دہشت گردی ہنری کسنجر اور امام حسین

امریکہ کی ہر دور کی فارن پالیسی کا بنظر غائر تجزیہ کیا جائے تو یہ سچائی منکشف ہوتی ہے کہ وائٹ ہاوس پاکستان سمیت امت مسلمہ کا کٹر دشمن ہے۔ یہود و ہنود نے انکل سام کی قیادت میں دہشت گردی کے نام پر عراق سے فلسطین تک کابل سے شام تک لاکھوں مسلمانوں کو قتل و غارت کے جہنم میں پھینک کر راکھ بنادیا۔ یہ بھی سچ ہے کہ امریکی فورسز نہ صرف اپنے فرنٹ لائنر اتحادی پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دیکر اسکی خود مختیاری کو زک پہنچانے کا دقیقہ فروگزاشت کرتی ہیں بلکہ یہی عالمی قاتل امت مسلمہ کی واحد ایٹمی طاقت کا جنازہ پڑھنے کے لئے بیقرار و بے چین ہیں۔ طالبان اور حکومت کے درمیان ڈائیلاگ کا اغاز ہوا چاہتا تھا تو عین موقع پر امریکی ڈرون نے حکیم محسود کو پھڑ کا مذاکراتی راونڈز کے امکانات کوہی معدوم کردیا۔ تحریک طالبان نے ایک طرف حکیم محسود کی ہلاکت پر طبل جنگ بجادیا ہے تو دوسری طرف طالبان شوری نے حکیم محسود کی جانشینی ملا فضل اﷲ ایسے متشدد امیر کو تھمادی جو صرف گولی کی زبان سے بات کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ملا نے امیر بنتے ہی مذاکرات سے انکار کردیا۔ کوئی مانے یا نہ مانے ملا فضل اﷲ کو تحریک طالبان کا سربراہ منتخب کروانے کا سہرا سی ائی اے را موساد اور خاد کو جاتا ہے۔ مولانا ریڈیو کے نام سے شہرت رکھنے والے سواتی ملا کے خون میں پاکستان دشمنی بغض معاویہ اور شدت پسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ یہود و ہنود کی غلامی سے ازادی کا تاریخ ساز لمحہ ہویدا ہوچکا مگر لگتا یوں ہے ارباب اختیار کی زبان دوچار بیانات کے بعد ڈیڈ ہوچکی ہے۔عقل کے اندھوں اور گانٹھ کے پوروں کو امریکی خارجہ پالیسی کے بنیادی خدو خال دکھائی نہیں دیتے۔امریکہ کے سابق فارن منسٹر ہنری کسنجر کے چند جملوں میں حقیقت ساون کے اندھوں کو بھی نظر اجاتی ہے۔ہنری کسنجر امریکی صدر رچرڈ نکسن کے دور میں فارن منسٹر تھے۔ وہ سات سال1970تا1977 تک وزارت خارجہ کے منتری تھے۔ کسنجر پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کے منہ زور مخالف تھے۔ دانشوارانہ سفارت کاری میں کسنجر کا کوئی ہم پلہ ہو ہی نہیں سکتا۔یہ وہی کسنجر ہے جس نے گورنر ہاوس لاہور میں قائد عوام بھٹو کو ایٹمی پلان سے دستبردار نہ ہونے کی صورت میں عبرت کا نشان بنانے کی جگالی کی تھی۔ امریکی خارجہ پالیسی وائٹ ہاوس کی کسی ریاست کے خلاف صدارتی سازشوں اور ہر دور میں امریکی انتظامیہ کی نیتوں کے فتور کی روز روشن پوزیشن کا اظہار کسنجر کے ایک جملے میں جھلک رہا ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ امریکن ہسٹری میں ہنری کو فارن پالیسی سے منسلک شعبوں میں بلند مقام اعجاز و افتخار حاصل ہے۔ وہ فارن منسٹر تھے تو وائٹ ہاوس کی پالیسی کے تحت کام کرتے رہے مگر جب ریٹائر ہوئے تو امریکہ کی فارن پالیسی کے حقیقی سچ کو بے دھڑک بے نقاب کرنے کی جرات رکھتے ہیں۔بھارت نے مئی1998 میں ایٹمی دھماکے کئے تو ہنری کسنجر نے پاکستانی سفیر کے سوال پر مشورہ دیا کہ پاکستان کو ہر صورت میں دھماکے کرنے چاہیں۔ پاکستانی سفیر نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ایٹمی دھماکوں پر انکل سام ناراض ہوجائیگا۔کسنجر نے وہ جواب دیا جو تاریخ کے ماتھے پر پتھرا گیا۔ کسنجر فلاسفی کے مطابق امریکہ دشمن ملک کے خلاف سنگین کاروائیاں نہیں کرتا مگر دوست ممالک کے خلاف امریکہ ایک طرف باولالہ بن کر سفاک کاروائیاں کرنے سے نہیں کتراتا تو دوسری طرف امریکی فورسز اپنے حلیف ممالک میں تباہی و بربادی کا بھی کوئی چانس مس نہیں کرتیں۔