اردو زبان میں سفر نامے اور بچوں
کے ادب کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا کرنے والے نابغہ ء
روزگار ادیب قمر علی عباسی نے عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔اردو
زبان کے تخلیقی ادب کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی اجل کے ہاتھوں زمیں بوس
ہو گئی ۔13۔جون1938کو امروہہ (یو ۔پی ۔بھارت )میں طلوع ہونے والا علم و ادب
،فنون لطیفہ ،سیاحت ،علم بشریات ،ابلاغیات اور تنقید و تحقیق کا یہ آفتاب
جہاں تاب اکناف عالم میں اپنی ضیاپاشیوں سے سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے
،اذہان کی تطہیر و تنویر کرنے اور علمی دنیا کو بقعہء نور کرنے کے بعد
31۔مئی 2013کی شام نیو یارک (امریکہ )میں عدم کی بے کراں وادیوں میں غروب
ہو گیا۔ نیویارک کے شہر خموشاں کی زمین نے اردو زبان وادب کے اس آسمان کو
ہمیش کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا۔ پوری دنیا میں ان کی مسحور کن شخصیت
اور دلکش اسلوب کے لاکھوں مداح اس یگانہء روزگار تخلیق کار کی دائمی مفارقت
پر سکتے کے عالم میں ہیں ۔ان کی وفات پر ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل سوگوار
ہے۔وفا کے سب ہنگامے عنقا ہو گئے ہیں ،طلوع صبح بہاراں اور فروغ گلشن و صوت
ہزار کے موسم کی تمنا اب خیال و خواب محسوس ہوتی ہے ۔قلم کی حرمت اور لفظ
کے تقدس کو سب سے مقدم سمجھنے والے اس زیرک ،فعال ،جری اور مستعد تخلیق کار
کی رحلت ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے جس سے پاکستانی ادبیات کے فروغ کی مساعی
کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔اردو دنیا عالمی ادبیات کے ایک ایسے ماہر
سے محروم ہو گئی ہے جس کا منفرد اسلوب اپنی مثا ل آپ تھا ۔پر زمانہ تو
پرواز نور سے بھی تیز ہے لیکن زمانہ لاکھ ترقی کرے اب دنیا میں ایسے عظیم
اور یادگار زمانہ تخلیق کار کبھی پیدا نہیں ہو سکتے ۔قمر علی عباسی تو
اقلیم عدم کی جانب اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گئے لیکن دنیا بھر میں ان کے
کروڑوں پر ستار حسرت و یاس ،رنج و غم اور محرومی کے سرابوں میں گریہ کناں
ہیں ۔قمر علی عباسی پاکستان کی تہذیبی و ثقافتی اقدار و روایات کے امین تھے
۔وہ زندگی کی اقدار عالیہ ،انسانیت کے وقار اور سر بلندی اور حریت فکر کے
علم بردار تھے ۔حریت ضمیر سے جینے کے لیے اسوہء شبیر ؓ کو ہمیشہ پیش نظر
رکھنے والے اس لافانی ادیب کا دوام لوح جہاں پر ثبت رہے گا اور تاریخ ہر
دور میں اس رجحان ساز سفر نامہ نگار ، صاحب اسلوب ناول نگار ،با کمال کالم
نگار ،عظیم براڈ کاسٹر اور بچوں کے لیے اصلاحی ،افادی اور تربیتی نوعیت کا
ادب تخلیق کرنے والے زیرک تخلیق کار کے نام کی تعظیم کرے گی ۔
قمر علی عباسی کے آبا واجداد کا تعلق بغداد کے عباسی خاندان سے تھا۔ان کے
دودھیال اور ننھیال کے تمام افراد علم و ادب اور فنون لطیفہ سے گہری دلچسپی
رکھتے تھے اور تخلیق ادب کے اعلا ذوق سے متتمع تھے ۔اس لیے یہ کہنا غلط نہ
ہو گا کہ ادب اور شاعری قمرعلی عباسی کی گھٹی میں پڑی تھی۔ان کے والد یعقوب
علی عباسی اور والدہ کنیز فاطمہ نے اپنے بچوں ذیشان عباسی ،ثمر علی عباسی
،ظفر علی عباسی ،منورعلی عباسی ،درخشاں عباسی اورقمر علی عباسی کی تعلیم و
تربیت پر بھر پور توجہ دی ۔گھر کے علمی و ادبی ماحول اور تعلیم یافتہ
والدین کے فیضان نظر نے ان شاہیں بچوں کی خداداد صلاحیتوں کو اس طرح صیقل
کیا کہ ان بچوں نے اپنی ذہانت اور اعلا تعلیمی کار کردگی سے اپنے اساتذہ کو
بہت متاثر کیا ۔جب آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی تو قمر علی عباسی اپنے
خاندان کے ہم راہ دسمبر 1947میں مری پہنچے جہاں ان کے والد سروے آفیسر کی
حیثیت سے خدمات پر مامور کیا گیا۔مری میں اپنی پرائمری تعلیم مکمل کرنے کے
بعد وہ حیدرآباد (سندھ ) پہنچے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ
کیا۔حیدر آباد کی علمی و ادبی فضا نے نو جوان قمر علی عباسی کے فکر و نظر
کو مہمیز کیا۔اس عہد کے متعدد نامور ادیب حیدر آباد میں پرورش لوح و قلم
میں مصروف تھے ،ان میں قابل اجمیری،حمایت علی شاعر ،محسن بھو پالی ،صبا
اکبر آبادی ،رعنا اکبرآبادی ،برگ یو سفی ،ارتضیٰ عزمی ،سوز شاہ جہان پوری
،پیکر واسطی ،غنی دہلوی اور اختر سکندروی کے نام قابل ذکر ہیں۔قمر علی
