ویل ڈن !مسٹر منور حسن

ہمارا گھر ایک فوجی یونٹ کے راستے میں تھا ۔ایسا کہ وہاں آنے والا ہر مہمان تقریباََ ہمارے صحن سے گذر کے جایا کرتا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہم امریکی ڈالروں کے سہارے افغانستان میں جہاد کر رہے تھے اور یہاں اپنے ملک میں فرقہ پرستی کے غبارے میں ہوا بھر رہے تھے۔ان دنوں وہاں ہر طرح کے کالے گورے بھورے اور نجانے کس کس رنگ کے مہمانوں کا آنا جانا رہا کرتا تھا۔ پاکستانی مہمانوں میں جو شخصیت مجھے بہت پسند تھی وہ ہمارے مرحوم امیر جماعت اسلامی جناب قاضی حسین احمد تھے۔اس وقت اس امریکی جہاد میں جو بھی مارا جاتا ۔قاضی صاحب اور ان کی جماعت نہ صرف اس کی مدح کرتی بلکہ کئی ایک کے تو جنازے بھی قاضی صاحب نے خود پڑھائے۔ پھر ہم نے سنا کہ ہم نے امریکہ کے ساتھ مل کے دنیا کی دوسری سپر پاور کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ہیں۔روسی ریچھ واپس اپنے غار میں چلا گیا تو امریکی بھی اپنے ڈالروں کی بوریاں کندھوں پہ ڈال کے واپس امریکہ سدھارے۔امریکہ نے دنیا میں بڑھتے کمیونزم کا خاتمہ کر لیا اور رہے ہم۔۔۔۔۔۔۔۔تو ہمارے حصے میں تیری دید کی حسرت آئی۔ہمارا ملک اسلحے اور منشیات سے بھر گیااور فرقہ بندی سے بھی۔آج عالم یہ ہے کہ فرقہ پرستی کا یہ عفریت خود اپنے مالکوں ہی کو پہچاننے سے انکاری ہے۔

جب طالبان سے مذاکرات کی بات چلی اور کچھ طالبانی حلقوں سے بھی اس کی تائید آئی تو امریکہ نے ڈرون مار کے حکیم اﷲ محسود کو ہلاک کر دیا۔پاکستانی قوم نے اس ہلاکت پہ یہ سوچنا شروع کر دیا کہ اب اگر ہمیں اپنی بچی کچھی خود مختاری بچانی ہے تو امریکہ کے سامنے کھڑا ہونا پڑے گا۔ جونہی ملک میں امریکہ کے خلاف رائے عامہ ہموار ہونا شروع ہوئی مجھے نہ جانے کیوں یقین تھا کہ اب ملک میں امریکی گماشتے اس اتحاد کو توڑنے کی کوشش کریں گے۔میرے وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کے لئے جماعت اسلامی کے امیر کو مہرے کے طور پہ استعمال کیا جائے گا۔ ایک نجی چینل کے اینکر نے جیسے کرید کرید کے کٹ حجتی کے لئے مشہور منور حسن سے اپنے مطلب کی بات نکلوالی اور پھر جس طرح اس چینل نے اس بیان کو دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کے پیش کیا اس کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔امیر جماعت کے منہ سے جو کہلوایا گیااس نے وطن عزیز میں نہ صرف چالیس ہزار شہدا کے لواحقین کے دلوں کو چھلنی کر دیا بلکہ پاک فوج میں بھی بے چینی کی لہر دوڑا دی۔پاک فوج کا سپاہی پالیسی نہیں بناتا۔پالیسی تو حکومت بناتی ہے جسے عوام منتخب کرتے ہیں۔ فوج کے افسران اور جوان ان پالیسیوں کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی فوج کا دستور ہے۔ فوج میں بھلے ہی لوگ ایک اچھے کیرئر کے لئے شامل ہوتے ہوں لیکن بیس ہزار کے لئے گولی کے آگے چھاتی تاننا کافی مشکل کام ہوتا ہے۔فوج کی تربیت اس نہج پہ کی جاتی ہے کہ ہم اﷲ کے دین کی سر بلندی کے لئے لڑتے ہیں۔ہم اپنے وطن کی حفاظت کے لئے لڑتے ہیں۔ ہم اپنی قوم کے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے لڑتے ہیں۔ ہم اس لئے لڑتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ہماری عزتیں محفوظ رہیں۔یہ ہماری بدقسمتی کہ ہم ان کے لئے بھی لڑتے ہیں جو قاتلوں،ڈاکوؤں،بھتہ خوروں،بینک ڈکیتیاں کرنے والوں اور دشمن کے اشارہ ابرو پہ اپنے ہی ملک کے اثاثے تباہ کرنے والوں کو شہیدکہتے ہیں ۔

