تحریر ! سردار کبیر خان
اچھی طرح یاد ہے، ایک بار ہم نے’’ موڈ ‘‘ میں دیکھ کر ماں سے پوچھا ’’ آپ
کی ساری اولاد ماشا ء اﷲ گوری چٹی اور خوب شکل ہے ،پھر بھی آپ مجھ سے زیادہ
پیار کرتی ہیں ۔۔۔اس کی کیا وجہ ہے۔۔۔؟
’’ کیا کروں کلمونہے ۔۔۔‘‘ماں نے صدقے واری جاتے ہوئے کہا ’’ تو میری پہلو
ٹھی کی اولاد ہے ۔‘‘
صاحبو ! کتاب معنوی اولاد ہوتی ہے ۔جننے والی ہر بار درد زہ سے گزرتی ہے ۔چنا
نچہ سب سے یکساں پیار کرتی ہے ۔لیکن پہلوٹھی کی اولاد پر اس کا التفات
نسبتاً زیادہ ہوتا ہے ہر مصنف پہلوٹھی کی معنوی اولاد پر صدقے واری جاتا ہے
۔اسی نسبت سے وہ پہلوٹھی کی اولاد سے توقعات بھی زیادہ پال لیتا ہے۔ ’’اپنا
دیس ،اپنی جنت ‘‘نیاز کشمیری کی پہلوٹھی کی معنوی اولاد ہے ۔یقینا وہ خوش
بھی ہے ،اور خوش فہم بھی ۔ہماری دعا ہے اس کی خوشی اور خوش فہمی قائم و
دائم رہے ۔لیکن اولاد اگر ہم جیسی کلمونہی نکلی تو پھر ؟ہمارے خیال میں وہ
پہلوٹھی کی اولاد پھر بھی رہے گی۔
نیاز کشمیری ہمارا سگا گرائیں ہے ۔لیکن اس سے ہماری پہلی ملاقات سفارت خانہ
پاکستان ابو ظبیی میں ہوئی۔نیاز کشمیری تو ہے ہی کشمیری ،مگر سفارت خانہ کے
ارباب لبست و کشاد کشمیر ڈے پر ہم جیسے کلمونہے کو کیوں بلاتے رہتے ہیں
؟ہمیں معلوم نہیں حالانکہ ادبی برادری نے بار ہا ہمارے رنگ ڈھنگ کے پیش نظر
ہمیں ڈسکہ کے مشہور زمانہ آوے کی پیداوار قرار دیا ہے۔بھارت کے معتبر ترین
مزاح نگار مجتبیٰ حسین نے تو یہاں تک فرمایا کہ ’’میں نے آج تک ایسا کالا
کشمیری نہیں دیکھا ۔۔۔اسے زندہ سلامت حنوط کر کے عجائب گھر میں رکھ دینا
چاہے ۔۔۔دیکھ جو تمیں دیدہ عبرت نگاہ ہو ‘‘تاہم سفارت خانہ پاسپورٹ دیکھ کر
بدل نخواستہ ہمیں بلاتا رہتا ہے ،اور ہم بھی بدل نا خواستہ جاتے رہتے ہیں
۔ایک ایسے ہی بدل نخواستہ موقع پر ہماری ملاقات نیاز کشمیری سے ہوئی۔تقریب
میں اس کی تقریر دل پذیر قدرے طویل ، مگر معلومات افزا تھی ۔پاکستانی سفارت
خانہ میں کافی محتاط انداز اختیار کرنے کے باوجود نیاز بے نیازی کا م
مظائرہ کر جاتا ۔ایسے بے نیازیاں نازک مزاج شاہاں کو خوش نہیں آیا کرتیں
۔اس کے باوجود بار بار اسے برداشت کرتے رہے۔
یہ کتاب ’’اپنا دیس ،اپنی جنت‘‘ انہیں بے نیازیوں کا پھیلاؤ ہے۔نیاز نے
تاریخ کشمیر کا مطالعہ کیا ہے ۔لیکن کئی مقامات پر اپنے مخصوص نظریہ کے
مطابق کیا ہے۔ہم ان مقامات آہ وفغاں سے متعلق نیاز کشمیری سے دوستانہ
اختلاف رکھتے ہیں ، مگر کھلے دل سے اعتراف بھی کرتے ہیں کہ نیاز نے وطن
مالوف سے محبت کا اظہار کھل کر کیا ہے ۔کشمیر سے محبت ہم بھی کرتے ہیں
،لیکن ہماری محبت قدرے مختلف ہے ۔۔کیسے ؟اس کے لئے ایک لطیفہ سن لیجئے
۔۔۔ملٹی کمیونٹی سکول کی ایک کلاس ٹیچر نے بچوں کو ہوم ورک دیا کہ وہ کل
ڈرائینگ بک میں ہاتھی کی تصویور بنا کر لائیں ۔دوسرے روز باقی بچوں کی
کاپیوں میں ہاتھیوں کے سکیچز تھے ۔سوائے ایک سوڈانی بچے کے ۔اس نے صفحہ کے
دائیں طرف اوپر ی کونے میں مارکر سے ایک دھبہ ڈال دیاتھا ۔ٹیچر کے استدلال
پر سوڈانی بچے نے جواباً کہا ’’مس یہ جو خالی صفحہ ہے ، یہ صحرہ ہے آپ صحرہ
کے اس کونے سے دیکھیں آپ کو ہاتھی بھی نظر آئے گا ۔‘‘ٹیچر نے کہا یہ تو ایک
بھدہ سا نکتہ لگتا ہے، کیا تم نے کبھی ہاتھی نہیں دیکھا۔۔۔؟
’’مس ! میں نے تو ہاتھی دیکھا ہے لیکن شائد آپ نے صحرہ نہیں دیکھا ۔میلوں
لمبے صحرہ کو عبور کرنے کے بعد دوسرے کونے سے یہ دھبہ ہی دکھائی دیتا ہے ،
ورنہ ہے تو ہاتھی ہی۔۔۔‘‘بچے نے جواب دیا ۔
نیاز مند اور نیاز کی محبت میں یہی باریک سا فرق ہے ۔
اور چلتے چلتے ہم نیاز کشمیری کو کشمیری مصنفین کی صف میں خوش آمدید بھی
کہتے ہیں اور خوش آنند بھی ۔۔۔ |