عباسی نے ان مشاہیر ادب کے افکار سے اکتساب فیض کیا ۔ اس زمانے میں روزنامہ
جنگ کراچی میں بچوں کے لیے ایک صفحہ با قاعدگی سے شائع ہوتا تھا۔قمر علی
عباسی بچوں کے اس ادبی صفحے کا مطالعہ بہت دلچسپی سے کرتے تھے۔بچوں کے لیے
کہانیاں لکھنے کی تحریک اسی اخبار کے بچوں کے صفحے کے مطالعہ سے ہوئی ۔ اس
زمانے میں نامورادیب شفیع عقیل (پیدائش لاہور :1930وفات :کراچی 6 ۔ستمبر
2013)روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے بچوں کے اس ادبی صفحے کے نگران تھے
۔شفیع عقیل نے ’’بزم نو آموز مصنفین ‘‘کی بنیاد رکھی تو قمر علی عباسی بھی
اس میں شامل ہو گئے اور بچوں کے ادب کی تخلیق میں فعال کردار ادا کیا۔قمر
علی عباسی نے ابتدائی عمر میں شعرگوئی میں بھی دلچسپی لی ان کا تخلص انجم
تھا ۔ان کا قلمی نام قمر امروہوی تھا۔زمانہ طالب علمی میں وہ پاکستان کے طو
ل و عرض میں بین الکلیاتی علمی و ادبی تقریبات میں شرکت کے لیے گئے ۔
گورنمنٹ کالج جھنگ (قائم شدہ 1926)میں پروفیسر محمد حیات خان سیال کی دعوت
پر قمر علی عباسی نے ان تقریبات میں شرکت کی اور تقریری مقابلے میں اول
انعام حاصل کیا۔ سید جعفر طاہر ،رام ریاض ،مجید امجد ،امیراختر بھٹی ، محمد
شیر افضل جعفری ،کبیر انور جعفری ،سید مظفر علی ظفر ،غلام علی چین ،حاجی
محمد یوسف اور صاحب زادہ رفعت سلطان کے ساتھ قمر علی عباسی کے روابط اسی
زمانے کا ثمر ہیں ۔ان کی ابتدائی عمر کی شاعری کا ایک نمونہ پیش ہے :
کیا قیامت ہے قمر انجم چاند پورا ہے روشنی کم ہے
گل کو چوما چاند کو دیوانہ وار آواز دی اک پردہ ان کے اپنے درمیاں رہنے دیا
جلد ہی انھوں نے اپنے اشہب قلم کی جو لانیاں دکھانے کے لیے نثر کا انتخاب
کیا اور اردو نثر میں اظہار اور ابلاغ میں وہ فقید المثال کا مرانیاں حاصل
کیں کہ پوری دنیا میں ان کے اسلوب کو سرا ہا گیا ۔قمر علی عباسی نے اعلا
تعلیم کے مدارج بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ مکمل کیے ۔انھوں نے جامعہ سندھ سے
بی ۔اے آنرز ،ایم ۔اے معاشیات اورایم ۔اے ارد وکی ڈگریاں حاصل کیں ۔ ابتدا
میں متروکہ وقف املاک کے بورڈ میں ملازمت کی اس کے بعد کچھ عرصہ نیشنل کالج
کراچی میں معاشیات کی تدریس پر مامور رہے۔وفاقی پبلک سروس کمیشن سے مقابلے
کا امتحان (CSS)امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان میں
ملازمت کا انتخاب کیا ۔ان کا شمار عالمی شہرت کے حامل ماہرین ابلاغیات میں
ہوتا تھا ۔انھوں نے نیشنل براڈ کاسٹنگ سکول لندن سے نشریات کی اعلا تربیت
حاصل کی اس کے علاوہ ملائیشیا سے اے آئی بی ڈی کور س کیا۔ تحقیق اورتجسس سے
انھیں گہری دلچسپی تھی انھوں نے ا نوسٹی گیٹر (Investigator) کی تربیت بھی
حاصل کی ۔ ان کی شادی نیلو فر عباسی سے ہوئی جنھوں نے مائیکرو بیالوجی میں
ایم۔ایس سی کیا تھا۔نیلو فر عباسی نے پاکستان ٹیلی ویژن کی یادگار سیریل
’’شہزوری ‘‘میں ناقابل فراموش کردار ادا کرکے بے پناہ مقبولیت اور پذیرائی
حاصل کی۔ ڈرامے میں شہزوری کا کردار اد کر کے نیلو فر عباسی نے ثابت کردیا
کہ ان کی خطر پسند طبیعت طوفاں حوادث سے الجھنا جانتی ہے ۔شہزوری ظالم و
سفاک ،موذی و مکار عناصر و چیلنج کرتے ہوئے بر ملا کہتی ہے ’’میں بہت بری
آدمی ہوں‘‘ ۔اس کردار نے واضح کر دیا کہ جب کوئی معاشرہ اپنی خامیوں کی
اصلاح پر آمادہ نہ ہو تو یہ تاثر ملتا ہے بے حسی کا عفریت ہر سو منڈلا نے
لگتا ہے ۔نیلو فر عباسی نے خواتین کو ایک نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ بہتر
زندگی کی جد و جہد میں حصہ لینے کی راہ دکھائی ۔ ہمارے معاشرے میں خواتین
کے ساتھ جو ناروا امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اس کے مسموم اثرات عمرانیات کا
اہم موضوع ہیں۔ یہ صور ت حال کسی بھی قوم کے لیے انتہائی برا شگون
ہے۔نیلوفر عباسی اور قمر علی عباسی نے خواتین کی عزت و تکریم کو ہمیشہ اہم
قرار دیا ان کی تحریروں میں خواتین کو اپنی حقیقت سے آشنا ہونے پر مائل کیا
گیاہے۔بہ قول پروین فنا سید :
جو فصل گل میں بھی سہمی ہوئی تھیں
وہ کلیاں سر اٹھانا چاہتی ہیں
ریڈیو پاکستان پر نیلو فر عباسی کی آواز قلب اورروح کی گہرائیوں میں اتر کر
پتھروں سے بھی ا پنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی تھی ۔پاکستان ٹیلی ویژن پر جب
انھوں نے اے ۔حمید کی لکھی ہوئی کہانی ’’جہاں برف گرتی ہے ‘‘میں مر کزی
