شبیرآصفؔ شہرِ عزیز مالیگاؤں کے
شعری و ادبی افق کا ایک معتبر اور مشہور و معروف نام ہے۔ آپ کاآبائی وطن
ناسک ہے۔ جہاں ۱۹۴۷ء کو آپ کی ولادت ہوئی ۔ ابتدائی اور ثانوی تعلیم آپ نے
وہیں پائی ، بعدہٗ پیشہ وارانہ تعلیم کے لیے مالیگاؤں کا رخ کیا ۔ ۔ تعلیم
کی تکمیل کے بعد مالیگاؤں کی میونسپل پرائمری اسکول میں ملازمت مل گئی اس
طرح آپ نے ناسک سےمالیگاؤں میں مکمل طور پر بود و باش اختیار کرلی۔
مالیگاؤں کے علمی و ادبی اور مخصوص ثقافتی ماحول میں آپ کا ذوقِ شعری
پروان چڑھنا شروع ہوا۔ جس کے نتیجے میں آپ نے ۱۹۷۵ء میں باضابطہ شعر گوئی
کا آغاز کیا۔اردو زبان و ادب اور فارسی شاعری کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا
۔ اردو ادب میں مختلف تحریکات کے زیرِ اثر رونما ہونے والے تغیرات سے بھی
موصوف مکمل طور پر واقف ہیں یہی وجہ ہے کہ اُن کے شعری اظہار میں روایت کی
متوازن پاس داری کے ساتھ ساتھ عصری حسّیت اور مروّج فنّی رجحانات مکمل طور
پر دکھائی دیتے ہیں۔
شبیر آصفؔ صاحب شہرِ عزیزکے وہ فن کار ہیں جن کے روابط اردو دنیا کی قد آور
علمی و ادبی شخصیات سے ہر دور میں اُستوار رہے ہیں۔ آپ کے کلام ملک و
بیرونِ ملک کے مختلف اخبارات و رسائل ،ماہ ناموں اور جرائد کی مسلسل زینت
بنتے رہے ہیں ۔ شعر گوئی کے ساتھ ساتھ نثر کے میدان میں بھی آپ کے قلم نے
خوب جولانیاں دکھائی ہیں ۔ مختلف شعرا و ادبا پر لکھے گئے مضامین آپ کی
سلیس و رواں دواں نثر نگاری کی عمدہ مثالیں ہیں۔ آپ کا سلوب نہایت دل نشین
، شگفتہ، بولتا اور چمکتا دمکتا ہے۔ خاص طور پر آپ نے میرؔ، غالبؔ ، محمد
حسین آزادؔ، کالی داس گپتا رضاؔ، پروینؔ شاکر، جاوید ناصرؔ اور بعض معاصر
فن کاروں پر مضامین لکھے ہیں جو آپ کے عمیق مطالعے کے غمّاز ہیں۔
۱۹۹۰ء میں آپ کی غزلوں اور نظموں کا پہلا مجموعہ " مٹّی کے حوالے " کے نام
سے شائع ہوکر مقبولیت پاچکا ہے۔ "مٹّی کے حوالے"کو مہاراشٹر اسٹیٹ اردو
اکیڈمی نے اوّل انعام سے نوازا تھا۔ جب کہ اُس زمانے میں مالیگاؤں کے کسی
شاعر کو یہ امتیاز حاصل نہ ہوا تھا۔ "مٹّی کے حوالے" کے بعض اشعار ایسے
مقبولِ عام ہوئے کہ زباں زدِ خاص و عام ہوکر اب اُن کی حیثیت ضرب المثل کی
بن چکی ہے ، مثلاً : ؎
یہ بات میں نے بڑے احترام سے کی ہے
کہ ابتداے سخن تیرےنام سے کی ہے
نہ جانے کون دعاوں میں یاد رکھتا ہے
میں ڈوبتا ہوں تو دریا اُچھالتا ہے مجھے
یہ برگ و بار یوں ہی نہیں لہلہائے ہیں
پیڑوں نے موسموں کے بہت دُکھ اُٹھائے ہیں
اس طرح کے زندہ ، سچّے اور مقبولِ عام اشعار قلم بند کرنے والے مالیگاؤں
کے اِس فن کار کا دوسرا شعری مجموعہ "مُسافر خواب لکھتا ہے" اس وقت میرے
مطالعہ کے میز کی زینت اور میری تبصراتی کاوش کاعنوان ہے ۔ اپنے شعری
مجموعے "مُسافر خواب لکھتا ہے"کو ماں کی یاد میں ، شریکِ حیات کے نام اور
