دو محاذ اور آخری لڑائی

عام آدمی پھسل جائے تو اس اکیلے کو چوٹ لگنے کا ڈر ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے کسی قوم کا بادشاہ پھسل جائے تو قوم کا وہی حال ہوتا ہے جو آجکل ہمارا حال ہے۔ہمارا حال یہ ہے کہ ہماری کوئی سمت نہیں۔منیر نیازی نے کہا تھا کہ سفر تیز تر ہے اور حرکت۔۔۔خیر چھوڑئیے منیر نیازی کو کہ ہماراشاعری موسیقی اور اسی طرح کی دوسری لغویات سے کیا لینا دینا۔ اﷲ بخشے امیرالمومنین جناب ضیاء الحق کو جو پاکستان کے آئین و قانون کو روندتے ہمارے سروں پہ مسلط ہوئے تو روس افغانستان پہ چڑھ دوڑا۔ ضیاء الحق کے نوے دن نوے سال ہو گئے۔ امریکہ نے کمیونزم کے خاتمے کے لئے ان کے سر پہ ہاتھ رکھ دیا۔ ساری دنیا کے جہادی سی آئی اے کی سرپرستی اور نگرانی میں پاکستان لائے گئے۔پاکستان کے ا ندر بھی جہادی گروپ تشکیل دئیے گئے۔ شوق جہاد کو اتنا ابھارا گیا کہ بچے ماؤں کی گود سے نکل کے سیدھے میدان جہاد میں پہنچنے لگے۔روس ٹوٹ گیااور امریکہ اپنی فتح کے شادیانے بجاتا واپس لوٹ گیا لیکن ہم ابھی تک اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

ضیاء الحق نیم ملا تھے۔ دین کے بارے میں ان کا علم محدود اور ذہن فرقہ وارانہ تھا۔ انہوں نے ملک کے اندر سے اس جہاد کے لئے جو ورک فورس حاصل کی وہ ایک مخصوص فرقے سے تعلق رکھتی تھی۔سرکاری سر پرستی میں اس فرقے کے گروہ اور جتھے ترتیب دئیے گئے۔انہیں جدید اسلحے سے لیس کیا گیا۔یہ اسلحہ اور اس کی تربیت امریکہ سپانسرڈ جہاد میں بھی کام آئی ہو گی لیکن اس نے پاکستانی معاشرے کی بنیاد ہلا کے رکھ دی۔ معاشرے توازن ہی کی طاقت پہ پھلتے پھولتے اور زندہ رہتے ہیں۔شیعہ سنی کا تنازعہ اسلام کی ابتدا ء ہی سے موجود ہے ۔یہ ہمارے ہاں بھی تھا لیکن اختلاف کے باوجود یہ لوگ ایک دوسرے کو نہ صرف برداشت کرتے تھے بلکہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں بھی شریک ہوتے تھے۔ایک گروہ کے پاس جب لامحدود طاقت آ گئی تو انسانی فطرت کے عین مطابق اس نے مخالف گروہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی ٹھان لی۔سپاہِ صحابہ اور لشکر جھنگوی اور اس کے مقابل نفاذ فقہ جعفریہ اور اسی قبیل کی دوسری تنظیمیں اسی دور میں وجود میں آئیں۔ضیاء الحق کی کٹھ ملائیت نے معاشرے کو فرقہ پرستی کی راہ پہ ڈال کے جہنم بنا دیا۔

ضیاء الحق کے یہی مجاہدین اب اﷲ کا عذاب بن چکے۔نہ صرف عام پاکستانیوں کے لئے بلکہ اپنے ہی فرقے کے سرکردہ علماء کے لئے بھی یہ مسلسل دردِ سر ہیں۔ان کا کوئی مذہب ہی نہیں تو مسلک ومشرب چہ معنی لیکن چھتری یہ ہمیشہ مسلکِ دیوبند ہی کی استعمال کرتے ہیں۔کتوں کو شہید کہہ کے شعائر اسلامی کا مذاق اڑانے والے تو خیر اپنا سیاسی وزن اور گھیر بڑھانے کو ا نہیں ا ستعمال کرتے ہیں لیکن مسلکِ دیوبند کے جید علماء بھی مصلحت اسی میں سمجھتے ہیں کہ ان کے معاملے میں خاموش رہا جائے۔کوئی بھی مولٰنا حسن جان کی طرح اپنی جان کا نذرانہ پیش نہیں کرنا چاہتا۔حق تو یہ ہے کہ اس مسلک کے علماء سر پہ کفن باندھ کے میدان میں نکلیں اور لوگوں کو بتائیں کہ یہ فسادی ہیں اور مسلک دیوبند سے ان کا کوئی تعلق نہیں تا کہ معصوم اور سادہ لوح عوام کو ایک واضح سمت مہیا ہو۔اگر علماء دیوبند انہیں حق پہ سمجھتے ہیں تو بھی ابہام کاخاتمہ ضروری ہے۔ ابھی تو یہ عالم ہے کہ یہ پاکستان کے شہروں دیہاتوں میں مسلک دیوبند کی مسجدوں اور مدرسوں میں بیٹھ کر نہ صرف دھماکوں کی پلاننگ کرتے ہیں بلکہ انہیں ان اداروں سے نادانستگی اور مسلک سے محبت کے نام پر پوری تکنیکی امداد مہیا کی جاتی ہے۔عرض ہے کہ جماعت اسلامی والے موقف سے اب کسی کا بھلا ہونے والا نہیں کہ جو ہزاروں انسان بے گناہ مارے جا رہے ہیں وہ بھی
شہید ہیں اور جو انہیں مار رہا ہے وہ بھی شہید۔