کردا ادا کیا تو مقبولیت اور شہرت میں انھوں نے رفعت و وسعت افلاک کو چھو
لیا۔ کو ہساروں میں رہنے والی ایک سادہ لوح دوشیزہ کا کردار نیلو فر عباسی
نے مہارت سے فطری انداز میں ادا کیا وہ یادگار بن گیا ۔ڈرامے کے فنی تقاضوں
کے مطابق کردار کو اپنی شخصیت پر طاری کر لینے کی جو استعداد نیلو فر عباسی
کو قدرت کامل کی طرف سے ودیعت کی گئی ہے اس میں کوئی ان کا شریک و سہیم
نہیں ۔ ادب اور فنون لطیفہ کے بعض نقاد یہ کہتے ہیں کہ عوامی مقبولیت اور
شہرت میں نیلو فر عباسی بہت آگے تھیں ۔ریڈیو پاکستان اور پاکستاں ٹیلی ویژن
میں نیلو فر عباسی نے جس محنت ،لگن اور فرض شناسی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں
نبھائیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔نیلو فر عباسی کی کتاب ’کہی ان کہی ‘‘ان کی
زندگی کے بارے میں دلچسپ حقائق کو سامنے لاتی ہے ۔ پاکستان میں تانیثیت کے
حوالے سے ان کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے ۔قمر علی عباسی اور نیلوفر
عباسی کی شادی کا ذکر کرتے ہوئے ممتا ز ادیب اور نامورافسانہ نگار سلطان
جمیل نسیم نے لکھا ہے :
’’جب کبھی بات نکلتی ہے تو قمر عباسی اپنی شادی کے تعلق سے یہ بات بہت ہنس
ہنس کر بتاتاہے کہ ہر اخبار نے شادی کی خبر کے لیے سرخی جمائی ’’نیلو فر
عباسی کی شادی قمر علی عباسی کے ساتھ ہو گئی ۔‘‘صرف ایک اخبار نے یوں لکھا
’’ قمر علی عباسی نے نیلو فر عباسی سے شادی کر لی ۔‘‘ (1)یہ شادی ان دونوں
شخصیات کی زندگی کے لیے نیک فال ثابت ہوئی اور یہ ایک مثالی جوڑا ثابت ہوا
۔نیلو فر عباسی نے اپنے شریک حیات کے بارے میں لکھا ہے :
’’یہ میرا اعزاز ہے کہ مجھے قمر علی عباسی کا ساتھ ملا،جنھوں نے ہمیشہ میری
چھوٹی سے چھوٹی خوشی اور خواہش کو افضل جانا ۔اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میں
زندگی کا آخری سانس بھی اس دنیا میں لوں جہاں قمر علی عباسی کا توانائی ے
بھر پور اور مہر بان وجود ہو:
کچھ اور مانگنا میرے مشرب میں کفر ہے
لا اپنا ہاتھ دے میرے دست سوال میں ‘‘ (2)
قمر علی عباسی اپنی اہلیہ اور اولاد سے بہت محبت کرتے تھے ۔نیلو فر عباسی
کے نام اپنی کتب کا انتساب کرتے ہوئے قمر علی عباسی نے لکھا ہے :
میرے ہر نفس کی راحت
میرے ہر قدم کی ساتھی
اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر انھوں نے بہت توجہ دی ۔ان کے بیٹے وجاہت
علی عباسی بھی ذہین ادیب ہیں اور پاکستان کے اہم اردو اخبار روزنامہ
’’ایکسپریس ‘‘ میں ’’ سلسلہ تکلم کا ‘‘ کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں ۔وجاہت
علی عباسی نے اپنے عظیم والد قمر علی عباسی کی وفات ر اپنے جذبات حزیں کا
اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’چھے مہینے پہلے میری زندگی کا سب سے اہم شخص مجھے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر
چلا گیامیرے والد قمر علی عباسی وہ انسان ،جن کی انگلی پکڑ کر میں نے چلنا
سیکھا،زندگی کیسے گزارتے ہیں ،آگے کیسے بڑھتے ہیں ،کیا صحیح کیا غلط ہے کی
سیکھ مجھ کو دے کر اپنی زندگی کے اس سفر پر نکل گئے جہاں سے کوئی واپس نہیں
آتا۔‘‘(3)
ابلاغیات کے شعبے میں وہ زیڈ۔اے بخاری اور احمد شاہ بخاری پطرس کی خدمات کے
معترف تھے۔وہ ریڈیو پاکستان خضدار اور کراچی میں سٹیشن ڈائریکٹر کے منصب پر
فائز رہے ۔پاکستان کا لنگ اور آہنگ شعبہ مطبوعات ریڈیو پا کستان میں ا ہم
ذمہ داریا ں انجام دیں ۔ریڈیو پاکستان کا ادبی مجلہ آہنگ ان کی نگرانی میں
معیار او روقار کی رفعت کا مظہر تھا۔ انھوں نے مسلسل بتیس (32) سال تک
ریڈیو پاکستان میں اہم خدمات انجام دیں ۔ ریڈیو کی ملازمت سے سبکدوش ہونے
کے بعد انھوں نے انفو لائن جنگ کراچی کے مدیر اعلا کی حیثیت سے کام کیا۔
بعض نا مساعد حالات کے باعث قمر علی عباسی نے 1991میں امریکن شہریت حاصل کر
لی اور 1999 میں وہ امریکہ منتقل ہو گئے ۔ وہ امریکہ پہنچے تو ہفت روزہ
عوام نیو یارک کے چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔ قمر علی عباسی
نے اپنی وقیع تصانیف سے اردو ادب کی ثروت میں جو گراں قدر اضافہ کیا وہ
تاریخ ادب کے اوراق میں آ ب زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔ اردو زبان میں سفر
نامے اور بچوں کے ادب کی تخلیق کے سلسلے قمر علی عباسی نے جو گراں قدر