لخت ہاے جگر کے لیے کرتے ہوئے شبیر آصفؔ نے جو اشعار لکھے ہیں اُن سے اِن
ہستیوں کے تئیں آپ کی پُرخلوص محبت و الفت اور والہانہ اُنسیت مترشح ہوتی
ہے۔ شبیر صاحب کی زندگی کا مکمل اثاثہ سخن وری ، سخن سنجی اور سخن فہمی ہے
، حیاتِ مُستعار کے اِس پورے سرماے کو کس قدَر خوبی سے اپنی شریکِ حیات کے
نام کیا ہے کہ بے ساختہ دل سے داد نکلتی ہے ؎
اِک سخن ہی مرا اثاثہ ہے
وہ بھی مَیں تیرے نام کرتا ہوں
ماں کی یاد میں لکھا گیا شعر بھی بڑا خوب ہے ، یقیناً ماں کا وجودِ مسعود
بڑی برکتوں اور رحمتوں کا موجب ہوتا ہے۔ جب وہ نہیں رہتی تو ہمیں اُس کی
اہمیت اور ضرورت کا بہ شدّت احساس ہوتا ہے ؎
اِک ذات میں برکتیں بہت تھیں
اب قدر سمجھ میں آئی ماں کی
ملازمت سے سبک دوشی کے کے بعد شبیر آصفؔ صاحب عمر کی جس منزل سے صبر و
استقلال کے ساتھ گذر رہے ہیں وہ اُن کے بچّوں کی محبّت آمیز رفاقت اور
شراکت کا ایک حصّہ ہے ۔ جس کا اُنھیں اعتراف بھی ہے ، وہ اپنے لخت ہاے جگر
کے لیے کہتے ہیں کہ ؎
عمر کے سفر میں اب تم مرا سہار اہو
مَیں تمہارے قدموں سے اپنی راہ چلتا ہوں
پاکیزہ اور سچّے جذبات کو شعری پیکر میں ڈھالنے والےحُرمتِ حرف کے حامل
شاعرِ محترم کی اُجلی اور روشن فکر سے مملو زیرِ نظر شعری مجموعے میں ایک
حمد ، دس نظموں کے علاوہ ستّر کے قریب غزلیں اور سَو سے زائد ثلاثیاں شامل
ہیں ۔ نیزمجموعے کے اخیر میں اولین شعری کاوش "مٹّی کے حوالے " سے چند
منتخب اشعار بھی خوانِ مطالعہ پر سجادئیے گئے ہیں۔ بالکل آخر میں ایک نظم
"دوسری دُعا " ہے اور یہ بھی "مٹّی کے حوالے" سے ماخوذ ہے۔
"مُسافر خواب لکھتا ہے"کا دریچۂ سخن روایت کے مطابق حمدِ باریِ تعالیٰ سے
وا ہوتا ہے۔ حمد میں شاعر نے پروردگارِ عالم جل شانہٗ کے بے پایاں رحم و
کرم کا اظہار کیا ہے ۔ اللہ عزو جل کی صفات اور اس کی قدرت کا بیان انسانی
ادراک سے ماورا بل کہ وراء الورا ء ہے ، لیکن وہ ہماری شہ رگ سے بھی قریب
تر ہے ۔ وہ اپنے بندوں پر اس قدَر مہربان ہے کہ کرۂ ارض پر بسنے والے
انسانوں کی قوت و استعداد کے مطابق موسموں کو بدلتا رہتا ہے ؎
محبتوں کا صِلہ بے مثال رکھتا ہے
وہ میرا مجھ سے زیادہ خیال رکھتا ہے
گو ، میرے حیطۂ ادراک میں نہیں آتا
مگر وہ دل سے تعلق بحال رکھتا ہے
زمیں کہیں کی بھی ہو ، آسماں کہیں کا بھی ہو
وہ موسموں کو مرے حسبِ حال رکھتا ہے
حمدِ باریِ تعالیٰ کے بعد شاعرِ موصوف نے اپنی محبتوں کا نذرانہ بارگاہِ
سالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں مکمل حزم و حتیاط کےساتھ نچھاور کیا ہے ۔
شبیر آصفؔ یوں تو بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں لیکن نعت سے اُن کو عشق کی
حد تک لگاو ہے ، میری اُن سے شناسائی بھی نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ
