ایک بادشاہ نے اپنی رعایا پر ظلم
و ستم کرکے بہت سا خزانہ جمع کیا تھا اور شہر سے باہر جنگل بیابان میں ایک
خفیہ غار میں چھپا دیا تھا.. اس خزانہ کی دو چابیاں تھیں ایک بادشاہ کے پاس
' دوسری اس کے معتمد وزیر کے پاس.. ان دو کے علاوہ کسی کو اس خفیہ خزانہ کا
پتہ نہیں تھا..
ایک دن صبح کو بادشاہ اکیلا سیر کو نکلا اور اپنے خزانہ کو دیکھنے کے لئے
دروازہ کھول کر اس میں داخل ھوگیا.. خزانے کے کمروں میں سونے چاندی کے ڈھیر
لگے ھوئے تھے.. ھیرے جواہرات الماریوں میں سجے ھوئے تھے.. دنیا کے نوادرات
کونے کونے میں بکھرے ھوئے تھے.. وہ ان کو دیکھ کر بہت خوش ھوا..
اسی دوران وزیر کا اس علاقہ سے گذر ھوا.. اس نے خزانے کا دروازہ کھلا دیکھا
تو حیران رہ گیا.. اسے خیال ھوا کہ کل رات جب وہ خزانہ دیکھنے آیا تھا شاید
اس وقت وہ دروازہ بند کرنا بھول گیا ھو.. اس نے جلدی سے دروازہ بند کرکے
باھر سے مقفل کردیا..
ادھر بادشاہ جب اپنے دل پسند خزانہ کے معائنہ سے فارغ ھوا تو واپس دروازہ
پر آیا..
لیکن یہ کیا...........؟ دروازہ تو باھر سے مقفل تھا..
اس نے زور زور سے دروازہ پیٹنا اور چیخنا شروع کیا لیکن افسوس اس کی آواز
سننے والا وھاں کوئی نہ تھا.. وہ لوٹ کر پھر اپنے خزانے کی طرف گیا اور ان
سے دل بہلانے کی کوشش کی.. لیکن بھوک اور پیاس کی شدت نے اسے تڑپانا شروع
کیا.. وہ پھر بھاگ کر دروازہ کی طرف آیا لیکن وہ بدستور بند تھا.. وہ زور
سے چیخا چلایا لیکن وہاں اس کی فریاد سننے والا کوئی نہ تھا.. وہ نڈھال
ھوکر دروازے کے پاس گرگیا..
جب بھوک پیاس سے وہ بری طرح تڑپنے لگا تو رینگتا ھوا ہیروں کی تجوری تک
گیا.. اس نے اسے کھول کر بڑے بڑے ھیرے دیکھے جن کی قیمت لاکھوں میں تھی..
اس نے بڑے خوشامدانہ انداز میں کہا..
" اے لکھ پتی ھیرو ! مجھے ایک وقت کا کھانا دیدو.. " اسے ایسا لگا جیسے وہ
ھیرے زور زور سے قہقہے لگا رھے ھوں.. اس نے ان ھیروں کو دیوار پر دے مارا..
پھر وہ گھسٹتا ھوا موتیوں کے پاس گیا اور ان سے بھیک مانگنے لگا..
" اے آبدار موتیو ! مجھے ایک گلاس پانی دیدو.. " لیکن موتیوں نے ایک بھر
پور قہقہہ لگایا اور کہا.. " اے دولت کے پجاری ! کاش تو نے دولت کی حقیقت
سمجھ لی ھوتی.. تیری ساری عمر کی کمائی ھوئی دولت تجھے ایک وقت کا کھانااور
پانی نہیں دے سکتی.. "
بادشاہ چکرا کر گرگیا.. جب اسے ھوش آیا تو اس نے سارے ھیرے اور موتی بکھیر
کر دیوار کے پاس اپنا بستر بنایا اور اس پر لیٹ گیا.. وہ دنیا کو ایک پیغام
دینا چاھتا تھا لیکن اس کے پاس کاغذ اور قلم نہیں تھا.. اس نے پتھر سے اپنی
انگلی کچلی اور بہتے ھوئے خون سے دیوار پر کچھ لکھ دیا..
ادھر حکومتی عہدیدار بادشاہ کو تلاش کرتے رھے لیکن بادشاہ نہ ملا.. جب کئی
دن کی تلاش بے سود کے بعد وزیر خزانہ کا معائنہ کرنے آیا تو دیکھا بادشاہ
ھیرے جواہرات کے بستر پر مرا پڑا ھے اور سامنے کی دیوار پر خون سے لکھا
ھے..
" یہ ساری دولت ایک گلاس پانی کے برابر بھی نہیں ھے..!! "
یہی حال بڑے بڑے محلات بنانے والوں کا ھے.. کچھ لوگ اپنی عمر بھر کی کمائی
صرف کرکے اپنے لئے راحت کدہ بناتے ھی لیکن بہت مختصر سے قیام کے بعد مقبرہ
میں چلے جاتے ھیں..
ریشم کے کیڑے کو بھی مکان بنانے کا شوق ھے.. ھوش سنبھالتے ھی وہ اپنی ساری
صلاحتیں صرف کرکے اپنے لئے مکان بنانا شروع کردیتا ھے.. ساری عمر مکان
بنانے میں لگا رھتا ھے.. اور جس دن وہ مکان بن کر تیار ھوتا ھے اس کے چند
دن بعد ھی دم گھٹ کر مرجاتا ھے.. اس کا شبستاں اس کا قبرستان بن جاتا ھے..
لوگ اس کی حماقت کا مذاق اُڑاتے ھیں اور اس " ککون" کو پانی میں ابال کر اس
کا تار کھینچ کر ریشم کے کپڑے بناتے ھیں..!! |