خدمات انجام دیں ان کے بار احسان سے دنیا بھر میں اردو داں طبقے کی گردن ان
کے سامنے ہمیشہ خم رہے گی ۔انھوں نے تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگ
سنگ میں اتر جانے کی سعی کی اور ایک عالم کو اپنے اسلوب کا گرویدہ بنا لیا۔
نامور شاعر بیدل وطنی نے قمر علی عباسی کے اسلوب کو خراج تحسین پیش کرتے
ہوئے لکھا ہے :
کیا خوب اردو کو انداز دیا
رنگ سفر ناموں میں نیا بھر دیا
سلامت رہے تواے قمر عباسی
ولولہ بچوں کو جینے کا دیا
بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی کتب بہت مقبول ہوئیں ۔ان کتب کی تفصیل درج ذیل
ہے :
رحم دل ڈاکو ،بہادر شہزادہ ،شیشے کی آنکھ ،ایک تھا مرغا ،بہادر علی (اس پر
یونیسکو کی طرف سے انعام ملا اور دنیا کی کئی زبانوں میں اس کے تراجم بہت
مقبول ہوئے ) ،شرارتی خرگوش ،سمندر کا بیٹا ،کائیں کائیں ،میاؤں میاؤں
،ہمارا پاکستان ،عزم عالی شان ،قوت عوام ،منزل مراد ،چوہدری رحمت علی
،علامہ اقبال ،قائد اعظم محمد علی جناح
بچوں کے لیے لکھتے وقت قمر علی عباسی نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ بچوں کی مقیاس
ذہانت کا خیال رکھا جائے ۔اس لیے انھوں نے سادہ ،سلیس اورعام فہم انداز میں
بچوں کا دب تخلیق کیا ۔مثا ل کے طور پر ’’سمندر کا بیٹا ‘‘میں وہ بچوں کے
لیے لکھتے ہیں:
ہم نے ایک سنہری مچھلی پکڑی ہے
سمندر ہمارے گھر دعوت پر آیا ہے
ہم اسے ناریل کا دودھ پلائیں گے
سمندر ہماری ماں ہے
سمندر ہمارا باپ ہے
ہم سمندر کے بیٹے ہیں
قمر علی عباسی کی خود نوشت سوانح عمری پر مشتمل دو کتب شائع ہو چکی ہیں ۔
ان کی ملازمت کے مہ و سال کی یاداشتوں پر مشتمل ’’32 ناٹ آؤٹ‘‘ بہت دلچسپ
کتاب ہے ’’،اک عمر کا قصہ‘‘ میں انھوں نے اپنی زندگی کے سفر کی جو لفظی
مرقع نگاری کی ہے وہ ان کے اچھوتے خیالات کی مظہر ہے ۔یہ دونوں کتب قاری کو
اس رجحان ساز ادیب کی زندگی کے نشیب و فراز کی مکمل داستان سے روشناس کراتی
ہیں ۔’’دل دریا ‘‘ کے عنوان سے ان کے کالموں کا مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے
جسے قارئین ادب کی بہت پذیرائی نصیب ہوئی ۔ قمر علی عباسی نے 1986 میں
’’لندن لندن ‘‘ جیسا دلچسپ سفر نامہ لکھ کر قارئین ادب کے دلوں کو مسخر کر
لیا ۔ان کے اسلوب کی شگفتگی اور بے تکلفی قاری کو ایک جہان تازہ میں پہنچا
دیتی ہے :
’’لندن جانے سے نو سال پہلے شادی اورایک سال پہلے حج کی سعادت حاصل کی ۔جب
لندن پہنچے تو بے تکلف دوستوں نے پو چھا ۔۔۔ اب کیا کرنے آئے ہو ؟‘‘
ممتاز ادیب ارتضا عزمی نے ’’لندن لندن ‘‘کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنے شگفتہ
انداز میں لکھا :
’’ہم کبھی لند ن گئے ہی نہیں اس لیے کچھ جانتے ہی نہیں ۔قمر علی عباسی صاحب
کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ وہ سچے انسان ہیں اس لیے جھوٹ لکھا ہی
نہیں ہو گا ۔‘‘
گزشتہ نصف صدی کے دوران اردو کے ممتاز تخلیق کاروں نے شعر و ادب کو متعدد
نئی جہتوں اور اسالیب سے آ شنا کیا ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے عروج کے
موجودہ زمانے میں دنیا نے ایک گلوبل ویلج (Global Village)کی صورت اختیار
کر لی ہے ۔اردو سفر نامہ نے جو ارتقائی سفر طے کیا ہے اس پر ایک نگاہ ڈالنے
سے اس صنف کی مقبولیت کا احساس ہوتا ہے کہ اس میں کیسے کیسے جو ہر قابل
معجزہء فن سے فکر و نظر کو مہمیز کر تے رہے ہیں۔ تاریخ ادب کے حقائق کا
مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اٹھارہویں صدی عیسوی کے آخری عشرے تک بر
عظیم کے بہت کم لوگ بیرونی ممالک کے سفر پر روانہ ہوئے ۔اس سے قبل اگر کوئی
مقامی با شندہ بیرونی ممالک کے سفر پر روانہ ہوا تو اس نے اپنے سفر کی
یادداشتوں کو فارسی زبان میں تحریر کیا ۔ ان یادداشتوں کو بر عظیم میں سفر
نامہ نگاری کے ابتدائی رجحانات سے تعبیرکیا جا سکتا ہے ۔اردو کے پہلے سفر
نامہ نگار یوسف خان کمبل پوش کا آبائی وطن حیدر آباد دکن تھا ۔بچپن ہی سے
وہ ایک سیلانی مزاج کا مالک تھا ۔وہ بچپن ہی سے سیر وسیاحت کادلدادہ تھا اس
نے ملک کے اندر پہلا سفر 1828میں کیا ۔اس کے بعد اس نے بیرون ملک دنیا
دیکھنے کا فیصلہ کیا اور پھر اس پر عمل بھی کیا۔انیسویں صدی عیسوی کے اوائل
میں ’’عجائبات فرنگ ‘‘کے نام سے جو سفر نامہ لکھا اسے اردو کا پہلا سفر
نامہ سمجھا جاتا ہے ۔30مارچ 1870کو بحری جہاز کے ذریعے اپنے بیرون ملک سفر