وسلم ہی کے حوالے سے ہوئی۔ موصوف نعتیہ کلام کے اس قدَر دل دادہ اور شوقین
ہیں کہ جہاں بھی کوئی نعتیہ شعر سنتے ہیں اُسے اپنے حافظے کی ڈائری میں
محفوظ کرلیتے ہیں ۔ میں نے بہت کم ایسے شعرا دیکھے ہیں جنھیں شبیر آصفؔ کی
طرح کثیر تعداد میں نعتیہ اشعار ازبر ہیں۔
"مُسافر خواب لکھتا ہے" میں شامل نصف درجن نعتیں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ
وسلم سے آپ کی محتاط وارفتگی کا خوب صورت اشاریہ ہیں ۔ ان نعتوں میں آپ نے
ذات و صفاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، مقامِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،
سیرتِ طیبہ ، شفاعتِ عظمیٰ اورشہرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کی
خواہش جیسے موضوعات کو بڑی خوش سلیقگی سے برتا ہے۔ اِس مجموعے میں شامل ایک
نعت غالبؔ کی مشہور فارسی نعت ؎
حق جلوہ گر زِ طرزِ بیانِ محمد است ﷺ
آرے ، کلامِ حق بہ زبانِ محمد است ﷺ
کا منظوم ترجمہ ہے جسے کافی مقبولیت حاصل ہوئی ، اِس کا مطلع نشانِ خاطر
کریں ؎
حق جلوہ گر ہے طرزِ بیانِ رسول سے (ﷺ)
اللہ بولتا ہے زبانِ رسول سے (ﷺ)
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی بات ہی نرالی ہے ، آپ نے
دنیا میں پائی جانے والی ہر قسم کی نفرتوں ، کدورتوں اور عصبیتوں کا مکمل
طور پر صفایا فرمادیا ، حسب و نسب ، ذات پات اور رنگ و نسل کی تمام تر
تفریقوں کو آپ نے مٹا ڈالا۔ اگر ہم سرکار ﷺ کے اُسوہ پر عمل کریں تو دونوں
جہاں کی سرخروئی ہمارا مقدّر بن جائے گی ؎
حسب نسب کی مٹادیں تمام تفریقیں
فروغِ عشق پہ مامور ہے پیامِ رسول ﷺ
ہم اپنے دشتِ سفر میں بھٹک نہیں سکتے
نشانِ منزلِ مقصود ہے نظامِ رسول ﷺ
دیگر نعتیہ کلام سے چند منتخب اشعار نشانِ خاطرکریں ، جو شاعر کی نبیِ کریم
ﷺ سے پُرخلوص محبت کے آئینہ دار ہیں ؎
اُمتِ شافعِ محشر میں ہوں
مجھ کو امیدِ شفاعت ہے بہت
ناموافق ہی سہی آب و ہواے عالم
لہلہاتا ہے خیابانِ رسولِ اکرم ﷺ
نعت ہر درد کا مداوا ہے
دردِ دل کی دوا کروں مَیں بھی
وضو بغیر نہ آئے زباں پہ نامِ رسولﷺ
پڑھوں میں آخری سانسوں تلک سلامِ رسول ﷺ
حمد و نعت کے بعد ایک دُعا بھی اِس مجموعے کی زینت ہے ، جس کا مطلع تو بڑا
ہی پُرکیف ہے ۔ دُعا کا یہ انداز عشقِ رسول ﷺ کا والہانہ اظہاریہ اور
بارگاہِ مصطفوی ﷺ کے تئیں شاعر کی خوش عقیدگی کا حسین مظہر ہے۔ دیگر اشعار
بھی ایسے ہیں کہ نہاں خانۂ دل سے آمین کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، مطلع
دیکھیں ؎
کونین کا مدعا عطا کر
یارب، غمِ مصطفیٰ عطا کر
بعد ازاں "مُسافر خواب لکھتا ہے" میں نظموں کا سفر شروع ہوتا ہے ، شریکِ
حیات کے ساتھ پروینؔ شاکر، کالی داس گپتا رضاؔ اور ارشد نظرؔ (مرحوم و
مغفور) کے لیے لکھی گئیں نظمیں شاعر کی اِن شخصیات سے جذباتی وابستگی اور
مخلصانہ شیفتگی کا عکس ہیں۔