ملا فضل اﷲ کے امیر تحریک طالبان بن جانے کے بعد تحریک انصاف کے لوگوں کو بھی ایک دفعہ پھر ان سے مذاکرات کے اپنے مطالبے پہ نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔اپنے دعویٰ کے مطابق ہاں تحریک انصاف نیٹو سپلائی روک سکے تو یہ پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کے لئے اس پارٹی کی بڑی خدمت ہو گی۔اس کے لئے صوبے کی حکومت کو داؤ پہ لگانے کی بجائے آپ کو پاکستانی عوام کی مدد لینا ہو گی۔یاد رہے کہ جنگ کے ہنگام وقت کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے اور سیانے کہتے ہیں کہ وہ مکا جو باکسنگ رنگ سے نکلنے کے بعد یاد آئے اسے پھر اپنے ہی منہ پہ مار لینا چاہئیے۔

اس وقت حکومت پاکستان کو سوچنا ہے کہ وہ کب تک مصلحت کا شکار رہے گی۔ اس کی گو مگو کی کیفیت ملک کو مزید تباہی کی طرف لے جائے گی۔ اس وقت بیس کروڑ عوام کو سوچنا ہے کہ ان کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہئیے۔ انہیں بھی فیصلہ کرنا ہے کہ وہ پرو طالبان ہیں یا اینٹی طالبان۔ مسلک دیوبند کے علماء کو بھی اب رخصت کا راستہ ترک کر کے عزیمت کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہی اصل شریعت ہے جو طالبان نافذ کرنا چاہتے ہیں توانہیں کھل کے اس کا اعلان کرنا ہو گا اور اگر ایسا نہیں تو پھر عوام کو بتانا ہو گا کہ طالبان کی حرکتوں کا اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں۔مذہبی پارٹیاں تو خود نہیں جانتیں کہ ان کی سمت کیا ہے کہ وہ ایک ہی سانس میں اپنے موقف کی نفی کرتی پائی جاتی ہیں اور ان کے اس نیم دروں نیم بروں موقف کی بناء پہ پاکستان کے عوام نے انہیں کبھی گھاس نہیں ڈالی۔تحریک انصاف کو بھی فیصلہ کرنا ہو گا کہ کرنا کیا ہے۔پارٹی کا ایجنڈا کیا ہے۔ وہ کرنا کیا چاہتی ہے۔ کیا وہ بھی دوسری پارٹیوں کی طرح اس معاملے میں سیاست کرنا چاہتی ہے یا واقعی وہ پاکستان کو محفوظ بنانا چاہتی ہے۔پاکستان کی سلامتی کے ذمہ داروں کو بھی اپنے گھوڑیکسی انہونی کے لئے تیار رکھنے چاہیئں۔

وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ امریکہ افغانستان اور بھارت ۲۰۱۵ ء تک پاکستان کو توڑنے کے ایجنڈے پہ دل وجان سے عمل پیرا ہیں جبکہ دوسری طرف پاکستان کو بچانے کا دعویٰ کرنے والی قوتیں اپنا رستہ کھو بیٹھی محسوس ہوتی ہیں۔سچ پوچھیں تو مجھے یقین ہے کہ اﷲ پاکستان کی حفاظت کرے گا لیکن زمینی حقائق پہ نظر جاتی ہے تو سوچتا ہوں کہ کسی طرح مولٰنا فضل اﷲ کے کسی گن مین ،کسی چپڑاسی کسی ڈرائیور کا کوئی رقعہ بھی پکڑ لوں کہ اس ریاست نے جس نے میری حفاظت کرنی ہے سے میرا اعتبار اٹھتا جا رہا ہے۔ یہ حکومت جو کراچی اور بلوچستان کی نسبتاََ ہلکی شورش نہیں سنبھال پاتی وہ امریکہ اور طالبان دونوں کے ساتھ کیونکر لڑ پائے گی۔ محاذ دو اور لڑائی ایک ،وقت کم اور بکھری ہوئی قوم ،راہ گم کردہ حکمران اور بے رحم دشمن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدا خیر کرے

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268791 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More