پر روانگی کے وقت یوسف خان کمبل پوش اردو ادب میں صنف سفر نامہ کے ارتقا کی
جانب ایک اہم پیش رفت کا آغاز کررہا تھا۔ اس کا یہ سفر اردو سفر نامے کے
ارتقا میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ا س نے پیرس ،لزبن ،جبرالٹر ،مالٹا
،مصر اور سیلون کا سفر کیا۔اس سیاحت کے اعجاز سے اس کے خیالات میں جو وسعت
پیدا ہوئی اس نے اس تخلیق کار کے فکر و نظر کیا کایا پلٹ دی ۔اپنے اس سفر
سے واپسی کے بعد جب وہ بمبئی پہنچا تواس کی دلی خواہش تھی کہ وہ بر عظیم کے
محکوم اور مظلوم با شندوں کو آزاد دنیا کے بارے میں اپنے تجربات
،مشاہدات،تاثرات اورمطالعات سے آ گاہ کرے ،چنانچہ اس نے اپنے سفر کی
یادداشتوں کو شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔یوسف خان کمبل پوش نے سب سے پہلے اپنے
سفر کی یادداشتوں کو فارسی زبان میں تحریر کیا لیکن فارسی زبان میں لکھے
گئے اس سفر نامے کی اشاعت کی نوبت نہ آ سکی ۔ اس زمانے میں ارد وزبان پڑھنے
اور لکھنے والوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا تھا ،اس لیے یوسف خان
کمبل پوش نے قارئین کے ذوق سلیم کا احساس کرتے ہوئے اپنے سفرکی تمام
یادداشتوں کو اردو زبان میں از سر نو تحریر کیا۔یوسف خان کمبل پوش کا لکھا
ہوا اردو کا یہ پہلاسفر نامہ پہلی بار ’’تار یخ یوسفی ‘‘ کے نام سے 1847میں
مکتبہ العلوم دہلی کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ قارئین ادب نے اس سفر نامے کی
بہت پذیرائی کی ۔قارئین ادب کے لیے اپنی نو عیت کے اعتبار سے یہ پہلی اور
انوکھی کتاب تھی جس میں مصنف نے اپنی لفظی مرقع نگاری اور اسلوب بیاں سے
سماں باندھ دیا تھا۔ اردو کے اس پہلے سفر نامہ نگار کا یہی سفر نامہ دوسری
بار مکتبہ نول کشور کے زیر اہتمام ’’عجائبات فرنگ ‘‘ کے نام سے 1873میں
شائع ہوا ۔ اسے بھی توقع کے عین مطابق قارئین نے بہ نظر تحسین دیکھا۔ اردو
ادب میں صنف سفر نامہ کو بہت مقبولیت نصیب ہوئی ۔اردو میں پہلی خاتون سفر
نامہ نگار عطیہ فیضی ہیں ۔انھوں نے 1906میں حصول علم کے سلسلے میں بر طانیہ
کا سفر کیا ۔ ایک سال بعد جب وہ اپنی تعلیم مکمل کر نے کے بعد واپس آئیں تو
اپنی یادداشتوں کو ’’روزنامچہ ‘‘کے عنوان سے مرتب کیا جو مجلہ ’’تہذیب
النسواں ‘‘لاہور سے اگلے سال شائع ہوا۔اس کے بعدعطیہ فیضی کا یہ سفر نامہ
1921میں ’’زمانہء تحصیل ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ۔آج سفر نامہ اردو
ادب کی ایک مقبول صنف ہے لیکن اس صنف ادب کے بنیاد گزاروں کے نام یاد رکھنا
بھی ضروری ہے ۔ارد وکے ممتاز شاعر رام ریاض (یاض احمد شگفتہ )نے کہا تھا :
کس نے پہلا پتھر کا ٹا پتھر کی بنیاد رکھی
عظمت کے سارے افسانے میناروں کے ساتھ رہے
قیام پاکستان کے بعد یہاں اردو ادب کے فروغ کی مساعی میں اضافہ ہو گیا ہے
۔با صلاحیت تخلیق کاروں نے تخلیقی ادب کو متعدد نئی جہات سے آشنا کیا ہے
۔یہ امر خوش آئند ہے کہ اس وقت اردو کے زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار
اسلوبیاتی تنوع کو اہمیت دے رہے ہیں۔ اردو نثر میں سوانح نگاری ،خود نوشت
،سفر نامہ اور خاکہ نویسی ،جیسی اصناف کی مقبولیت سے یہ واضح ہو تا ہے کہ
تخلیقی سطح پر زندگی کی حرکت و حرارت کو ملحو ظ رکھا جا رہا ہے ۔ زندگی کی
اقدار عالیہ کے تحفظ کی خاطر کی جانے والی ان کاوشوں کے قومی کلچر پر اس کے
دور رس اثرات مرتب ہو ں گے ۔جہان تازہ کی جستجو میں تخلیق کار افکار تازہ
پر انحصار کر رہے ہیں۔اہل نظر نے تازہ بستیاں آباد کرنے کاعزم کر رکھا ہے
جس کا پر تو اظہار و ابلاغ ،تہذیب و معاشرت ،رہن سہن اور ادب و فنون لطیفہ
میں مسحو کر دیتا ہے ۔اردو میں جن ممتا زادیبوں نے سفر نامے لکھ کر اردو
ادب کی ثروت میں اضافہ کیا ہے ان میں سے کچھ اہم نام درج ذیل ہیں :
آصف محمود ،اعجاز مہاروی ،اے ۔بی اشرف ڈاکٹر ،احمد شجاع پاشا ، امجد ثاقب
،ابن انشا ،امجد اسلام امجد ،بشریٰ رحمٰن ، تقی عثمانی ،جمیل الدین عالی ،
حکیم محمد سعید ،حسن رضوی ،حسین احمد پراچہ ڈاکٹر ،حنا یعقوب ،خواجہ ممتاز
احمد تاج ،ڈاکٹر عباس ،ذوالفقار احمد تابش ،رفیق ڈوگر ،رضا علی عابدی ،ریاض
الرحمٰن ساگر ،سلیم اختر ڈاکٹر ،سعیدآسی ،سعید شیخ ،شاہد حسین بخاری ڈاکٹر
،ضمیر جعفری سید ،ظہیر احمد بابر ، عطیہ فیضی ،عطا الحق قاسمی ،عنایت اﷲ
فیضی ،عزیز علی شیخ ،علی سفیان آفاقی،عبدالرؤف ڈاکٹر ، عبدالرحمٰن خواجہ
