دوست و دشمن کی پہچان؟

اﷲ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ نے قرآن و حدیث میں مسلمانوں کے دوست اور دشمن کی شناخت بڑے واضح انداز میں بیان فرمادی اور اب اس میں کسی قسم کا ابہام باقی نہیں۔ انسانی فکر الہامی سند کے مقابلے میں کھلی گمراہی ہے۔ سورۃ مائدہ آئت نمبر 51 اے ایمان والو! یہودو نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کیدوست ہیں ، اور تم میں جوکوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے،بے شک اﷲ بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا۔اسی طرح متعدد مقامات پر یہودونصاریٰ اور دیگر کفار و مشرکین کی دوستی سے منع فرمایا گیا۔عام طور پر انسانی معاشرے میں دو طرح کے تعلقات ہوتے ہیں ایک سطحی لحاظ سے جن کا دائرہ کار دنیاوی معاملات اور کاروبارتک محدود ہوتا ہے۔ دوسری قسم کے تعلقات مذہبی اور روحانی ہوتے ہیں جن کا دائرہ کارمعاشرہ اسلامی کے استحکام اور ریاست اسلامی کے مفادات، افراد کی خیرخواہی ، اسلامی تعلیمات، مسلم اتحاداور دفاعی قوت سے بھی آگے کئی امور تک پھیلا ہوا ہے۔ جن افراد امت میں اسلام کی روح باقی ہے وہی ان نزاکتوں کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ریاست کے ارباب عقدوکشاد، امراء، علماء و فضلاء اور مشائخ تک تو جگانے کے لیئے تقریر و تحریر سے کام لیتے رہتے ہیں ۔ اسکی مثال دور حاضر میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام ہونے والی تقریبات بیداری امت کے لیئے نسخہ کیمیا سے کم نہیں۔ اثر کم دکھائی دیتا ہے لیکن یہ کیا کم ہے کہ حق گوئی و بے باکی آئین جواں مرداں کے مصداق جابر اور ظالم کے سامنے کلمہ حق بلند کرتے رہنا جہاد ہے۔ طبقہ امراء وروساء مغربی جمہوریت کے ثمرات سے مستفیذ ہوکر مسند اقتدار پر براجماں ہے۔ افراد ہی بدلتے ہیں نظام نہیں بدلتا۔ اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ طبقات روح اسلام سے محروم ہیں۔ یہ خود اور انکی اولادیں اپنے آپکو غیروں کے رنگ میں رنگتے ہیں ۔ نام کے مسلمان ہیں ، جو سرمایہ ایمان ہے اس کی ان ہوابھی نہیں لگتی۔ میں دعوی سے کہتا ہوں بلکہ چیلنج کرتا ہوں کہ ان لوگوں کو درست طریقہ سے کلمہ طیبہ بھی پڑھنا نہیں آتا، چہ جائیکہ انہیں قرآن فہمی یا احادیث مبارکہ کی روشنی ملی ہو۔ ایسے افراد سے ریاست اسلامی اور مسلمانوں کی فلاح کی امید رکھنا عبث ہے۔ جب انہیں اسلام کے تقاضے سرے سے معلوم نہیں تو یہ صرف کاروباری حد تک محدود ہیں۔ ان کی سوچ کارخانوں فیکٹریوں، زمینوں اور حصول دولت کے لیئے مسند اقتدار تک ہی محدود ہے۔ یہ کیا جانیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ریاست مدینہ کو وسعت اسلام، استحکام دین اور اسلام کے مکمل نٖفاذ کے لیئے قائم فرمایا،جہاں آپ ﷺ نے دین کا عملی نفاذ فرماکر مقاصد وجود ریاست کی تصریح فرمادی۔مسلمانوں کی شیرازی بندی کو قائم رکھنے کے فرمایا کہ مومن مومن کا بھائی ہے اسے ذلیل و خوار نہ کرے اور اس کا خون نہ بہائے اور نہ ہی اسکی عزت پر حملہ کرے۔ ہوس اقتدار میں ہمارے وڈیروں ،جاگیرداروں اور لٹیروں نے یہود و نصاریٰ سے اپنے تعلقات ایسے قائم کیئے جیسا کہ انہیں مسلمان بھائیوں سے قائم کرنے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ ان دوستیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ دشمنوں کو ہمارے ملک میں اپنی سازشوں کے جال پھیلانے میں کوئی دقت نہ ہوئی۔ ہمارے ملک میں منافقوں کی کمی نہیں ۔ انہوں نے ڈالروں اور پونڈوں کے بدلے ہرطرح کی خرابیاں پیدا کیں۔ ملک کے دفاع بارے کوئی چیز ہمارے دشمنوں سے آج پوشیدہ نہیں۔ ہمارے ایٹمی اثاثوں کے بالکل قریب انکی رہائش گاہیں ہیں۔ فرقہ وارانہ منافرت، کشیدگی بڑی مکاری کے ساتھ پھیلائی جاتی ہے جسکے نتیجہ میں کئی افراد کی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ غیر ملکی جو ہمارے حکمرانوں کے آقا ہیں کھلے بندوں کئی آدمی قتل کرکے اپنے وطن واپس جاچکے ہیں۔ توہینِ رسالت میں سزایافتہ لوگوں کو ہمارے حکمرانوں نے دوسرے ممالک میں بھیج دیا۔ اگر کوئی پاکستانی مسلمان امریکیوں کو قتل کرکے آجائے تو ہمارے حکمران ڈالروں کے بدلے انہیں دشمنان اسلام کے حوالے کرچکے ہیں۔ وسیع و عریض قطعات اراضی پر امریکی سفارتخانہ اور لاہور میں ہزاروں ایکڑزمین امریکی قونصل خانے کو دی گئی۔ اپنے ملک کے عوام بے گھر اور بے زمین ہیں۔ روٹی کو ترس رہے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ ہم پر حکمران مسلط کرنے میں اسلام دشمن طاقتوں کا کردار واضح ہوتا ہے۔ اگر کوئی حکمران دشمنان اسلام صلیبیوں کی نافرمانی کرتا ہے تو اسکی پاداش میں اسے تختہ دار پر لٹکایا جاتا ہے یا کم از کم اسے اقتدار سے محروم کیا جاتا ہے۔ تو پاکستان کے مسلمان اپنے مستقبل بار کیا کریں۔ مصنوعی غربت طاری کرکے عوام کو حکومتی بدعنوانیوں کے خلاف اٹھنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا جاتا۔ جب علاقہ غیر کے مسلمانوں سے پاکستان کے مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہ تھا۔ شمالی اور مغربی سرحدین محفوظ تھیں جہاں ایک بھی فوجی تعینات نہ تھا۔ وزیرستان کے لوگوں نے کبھی کسی کو تنگ نہ کیا تھا۔ مگر صلیبیوں کو مسلمانوں کا امن و سکون اچھا نہ لگا۔ امریکہ نے حملہ کردیا تو صرف اورصرف پرویز مشرف امریکی ایجنٹ نے پاکستان کو امریکہ کی جنگ میں دھکیل دیا۔ اگر اس میں اسلامی روح موجود ہوتی تو پرامن مسلمان بھائیوں کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے کی بجائے مسلمان بھائیوں کا ساتھ دیتا۔پھر بڑی چالبازی کے ساتھ اس جنگ کو پاک افغان جنگ میں بدل ڈالا۔ پھر ہمارے سیاسی رہنماؤں نے اس کی مزید کلوننگ کی۔ جب پاکستان کی طرف سے اپنے مسلمان بھائیوں پرمظالم ڈھائے گئے تو انہوں نے بھی جو امریکہ کا یارہے غدار ہے کی تشریح کرتے ہوئے آنکھیں بند کرکے بدلے چکانے شروع کیئے۔ ایسا کرنے میں انہوں نے بے قصور مرودوں ، عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کیا۔ جس کا شریعت اسلامی میں کوئی جواز نہیں۔ اگر وہ اصل مجرموں کو نشانہ بناتے تو پاکستان کے عوام بھی سکھ کا سانس لیتے ۔پاکستان کے امریکہ کی حمائت میں عمل کا افغانوں کی جانب سے رد عمل کسی حد تک مناسب نہیں بلکہ اتحادی افواج کے اثاثوں کو نشانہ بنایا جائے۔ ڈرون جہاز گرائے جائیں۔ مسلمان کو موت سے نہیں ڈرنا چاہیئے۔ کیونکہ اس نے اﷲ کے ساتھ اپنی جان کا آخرت کے بدلے سودا کررکھا ہے۔ بھائی آپس میں کسی بھی وجہ سے لڑپڑتے ہیں لیکن انکی فلاح صلح میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے جب دیکھا کہ حکومت پاکستان طالبان کے ساتھ ملکر کر امن قائم کرنے والی ہے تو اس نے حکیم اﷲ کو قتل کرکے کشیدگی میں اضافہ کردیا۔ اس سے قبل بھی جب کوئی صلح کی بات چیت چلی تو امریکہ نے بم دھماکے کرادیئے۔ اب محرام الحرام میں قتل و غارتگری اورکشیدگی کو بڑھانے میں امریکی ایجنٹ سرگرم ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیئے کہ دوست دشمن کی پہچان کریں۔ جو امریکی ڈالروں کے بدلے مملکت اسلامیہ اور مسلمانوں کو نقصان پہنچائے گا وہ اﷲ تعالیٰ کے شدید عذاب کا شکار ہوگا۔ماضی کے ہوشربا واقعات کو بھلاکر بھائی بھائی بن کر صلیبیوں کے عزائم کو خاک میں ملادو۔ محرم الحرام کی تقریبات کسی غیر کی یاد میں نہیں بلکہ اپنے پیارے رسول ﷺ اور انکی ذریت کی یاد میں منائی جارہی ہیں۔جنت کے نوجوانوں کے سرداروں کی شہادت کے دنوں میں اپنے رب سے توبہ و استغفار کریں۔ اتحاد امت قائم رکھیں۔ اسی میں انفرادی اور اجتماعی فلا ح اور سرفرازی ہے۔اﷲ توفیق دے آمین۔

AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 128281 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More