ہنری کسنجر کی فلاسفی کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہم دشمن ہونے کی شکل میں کیوبا کی طرح امریکی ابتلاوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ایران کی طرح ناقابل لغزش استقامت اپنانے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے پر یہود و ہنود کو جنگ کرنے کی جرات نہ ہوگی اگر ہمارے حکمرانوں نے ڈالروں کی ہوس میں امریکن غلامی کی ہتھکڑیاں اتار پھینکنے کی جرات نہ دکھائی تو پھر عراق و افغانستان لیبیا کی طرح ہمارا تیاپانچہ ہوگا۔ امریکی دوستی کا خمیازہ کب تک بھگتنا پڑے گا۔حکیم محسود پاکستان سے رابطے میں تھا۔ محسود واحد لیڈر تھا جو طالبان کے79 گروپوں میں اثر و رسوخ کا حامل تھا۔ امید کی جارہی تھی کہ حکیم محسود کامیاب ڈائیلاگ کی داغ بیل ڈالنے کا قلعہ سر کرلیتے۔ وانا نیوز ایجنسی کے مطابق حکیم محسود کے اعجاز و احترام کی رو سے سارے دھڑے مذاکرات پر امادہ ہوچکے تھے مگر امریکہ نے مذاکراتی راونڈ سے چند گھنٹے پہلے ڈرون اٹیک سے حکیم محسود کو ہلاک کردیا تاکہ پاکستان کو طالبان کے خلاف جنگ کی خاطر مجبور کردیا جائے۔ حکیم محسود کو ہلاک کرنا ایک خطرناک جنگ کا پیش خیمہ ہے یہ طالبان کے ساتھ ہوگی جو پاکستان کی سلامتی وحدت کو زیادہ نقصان پہنچائے گی۔ امریکہ عالمی امن کا دشمن ہے۔ امریکہ روئے ارض کی واحد قوت ہے جس نے انسانی حقوق کو سب سے زیادہ پامال کیا۔ سترہویں صدی سے لیکر پہلی اور دوسری جنگ عظیم تک پھر دہشت گردی کے نام پر عراق و کابل میں ہونے والی ہر ظلمت کے پس چلمن امریکی چالبازیاں نمایاں ہیں۔امریکہ کی اوپن سوسائٹی فاونڈیشن نے ایک رپورٹ شائع کی ہے کہ افغانستان میں ایک امریکی بلیک جیل کا انکشاف ہوا ہے یہاں مسلم قیدیوں پر تشدد ٹارچر ظلم اور سفاکیت کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے کے تجربات کئے جاتے ہیں۔بلیک جیل کے انکشاف کی تصدیق سی این این اور بی بی سی بھی دسیوں مرتبہ کرچکے ہیں۔ برطانیہ کی ایک تنظیم عراق باڈی کاونٹ نے اعداد و شمار شائع کرتے ہوئے بتایا کہ امریکی حملوں میں ایک لاکھ62 ہزار عراقی جانیں گنوا چکے ہیں۔ اسی ہزار معصوم شہریوں کو جان بوجھ کر اپاہج بنادیا گیا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جو رپورٹ ریلیز کی ہے کہ پاکستان پر کئے جانیوالے ڈرون حملوں میں کوئی شفافیت نہیں پائی جاتی۔ امریکی ڈرون حملے جنگی جرائم کے مترادف ہیں۔پوری دنیا لاقانونیت پر مبنی ڈرون حملوں پر خاموش تماشہ بین بنی ہوئی ہے۔ امریکہ امت مسلمہ کا قاتل ہے جو خود تو افغانستان سے انخلا کا فیصلہ کرچکاہے مگر طالبان اور پاکستان کو کبھی نہ رکنے والی جنگ کے دہانے تک پہنچا چکا ہے۔2004 میں پاکستانی فورسز اور نیک محمد کے مابین امن معاہدہ ہوچکا تھا مگر امریکی ادم خوروں نے نیک محمد کو ہلاک کرکے طرفین کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنایا گیا۔ نیک محمد کی ہلاکت کے بعد ہی انتہاپسندوں نے پاکستان میں خود کش حملوں کی ابتدا کی۔ حکیم محسود کی ہلاکت بھی امریکی خونی عزائم کا حصہ ہیں تاکہ پاکستان اور طالبان کو نیو جنگی میدان میں اتارا جائے۔ اجکل دنیا بھر میں محرم الحرام عقیدت سے منایا جارہا ہے۔ اسی تناظر میں امام حسین کا قول امریکی غلامی سے ازادی کی دعوت دے رہا ہے۔ امام حسین نے فرمایا تھاکہ ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا یہود و ہنود کی دوستی خود ایک ظلم کے مترادف ہے۔ پاکستان اور امت مسلمہ کے پٹھو حکمرانوں کو امام حسین کے اقوال کی روشنی میں امریکی غلامی کا لبادہ اتار دینا چاہیے کیونکہ ظلمت شب اتنی بڑھ چکی ہے کہ امت مسلمہ کو کچھ بجھائی نہیں دیتا۔ پاکستان ہنری کسنجر کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے فوری طور پر امریکی جنگ سے الگ ہوجائے ورنہ امام حسین کا یہ قول مستقبل کی پیشین گوئی کر رہا ہے۔ ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے ظلمت کا دائرہ کار بڑھتا رہے گا۔

Rauf Amir
About the Author: Rauf Amir Read More Articles by Rauf Amir: 34 Articles with 27836 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.