ڈاکٹر ،عبدالحمید ،عبدالر حمٰن عبالہ ،غازی صلاح الدین ،فرخندہ لو دھی
،فرید احمد ،فوزیہ صدیقی ،قمر علی عباسی ،کوثر نیازی ،کرنل محمد خان ،کشور
ناہید ،کوکب خواجہ ،محمد حمزہ فاروقی ،محمد اعجاز ،مسکین علی حجازی ،محمد
اختر ممونکا ،محمد توفیق ،محمد حسن صدیقی ،محمد لطف اﷲ خان،مستنصر حسین
تارڑ ،مسعود قریشی ،مسرت پراچہ ،مہر عبدالحق ڈاکٹر ،ناصر ناکاگاوا ،نصیر
احمد ناصر ڈاکٹر اور نیلم احمد بشیر ۔
پاکستان میں قمر علی عباسی وہ ادیب ہیں جنھوں نے سب سے زیادہ سفر نامے لکھے
۔ان کی سفر نامہ نگاری ے انھیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں اعلا
مقام عطا کیا۔وہ شفیق الرحمٰن ،کرنل محمد خان ،ابن انشا اور مجتبیٰ حسین کے
اسلوب کو پسند کرتے تھے ۔ قمر علی عباسی نے درج ذیل سفر نامے لکھے :
لندن لندن،دلی دور ہے ،چلا مسافر سنگا پور ،امریکہ مت جائیو ،برطانیہ چلیں
،واہ برطانیہ ،ایک بار چلو وینس ،نیل کے ساحل ،بغداد زندہ باد ،لر نا کا
آیا ،لا پیرس ،قرطبہ قرطبہ ،جاناں سوئٹزر لینڈ ،اور دیوار گرگئی ،ترکی میں
عباسی ،کینیڈا انتظار میں ،شو نار بنگلہ ،ماریشس میں دھنک ،میکسیکو کے میلے
،سنگاپور کی سیر ،عمان کے مہمان ،صحرا میں شام ،سات ستارے صحرا میں ،شام
تجھے سلام ،ہندوستان ہمارا ،لنکا ڈھائے ،ساحلوں کا سفر ،ناسو ہرا ہے ،ذکر
جل پری کا ،ہوا ہوائی
قمر علی عباسی کی علمی ،ادبی اور قومی خدمات کے اعتراف میں انھیں درج ذیل
اعزازات سے نواز ا گیا :
اے پی این ایس بہترین کالم نگار ایوارڈ (1992)،بے نظیر ٹیلنٹ ایوارڈ
(1995)،بہترین کالم نگار ایوارڈ (1996)،صوبائی اسمبلی (سندھ )ایوارڈ برائے
ادب (1997)،پاکستان رائٹرز گلڈ ایوارڈ برائے سفر نامہ ’’سات ستارے صحرا میں
‘‘(2007)پاکستان رائٹرز گلڈ کی جانب سے قمر علی عباسی کو بچوں کے لیے
بہترین ادب تخلیق کرنے پر چار بار (1973,1976,1982,1987)انعامات سے نواز ا
گیا ۔گولڈ میڈل ادبی ایوارڈ ڈنمارک (2004)،طبا طبائی ایوارڈ بہترین ادب
،لاس اینجلس (2007)،کراچی یونیورسٹی المنائی ایوارڈ ،کینیڈا (2011)،لٹریری
سوسائٹی مکتا گاشا ایوارڈ ،بنگلہ دیش (2002)،تمغہ ء امتیاز (حکومت پاکستان
) (2000)
قمر علی عباسی نے وطن اور اہل وطن سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کو
اپنا شعار بنایا ۔وطن کو وہ بلند و بالا عمارات ،سنگ مر مر کے ایوانوں اور
چمکتے دمکتے محلات پر محمول نہیں کرتے تھے بل کہ مادر وطن تو ان کے جسم
اوران کی روح سے عبارت تھی ۔ارض وطن سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے اس ادیب کو
بھی اہل وطن کی جانب سے بے پناہ محبتیں اور پذیرائیاں ملیں ۔ پاکستان میں
حیدر آباد (سندھ ) کی وہ سڑک جس کے قریب قمر علی عباسی کی رہائش گا ہ تھی
اس کا نام ’’قمر علی عباسی روڈ ‘‘ رکھ دیا گیا ہے ۔زندہ قومیں اپنے رفتگاں
کی عظمت کے نقوش تاابد تازہ رکھنے کے لیے اسی طرح سپاس گزار رہتی ہیں۔جھنگ
شہر کے وسط میں واقع ایک خوب صور ت باغ جہاں بور لدے چھتنار ،پھولوں اور
پھلوں والے اشجار کی فراوانی ہے اسے ’’مجید امجد پارک ‘‘کے نام سے یاد کیا
جاتا ہے ۔
5۔جولائی 1977کو جب ضیا الحق نے پاکستان میں ما رشل لا نافذ کر دیا تو پوری
قوم کو کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑا ۔آئین اور بنیادی حقوق معطل کر دئیے
گئے ۔اس کے ساتھ ہی رتیں بے ثمر ،کلیاں شرر ،آہیں بے اثر ،آبادیا ں پر خطر
اور زندگیاں مختصر ہو کر رہ گئیں۔اس عہد ستم میں کئی ادیب بھی حرف صداقت
لکھنے کی پاداش میں روزگار سے محروم ہو گئے ۔ ان میں جھنگ کے ادیب رام ریاض
(ریاض احمد شگفتہ )،عباس ہادی چغتائی ،فضل الٰہی خان اوراحمدحیات بالی بھی
شامل تھے ۔یہ حساس تخلیق کار سمے کے سم کے ثمر سے نڈھال ہو کر ایک ایک کر
کے زینہ ء ہستی سے اتر گئے۔قمرعلی عباسی نے ان سب ادیبوں سے معتبر ربط
برقراررکھا لیکن جھنگ کے ان ادیبوں کے نہ ہونے کی ہونی ہو کے رہی اور چشم
کے مر جھا جانے کا سانحہ روکا نہ جا سکا ۔رام ریاض پر فالج کا شدید حملہ
ہوا اور وہ چارپائی پر یو ں گرا کہ پھر کبھی نہ اٹھ سکا اس کا جنازہ ہی
اٹھا ۔رام ریاض نے کہا تھا
ہم تو چپ ہیں کہ ہمیں مارنے والے تم ہو
خیر مانگو کہ زمانے کے حوالے تم ہو
اسی عہد میں قمر علی عباسی کو بھی متعد مسائل کا سامناکرنا پڑا ۔انتہائی
تکلیف دہ حالات میں بھی وہ ثابت قدم رہے اور ہرقسم کی دشواریوں کا خندہ