میاں بیوی کے رشتے کی پاکیزگی اور اہمیت و نزاکت سے کون واقف نہیں؟ ہماری
اُردو شاعری میں بہت کم شعرا ایسے ہیں جنھوں نے اپنی شریکِ حیات کو اپنی
شاعری کا موضوع بنایا ہے۔شبیرآصفؔ صاحب کا یہ اختصاص ہے کہ انھوں نے اپنی
شریکِ حیات کے لیے دو خوب صورت نظمیں لکھی ہیں۔اُن کی یہ نظمیں اپنی زوجۂ
محترمہ کے لیے مخلصانہ رویّوں کی غمازی کرتی ہیں ۔ دونوں نظموں سے چند
اشعار ؎
تو شریکِ حیات ہے میری
تجھ سے تکمیل ذات ہے میری
دل تری آرزو سے زندہ ہے
تو رہے تو حیات ہے میری
میں مہکتا ہوں تیری خوشبو سے
تو بناے صفات ہے میری
دل تری نذر کو مَیں لایا ہوں
یہی کُل کائنات ہے میری
۔۔۔۔۔
باغ ہوتا نہ باغباں ہوتا
تو نہ ہوتی تو مَیں کہاں ہوتا
تو جو رودادِ دل نہیں سنتی
قصۂ غم کہاں بیاں ہوتا
پروین ؔ شاکر، کالی داس گپتا رضاؔ اور ارشدنظرؔ کے لیے لکھی گئیں نظمیں بھی
خاصے کی چیز ہیں۔ یہ نظمیں سلاست و روانی ، جذبہ و تخیل اور زبان وبیان کے
اعتبار سے بھی بلند رُتبہ ہیں ۔ کالی داس گپتارضاؔ کی یاد میں لکھی گئی نظم
کا یہ شعر غور طلب اور محلِّ نظر ہے کہ ؎
پیکرِ خاک میں فرشتہ تھا
ہم نے اُس کو پرکھ کے دیکھا تھا
نظموں کے بعد زیرِ نظر مجموعے کا سلسلہ غزلوں کی سمت دراز ہوتا ہے ۔
پروفیسر رشیداحمد صدیقی نے غزل کو اُردو شاعری کی آبروٗ کہا تھا ۔ لیکن
عصری منظر نامے پر جب ہم غزلیہ شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو اس قول کا
اعتبار ہمیں کم ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔ ویسے فی زمانہ بعض شعرا ایسے ہیں جن
کے کلام سے غزل کی دل کشی اور دل رُبائی کی خوب صورت پرچھائیاں اُبھرتی ہیں
۔ شبیر آصفؔ کا شمار بھی ایسے ہی شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے غزل کے وقار کو
قائم رکھا ہے۔ آپ کاکلام نام نہاد جدیدیت اور فیشن زدگی کی وبا سے پاک و
صاف ہے۔ آپ کی غزلوں میں محض لفظی بازی گری نہیں بل کہ اُن میں حُرمتِ حرف
کا لحاظ رکھتے ہوئے اصلاحِ فکر کا ایک پیغام دینے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے
۔ جذبہ و تخیل کی مناسب آنچ، شعری اظہار میں روایت کی پاس داری ، عصری
حسّیت کی آمیزش ، مروّج فنّی رجحانات کا رچاو، معنوی تہہ داری اور اظہار کی
سادگی آپ کی غزلوں کی خصوصیات ہیں ۔ آپ کی غزلوں میں داخلیت اور خارجیت کا
ایسا خوب صورت انسلاک ہے کہ اکثر اشعار قاری کو کیف آگیں جذبات سے ہم کنار
کردیتے ہیں۔ "مُسافر خواب لکھتا ہے "سے چند نمایندہ اشعار نقل کرنے سے قبل
شبیرآصفؔ کے معاصر جناب سلیم شہزادؔ کے اِن جملوں کو پیش کرنا غیر مناسب نہ
ہوگا : "جن غزل گو فن کاروں کے یہاں روایت کا مطالعہ اور اس کا احترام باقی
ہے اور جو عصری فنّی اور فکری تقاضوں کی اہمیت سے بھی واقف ہیں اُن کے
غزلیہ اظہار میں گُم ہوتی تخئیلی انفرادیت کی چنگاریاں ضرور چمکتی نظر آتی