منور حسن نے فرمایا کہ پاک فوج کے سپاہیوں کی شہادت پہ سوالیہ نشان ہے۔اس بیان پہ سوائے نواز لیگ تو قانون کی طرح خاموش رہی لیکن فوج اور ملک کی چھوٹی بڑی ساری سیاسی پارٹیوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔فوج کا رد عمل حق بجانب تھا۔ کوئی کسی کو گالی دے ،کسی کی نیت پہ شک کرے، کسی سے اس کے جینے کا مقصد چھین لے۔اسے یہ طعنہ دے کہ تمہاری جنگ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے دین کی سر بلندی کے لئے نہیں بلکہ تم تو کرائے کے فوجی ہو تو اسی طرح کا رد عمل بنتا ہے ۔اس کے مقابلے میں ایک کرائے کے قاتل کو ،ریاست کے دشمن کو ،معصوموں اور بے گنا ہوں کے قتل کا حکم دینے والے کو،جماعت اسلامی کے پرانے دوست اور ساتھی کرنل امام کے سینے میں خود گولیاں مارنے والے کواگر آپ شہید قرار دیں گے تو حضور والا ! لوگوں کو یاد ضرور آئے گا کہ پاکستان بنتے سمے بھی آپ نے اس کی مخالفت کی تھی۔اس وقت بھی آپ نے اسی طرح امت مسلمہ کی آرزؤں اور امنگوں کے خلاف دشمنوں کا ساتھ دیا تھا۔ مذہب کی محبت میں لوگوں نے آپ کو معاف کر دیا تھا۔ پھر آپ نے اسی فوج کی چھتری تلے البدر اور الشمس بھی بنائی تھیں اور پھر یہ آپ ہی تھے جنہوں نے ایک نیم ملا کی چھتری تلے اس ملک کو ایک لا متناہی عذاب میں مبتلا کیا تھا۔ آج ہم جو کچھ بھگت رہے ہیں یہ آپ اور آپ کے اسی مربی ہی کا پھیلایا ہوا گند ہے جسے آج قوم کے سپوت اپنی جانیں دے کے صاف کر رہے ہیں۔ بجائے اس کے آپ اس پرامن ملک کو عذاب میں مبتلاء کرنے پہ شرمندہ ہوتے۔آپ نے تو انتہاء ہی کر دی۔زمین میں فساد پھیلانے والا ،اپنا ذاتی لشکر تشکیل دینے والا،بینک لوٹنے والا اور اغواء برائے تاوان میں براہِ راست ملوث شخص تو آپ کے نزدیک شہید ہے لیکن اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا کے لئے اپنی جانوں کو قربان کرنے والوں کے مرنے پہ سوالیہ نشان۔ حضور آپ کی اس حرکت پہ سوالیہ نشان بھی شرمندہ ہے کہ میں کس احسان ناشناس شخص کے ہاتھوں استعمال ہوا۔

فوج کے ترجمان کا بیان بر محل تھا لیکن اس میں منور حسن سے معافی کا تقاضا؟ اس کی شاید ضرورت نہیں تھی۔ ایک تو اس لئے کہ جاہلوں سے مخاطب ہونے کا ایک طریقہ قرآن نے کھول کے بیان کیا ہے کہ جب وہ تم سے مخاطب ہوں تو انہیں کہو کہ تمہیں سلام ہے۔جاہل ہونے کا اعتراف محترم امیر جماعت اسلامی نے خود اسی اینکر کے سامنے بارہا کیا کہ اس پہ رائے کوئی عالم ہی دے سکتا ہے جبکہ میں عالم نہیں ہوں۔ دوسرا یوں کہ یہ سارا کیا دھرا آپ کا اپنا ہے۔ آپ ہی نے بطور ادارہ یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم چوروں کی بھی حمایت کریں گے اگر وہ جمہوری طریقے سے برسر اقتدار آئیں۔ شہیدوں کے ساتھ اس طرح کے مذاق اب آپ کو برداشت کرنے پڑیں گے۔کاش منور حسن عالم ہوتے تو انہیں خبر ہوتی کہ جہاد کی تعریف کیا ہے؟ مسلم ریاست کی مرضی اور منشاء کے خلاف اس ریاست میں جنگ کرنا،لوگوں کو قتل کرنا خصوصاََ ان لوگوں کو جو نہ اس ملک کی پالیسیاں بناتے ہوں اور نہ ہی وہ کسی بھی طرح کی جنگ میں ملوث ہوں کسی طور جہاد کی تعریف پہ پورا نہیں اترتا۔جب جہاد نہ ہو تو پھر وہ فساد ہوتا ہے اور فسادی کو کتا کاٹ لے یا کوئی کافر اس کا سر قلم کر دے اسے شہید نہیں کہتے ۔اس کے لئے خس کم جہاں پاک کا محاورہ بولا جاتا ہے۔اسلام کو اپنی سیاست کے لئے استعمال نہ کریں۔یہ ممکن ہے یہاں خلقِ خدا کو آپ گمراہ کر سکیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ کل آپ نے اﷲ کے حضور بھی پیش ہونا ہے اور وہاں اﷲ کی آیات کو سستے داموں بیچنے پہ آپ سے باز پرس بھی ہو سکتی ہے۔وہاں یہ چار دن کی شہرت آپ کے کسی کام نہیں آئے گی۔آپ اور آپ کے یہ جہادی وہاں سوائے افسوس کے شاید اور کچھ نہ کر سکیں گے ۔