پیشانی سے مقابلہ کیا ۔ صبر آزما حالات ، ہوائے جور و ستم اور ہجوم غم میں
بھی ا نھوں نے حوصلے اور امید کی شمع فروزاں رکھی ۔ قمر علی عباسی پر جو
اعصاب شکن محکمانہ افتاد پڑی اس کے بارے میں نیلو فر عباسی نے لکھا ہے :
’’مشکل سے مشکل وقت میں بھی قمر علی عباسی گھبراتے نہیں ۔جنرل ضیا الحق کے
دور کا آغاز تھا شاہ سے زیادہ ’’شاہ کے مصاحب ‘‘ایکٹو تھے ۔ٹیلی ویژن کے
پروگرام سات رنگ میں لکھے ایک خاکے پر ان کو سسپنڈ کر دیا کیونکہ معین اختر
نے اس خاکے میں جو گیٹ اپ کیا تھا وہ مصاحب کے خیال میں جنرل ضیاالحق سے
ملتا جلتا تھا۔اگر ایسا تھا تو اس میں رائٹر کا کیا قصور ؟یہ تو پروڈیوسر
اور میک اپ آرٹسٹ اور آرٹسٹ کا معاملہ تھا بہر حال
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
قمر علی عباسی کو نہ صرف suspend کیا گیا بل کہ Demote بھی کیا حالانکہ وہ
پبلک سروس کمیشن سے آئے تھے اور اس طرح کی تنزلی ڈیپارٹمنٹ نہیں کر سکتا
لیکن ہر قاعدے قانون میں ترمیم ہو جاتی ہے ۔کیا مشکل ہے کچھ لائنیں کچھ
clause ہی تو اِدھر ُادھر کرنے ہوتے ہیں اور اس ’’ اِدھر ُادھر‘‘ میں قمر
علی عباسی کی کئی سال کی seniority اِدھر ُادھر ہو گئی ۔ گورنمنٹ یا نیم
سرکاری اداروں میں ترقیاں ویسے بھی دیر سے ہوتی ہیں اور کئی طرح کے طریقہ
کار کی مرہون منت ہوتی ہے ایسے میں یہ ہو جانا کسی کو بھی ذہنی اور جذباتی
طور پر توڑ دینے کے لیے کافی ہے ۔‘‘(4)
اس نوعیت کی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور بے رحمانہ مشق ستم کو دیکھ کر بھی
وہ دل برداشتہ نہ ہوتے اور اس بات کا یقین رکھتے کہ جب انھوں نے کوئی غلط
کام نہیں کیا تو انھیں کسی قسم کے خوف اور اندیشے میں مبتلا ہونے کی کیا
ضرورت ہے ۔در کسریٰ پر صدا کرنا ان کے ادبی مسلک کے خلا ف تھا ۔وہ اچھی طرح
جانتے تھے کہ ان کھنڈرات میں موجود حنوط شدہ لاشوں اور جامد و ساکت چٹانوں
کے سامنے زندہ انسانوں کے مسائل بیان کرنا بے سود ہے ۔کئی بار ایسا بھی ہوا
کہ جب انھوں نے تیر کھا کے کمین گاہ کی جانب دیکھا تو پرانے آشنا چہرے
دکھائی دئیے ۔قمر علی عباسی نے اس بات کی مطلق پروا نہ کی اور ہر بار صرف
دو الفاظ ’’میرا نصیب ‘‘ کہہ کر معاملہ ہی ختم کر دیا۔ان کی دوستیاں لا
محدود تھیں لیکن کسی کے ساتھ عناد کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ۔غیبت
کرنا جن لوگوں کا وتیرہ ہو ان سے قمر علی عباسی نے فاصلہ رکھا۔
اپنے سب ملاقاتیوں کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے پیش آنا قمر علی عباسی کا
شیوہ تھا ۔بے لوث محبت ،بے باک صداقت اور حریت فکر و عمل ہمیشہ ان کا مطمح
نظر رہا ۔اخوت کی جہاں گیری اور محبت کی فراوانی ان کا دستور العمل رہا ۔ان
کی دلی تمنا تھی کہ بے لوث محبت کے جذبات سے معموران کا پیغام دنیابھر میں
پہنچ سکے ۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو انھوں نے ہمیشہ مقدم
سمجھا۔سلطانیء جمہور کے وہ زبردست حامی تھے تعصب ،تنگ نظری ،حسد اور عصبیت
سے ان کا دامن کبھی آلودہ نہ ہوا ۔اپنی کامیابیوں پر اﷲ کریم کا شکر ادا
کرتے اور دوسروں کی کامیابی کے بارے میں جان کر صدق دل سے ان کو سراہتے اور
ان کو مبارک باد پیش کرتے۔اپنے شعبے میں نئے آنے والوں کے لیے دیدہ و دل
فرش راہ کر دیتے اور ان کی ہر مرحلے میں حوصلہ افزائی کرتے۔سید جعفر طاہر
ریڈیو پاکستان راول پنڈی سے ’’فوجی بھائیوں کا پروگرام ‘‘ پیش کرتے تھے
۔قمر علی عباسی نے ان کے اس پروگرام کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا اور ہر
مر حلے پر ان کی نہ صرف رہنمائی کی بل کہ ان کے کام کو خوب سر ا ہا ۔ان کی
سوچ ہمیشہ تعمیری نوعیت کی رہی اور کسی کی تخریب سے انھوں نے کبھی کو ئی
تعلق ہی نہ رکھا۔بعض اوقات عزیز و اقارب کے درمیان کوئی عقرب بھی گھس جاتا
لیکن مار کے تلے پروان چڑھنے والے یہ سب عقرب اور مار آستین جب سادیت پسندی
(Sadism) کی لت میں مبتلا ہو کر قمر علی عباسی پر وار کرتے تو قمر علی
عباسی کے ذاتی وقار اور عظمت کردار کی مار نہ سہہ سکتے اورسب کے نیش جھڑ
جاتے ۔ جب کچھ لوگ اشتعال اور غیظ و غضب کے عالم میں ہوتے قمر علی عباسی
خند ہ پیشانی سے ان کی باتیں سنتے اوردل میں کوئی ملال نہ رکھتے ۔ اخبارات
میں شائع ہونے والے قمرعلی عباسی کے کالم زندگی کی حقیقی معنویت کواجاگر
