
زائد آبادی کو آج بھی بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے میں کامیاب
نہیں ہوسکی؟ شمال مشرقی بھارت سمیت کم و بیش دس ریاستوں میں کسی نہ کسی سطح
پر علیٰحدگی کی تحریک چل رہی ہے۔ کئی ریاستوں میں باغی اِس قدر مضبوط ہیں
کہ اِن کے بہت سے علاقوں میں ریاستی عملداری تقریباً ناپید ہوکر رہ گئی ہے۔
کشمیر ہی کی مثالی لیجیے جہاں آج بھی کم و بیش سات لاکھ فوجی اور نیم فوجی
دستے تعینات ہیں۔ یہ تمام مسائل اٹل حقیقت بن کر منصۂ شہود پر موجود ہیں
مگر اِن سب کو بُھلاکر مریخ کو تسخیر کرنے کی ٹھانی گئی ہے!
خلائی تحقیق کے شعبے میں بھارت کی عظیم الشان کامیابی (!) کا دفاع کرتے
ہوئے فزیکل ریسرچ لیباریٹری کے چیئرمین آر راؤ کہتے ہیں کہ مریخ مشن پر 500
کروڑ روپے خرچ ہوگئے تو کیا ہوا؟ دیوالی پر لوگ پانچ ہزار کروڑ روپے کے
پٹاخے بھی تو پھوڑ ڈالتے ہیں! راؤ صاحب کو یہ خیال نہیں آیا کہ لوگ اپنے
پیسوں سے پٹاخے چلاتے ہیں، حکومت کی طرح عوام کی کمائی پر ڈاکا ڈال کر
خلائی مہم جُوئی کی پُھلجھڑیاں نہیں چھوڑتے!
دِلّی سرکار کو مریخ پر کس چیز کی تلاش ہے؟ کیا وہ اپنے 23 کروڑ باشندوں کے
لیے پینے کے صاف پانی کے ذخائر دریافت کرنا چاہتی ہے؟ مبصرین تو یہ بھی
کہتے ہیں کہ انتخابات سَر پر ہیں تو کانگریس نے ’’منگل یان‘‘ روانہ کرکے
سیاسی فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی ہے۔ ’’ناسا‘‘ بتا چکا ہے تو مریخ پر زندگی
کے آثار نہیں تو پھر بھارت وہاں زندگی کے امکانات کیوں تلاش کرنا چاہتا ہے؟
کہیں ایسا تو نہیں چین کی آبادی دیکھ کر دِلّی سرکار کو کمتری کا احساس
ہوتا ہو اور وہ مریخ کی مخلوق کو اپنی دھرتی پر بساکر چین کی برابری کرنا
چاہتی ہے!
ہمیں ’’منگل یان‘‘ کے کامیاب سفر کی دُعا کرنی چاہیے کیونکہ مریخ مشن کا
کوئی بھی ناخوشگوار نتیجہ سامنے آنے پر بھارت کی پروپیگنڈا مشینری آئی ایس
آئی کی مزید ’’مشہوری‘‘ کے اہتمام میں دیر نہیں لگائے گی! |