ہیں ۔ جو کبھی کبھی لپک کر شرارے بھی بن جاتی ہیں۔ ایسے فن کاروں میں
شبیرآصفؔ کا نام شمولیت کا مستحق ہے کہ اِن کی غزل حافظؔ و سعدیؔ وغیرہ سے
لے کر میرؔ و غالبؔ اور جوشؔ و اقبالؔ اور زیبؔ و بانیؔ کی روایت اور فکری
جدّت کے ساتھ یوں سامنے آتی ہے کہ غزل گو شعرا کے اچھے خاصے ہجوم میں انھیں
پہچانا جاسکتا ہے۔"
تلاشِ گوہرِ نایاب تو سبھی کو ہے
مگر اُترتا نہیں کوئی گہرے پانی میں
نہ جانے شمعِ شبِ غم میں تاب تھی کیسی
ہوا بھی ہانپ گئی روشنی بجھانے میں
(ہوا بھی ہانپ گئی بالکل اچھوتی ترکیب واہ کیا کہنے)
سرک ہی جاتی ہے سر سے رِدا قناعت کی
کہاں کہاں میں سمیٹوں ضرورتیں اپنی
رات آنکھوں میں خواب کیا سلگے
بڑھ گئی اور تیرگی مجھ میں
میں قلم پر کوئی قدغن نہیں لگنے دیتا
روز ہوتی ہے مری خود سے لڑائی کتنی
غالبؔ سے شبیرآصفؔ بے پناہ متاثر ہیں ۔بہ قول سلیم شہزاد:" جوشِ جنونِ
جستجو انھیں غالبؔ کی کثیر پہلو شخصیت اور کثیر معنی شاعری کا ایسا گرویدہ
بنائے ہوئے ہے کہ اٹھتے بیٹھتے اُس کے نام کی مالاجپتے نہیں تھکتے۔"یقیناً
غالبؔ کے اردو فارسی کلام ، سوانح غالبؔ اور مجموعی طور پر غالبیات کے
حوالے سے شبیر صاحب کا مطالعہ قابل رشک ہے۔
غالبؔ پر اُن کے وسیع مطالعے کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا معلوم نہیں ہوتا
کہ شہرِ عزیز مالیگاؤں میں وہ "غالبؔ شناسی" کے باب میں اپنی ایک منفرد
شناخت رکھتے ہیں۔ "آشوبِ غالبؔ" کے تناظر میں اُن کی چوبیس اشعار پر مشتمل
غزل "مُسافر خواب لکھتا ہے" کی ایک انفرادی چیز بن گئی ہے۔ جو لوگ غالبؔ ،
غالبؔ کے عہد اور اس کے عہد میں رونما ہونے والے واقعات وغیرہ سے واقف ہیں
اگر وہ اس غزل کو پڑھیں تو اُن کو کافی لطف آئے گا اور ایسا محسوس ہوگا
جیسے یہ غالبؔ کی خود کلامی ہے ؎
صورت ہی نہیں سکونِ جاں کی
یہ خاک ہے کون سے جہاں کی
ہموار نہ رہ سکی زمیں بھی
حسرت ہی رہ گئی مکاں کی
تغئیر پسند ہے طبیعت
اور چال ہے وہی آسماں کی
کب دستِ کرم دراز ہوگا
کب آنکھ اُٹھے گی مہرباں کی
کب دھوپ سفر کااَنت ہوگا
کب چھاؤں ملے گی سائباں کی
کب وقت ٹلے گا کربلا کا
کب پیاس بجھے گی تشنگاں کی
پوچھا بھی نہیں کبھی کسی نے
کیا قیمت ہے متاعِ جاں کی
اِس عہدِ ناشناسِ فن میں
کیا قدرہے حرفِ شائیگاں کی
اسی قبیل کی ایک غزل بہ عنوان "شعرآشوب" بھی بڑی مزے دار ،پُرلطف اور حقیقت
نگاری کا مرقع ہے۔ جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ "شعر آشوب" کی زیریں رَو میں
ہلکا ہلکا طنز بھی پنہاں ہے ۔ غزل کے فارم میں لکھا گیا یہ کلام بھی شبیر
آصفؔکی ایک جداگانہ کوشش ہے ؎
گر چہ قدرِ سخن کی قلّت ہے
شعر گوئی مری ضرورت ہے
نامناسب سلوک شعراسے
اور ناشاعروں کی عزت ہے
میں نے سودانہیں کیا فن کا
یہ مرے عہد کی امانت ہے
شعر حرفِ دُعا میں ڈھلتے ہیں
شاعری بھی مری عبادت ہے