کرتے ہیں ۔ان کی تحریریں قارئین میں مثبت شعوروآگہی پروان چڑ ھانے کا اہم
ترین وسیلہ ثابت ہوتی تھیں ۔تقدیرجس طرح ہر مرحلہء زیست پر انسانی تدبیر کی
دھجیاں اڑا دیتی ہے و ہ کسی سے مخفی نہیں ۔تقدیر کے چاک کو سوزن تدبیر سے
کبھی رفو نہیں کیا جا سکتا ۔ قمر علی عباسی نے نیو یارک میں آنے والے ایک
سمندری طوفان کی تباہ کاریوں کا احوال بیان کرتے ہوئے اپنے ایک کالم میں
لکھا ہے :
’’امریکہ جیسا طاقت ور ملک جو انسانوں کی ،قوموں کی ،ملکوں کی تقدیروں کو
بدلنے کا دعویٰ کرتا ہے ،اپنے علاقے کے سمندر کو قابو نہیں کر سکا۔وہ بے
آپے ہو کر نیو یارک میں گھس آیا ۔نیو جرسی کو پانی میں ڈبو دیا ۔کتنے علاقے
ایسے ہیں جہاں ابھی تک بجلی نہیں آئی اور اس کے بحال ہونے میں ابھی دیر ہے
۔نیو یارک میں سینڈی کی تباہی کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کا ہر آدمی
،چاہے وہ امریکی کیوں نہ ہو ،سب کچھ ہونے کے باوجود قدرت کے ہاتھوں مجبور
ہے ۔‘‘(5)
سچ ہے کہ قدرت کاملہ جب اختیار بشر پر پہرے بٹھا دیتی ہے تو انسان کو اپنی
اوقات کاعلم ہو جاتا ہے۔ قمرعلی عباسی نے انسانیت کو درپیش مسائل کے بارے
میں جس دردمندی اور خلوص کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے وہ قارئین ادب کے لیے
ولولہء تازہ کا نقیب ہے ۔ دنیا کی سپر طاقت امریکہ کو پس ماندہ اور مسائل
کی شکار اقوام کی حالت زار کے بارے میں متوجہ کرتے ہوئے قمر علی عباسی نے
لکھا ہے :
’’جس طرح مین ہٹن کے نشیبی علاقوں میں طوفان کو روکنے کے لیے دیواریں بنائی
جا رہی ہیں،اسی طرح دنیا سے جہالت ،بے روزگاری ،غربت کو روکنے کے لیے بھی
دیواریں بنائی جائیں ۔سینڈی ایک طوفان کا نام نہیں ،یہ ہر اس طوفان کا نام
ہے جو دنیا کے کونے کونے سے ہر لمحے اٹھتاہے اور انسانیت کے لیے للکار بن
جاتا ہے ۔‘‘(6)
قمر علی عباسی اب اس دنیامیں موجود نہیں لیکن ان کی تصانیف ان کا نام ہمیشہ
زندہ رکھیں گی ۔ان کی وفات کی خبر سن کرد ل پر قیا مت گزرگئی ۔انھوں نے
اپنی تخلیقی فعالیت سے قارئین ادب کے دلوں کو مسخر کر لیا۔ان کی خیال افروز
،فکر پرور اور بصیرت افروز تصانیف سے اردو ادب کی ثروت میں بے پناہ اضافہ
ہوا ۔ دنیا بھر میں قارئین ادب ان کی وفات کے جان لیوا صدمے سے نڈھال تقدیر
کے اس سانحے پر آہ و زاری میں مصروف ہیں ۔قمر علی عباسی نے روشنی کا جو سفر
شروع کیا وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا ۔ازل سے ہر جان دار کی قسمت میں فنا لکھ
دی گئی ہے اور بقا صرف قادر مطلق کو حاصل ہے ۔قمر علی عباسی جیسی ہفت اختر
شخصیات کی علمی ،ادبی اور قومی خدمات قارئین ادب کی لوح دل پر نقش ہیں۔ ان
کی آنکھیں مند جانے کے بعد بھی ان کے افکار کی ضیاپاشیوں کا سلسلہ کبھی
ماند نہیں پڑ سکتا۔وہ لوگ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے ہیں جب ہماری آنکھوں سے
ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو جاتے ہیں تو روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو جاتا
ہے لیکن فکر انساں زندگی اور موت کے ان سر بستہ رازوں کی تفہیم سے قاصر ہے
۔رخش عمر مسلسل رو میں ہے اور ہمارا ہاتھ باگ پر نہیں اور نہ ہی پاؤں رکاب
میں ہے ۔خدا جانے زندگی کا یہ سفر کس مرحلے پر اختتام پذیر ہو۔اپنے رفتگاں
کے بغیر زندگی کا سفر تو افتاں و خیزاں جیسے تیسے کٹ ہی جاتا ہے لیکن پس
ماندگان جن کی آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہوتی ہے وہ کر چیوں میں بٹ جاتے ہیں
۔ جب تک دم میں دم رہتا ہے یہ غم ساتھ رہتا ہے ۔قمر علی عباسی کی یادیں ہی
اب زندگی کا اثاثہ ہیں ۔
برس گیا بہ خرابات آرزو تیراغم
قدح قدح تیری یادیں سبو سبو تیراغم
مآخذ
(1)سلطان جمیل نسیم : ’’بنانے والے کی تعریف ‘‘مضمون مشمولہ ماہ نامہ چہار
سو راول پنڈی ، جلد 22 ،شمارہ مارچ ۔اپریل 2013 ، صفحہ17۔
(2)نیلو فر علیم عباسی : ’’میرے ہر قدم کا ساتھی ‘‘ مضمون مشمولہ ماہ نامہ
چہار سو راول پنڈی ، جلد 22 ،شمارہ مارچ ۔اپریل 2013، صفحہ 15۔
(3)وجاہت علی عباسی : ’’ کالم سلسلہ تکلم کا ‘‘ لمبی جدائی ‘‘مطبوعہ
روزنامہ ایکسپریس ،لاہور ، 11نومبر 2013، صفحہ 13۔
(4)نیلو فر عباسی :میرے ہر قدم کا ساتھی ، صفحہ 15۔
(5)قمر علی عباسی : ’’مین ہٹن میں دیواریں ‘‘ ’’اور پھر بیاں اپنا ‘‘،کالم
مطبوعہ روزنامہ پاکستان ،لاہور ، 23نومبر 2012 صفحہ 4۔ |