آج جماعت اسلامی کی شوریٰ کا اجلاس تھا اور ان سے امید تھی کہ وہ اپنے امیر کی اس علمی غربت کو جہاں سے چھپانے کی کوئی کوشش ضرور کریں گے لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔اس پہاڑ سے جو چوہا برآمد ہوا وہ عذرِ گناہ بدتر از گناہ تھا۔ لیاقت بلوچ صاحب نے فرمایا کہ فوج سیاست میں حصہ لینے سے اجتناب کرے۔کوئی پوچھے کہ آپ کسی سے اس کی زندگی کا مقصد چھیننے کی کوشش کریں۔آپ اسے اس کی لازوال قربانیوں کی وراثت چھین لیں ۔آپ کسی کا گلہ کاٹ لیں اور اسے حکم ہو کہ اس کے منہ سے سسکی بھی برآمد نہ ہو۔حضور ایسا ممکن نہیں۔ماؤں کے یہ لاڈلے سپوت اپنی جانوں کے نذرانے نہ پیش کرتے تو اس وقت آپ بجائے قوم کو گمراہ کرنے کے کسی قاتل یا غاصب کی اوطاق کے باہر بیٹھے قہوے کا بندوبست کر رہے ہوتے۔

منور حسن صاحب!آپ نے یہ بیان دے کے قوم کے بنتے اتحاد کو بھی پارہ پارہ کیا ہے۔ قوم اس ڈرون حملے پہ تقریباََ اس نتیجے پہ پہنچ چکی تھی کہ اب ہمیں امریکہ اور اس کی بد معاشیوں سے جان چھڑانی ہے لیکن آپ کے اس بیان نے اس اتحاد کو بھی پارہ پارہ کر دیا۔ امریکہ اور اس کے حواری خوش ہیں کہ انہوں نے اصل مسئلے سے قوم کی توجہ ہٹا لی ہے۔ آپ کے اس بیان نے ان مردہ گھوڑوں میں بھی نئی جان ڈال دی ہیامریکہ جن کا خدا اور مربی ہے۔ جو پہلے منہ چھپاتے پھر رہے تھے اب اپنے اپنے بلوں سے باہر آ کے اپنی اپنی دموں پہ کھڑ ے ہو کے ناچ رہے ہیں۔منور حسن صاحب ! حکومت اور ریاست کا فیصلہ تھا کہ وہ طالبان سے مذاکرات کرے گی۔حکیم اﷲ مارا گیا تو قوم سوچ رہی تھی کہ امریکہ ہمارے ملک میں امن کا دشمن ہے۔ قوم اس بات پہ بھی متحد تھی کہ امریکہ کو اب جھنڈی کرانا ہی ہو گی لیکن آپ اور آپ کے یار غار کے بیان سے امریکہ تو مکھن سے بال کی طرح نکل گیا اور اب ہم "کوا حلال ہے کہ حرام "کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ منور حسن صاحب! امریکہ آپ کا ،ڈیزل والی سرکارکا ،نجی چینل کا جس نے اس رائی کو پہاڑ بنایا اور پاکستان میں اپنے گماشتوں کا مشکور ہے۔ ویل ڈن ! مسٹر منور حسن
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268818 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More