اس مجموعے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ شبیر آصفؔ نے اس میں اپنی لکھی ہوئی
ثلاثیاں بھی شامل کی ہیں ۔ویسے اُن کی زنبیل شاعری میں اس قدَر ثلاثیاں ہیں
کہ صرف ثلاثیوں کا ایک علاحدہ مجموعہ ترتیب دیا جاسکتا ہے ۔ بہ ہر کیف! اِس
مجموعے میں شامل ثلاثیاں بہت خوب ہیں۔ ثلاثیوں کے گوشے کا سرنامہ موصوف نے
"دیکھویہ میرے زخم ہیں" دیا ہے اور سرنامے کے اوپر جو ثلاثی درج ہے ، اس کے
مطالعے سے ثلاثیوں کا پس منظر مکمل طور پر سامنے آجاتا ہے ؎
دل سے نالے نکل ہی جاتے ہیں
زخم مِلتے ہیں جو عزیزوں سے
وہ ثلاثی میں ڈھل ہی جاتے ہیں
شبیر آصفؔ کی ثلاثیوں کے موضوعات ہمہ رنگ ہیں۔ ان میں عزیزوں سے ملی محبت
کاا ظہار بھی ہے اور زخم کابیان بھی، اَخلاقی اَقدار کی پامالی اور اُن سے
پیدا شدہ ناگفتہ بہ حالات کا تذکرہ بھی ، اور اِصلاحِ معاشرہ کےلیے طنز و
نشتریت کے کاٹ دار وار بھی،۔۔۔ چند ثلاثیاں نشانِ خاطر کریں ؎
زر ہی سے ہے منزلت بشر کی
اِس علم و ادب کے شہر میں بھی
کیا قدر ہے صاحبِ نظر کی
۔۔۔۔
انصاف کی آنکھ بے بصر ہے
جس نے مرا حق غصب کیا ہے
وہ سب کی نظر میں معتبر ہے
۔۔۔۔
سوچو تو بہت بُرا ہوا ہے
تم نے بھی دُکھ دیا ہے اُس کو
پہلے ہی سے جو دُکھا ہوا ہے
۔۔۔۔
حد ہوگئی بد معاملت کی
جس کے لیے سب سے دشمنی لی
اس نے ہی مری مخالفت کی
مجموعے کے اخیر میں "مٹّی کے حوالے" سے ماخوذ دوسری دُعا بھی شامل کی گئی
ہے ۔ اِس دُعا میں شاعراپنی عجز بیانی کو اعجاز بیانی ہوجانےکی تمنّا کرتا
ہے ، لیکن وہ کچھ سوچ کر غیر مطمئن ہوجاتا ہے۔ وہ سوچنے لگتا ہے اگر ایسا
ہوبھی گیا تو آخر کیا حاصل ہوگا ؟؟ شاعر کو اپنی آخرت کی بھلائی کا خیال ہے
، اس لیے وہ اِس دُعا میں دنیاوی عزت و شہرت سے دُور اپنے لیے ایسی خواہش
کرتا ہے کہ چاہے میرا نام حرفِ غلط کی طرح مٹ جائے لیکن جب میدانِ محشر میں
مَیں ربِ کریم کے حضور لایا جائوں تو اُس کے پسندیدہ بندوں میں میرا نام
بھی شامل ہو۔
مختصر یہ کہ جناب شبیر آصفؔ کی شاعری حُرمتِ حرف کی حامل ، خلوص و للہیت کی
آئینہ دار، خیالات کی سچائی سے آراستہ ، جذبات کی پاکیزگی سے مزیّن ، انسان
دوستی اور اصلاحِ معاشرہ کے لیے ایک پیغام کا درجہ رکھتی ہے ۔ لفظی بازی
گری کے اِس ماحول میں ایسی سچّی اور اچھی شاعری کا یقیناً خیر مقدم کیا
جانا چاہیے ۔ ڈاکٹر الیاس وسیمؔ صدیقی کے اِن جملوں پراپنے تبصراتی اظہاریے
کو ختم کرتا ہوں :" مُسافر خواب لکھتا ہے کے مطالعےکے بعد مَیں پوری ذمہ
داری ، پورے یقین اور دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی دعاوں کی آمیزش کے ساتھ
کہہ سکتا ہوں بل کہ کہہ رہا ہوں کہ اِن شاء اللہ دنیاے شعر وادب کی زبان سے
بے ساختہ یہ الفاظ نکلیں گے کہ بہت عرصے بعد سچّی شاعری پڑھنے کومل رہی ہے۔
اللہ قبولیت کا معاملہ فرمائے۔(آمین) |