’’مفتی اعظم علامہ مصطفی رضا
نوری بریلوی کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ ‘‘دراصل عزیزِ گرامی ڈاکٹر
محمد حسین مشاہدؔرضوی(مالیگاؤں ) کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جس پر انھیں پی
ایچ ڈی کی سند عطا ہوئی ہے۔اس عنوان پر تحقیق کرنے کی ترغیب انھیں حضرت
امینِ ملت پروفیسر سید محمد امین قادری زیب سجادہ خانقاہ عالیہ قادریہ
برکاتیہ ، مارہرہ مطہرہ سے ملی تھی۔مفتیِ اعظم قدس سرہٗ کے نام لیوا اور اس
نام سے فائدہ اٹھانے والے تو بے شمار ہیں لیکن ان کی شخصیت اور ان کے
کارناموں پر سنجیدہ علمی کام کرنے والی کی بہت کمی ہے۔وہ بڑ ی مبارک ساعت
تھی جب مفتیِ اعظم کے پیر خانے کے سجادہ نشین حضرت امینِ ملت سے ترغیب پاکر
ڈاکٹر مشاہدرضوی نے اس عنوان پر کام کرنے کا بیڑا اٹھایا۔مختلف چھوٹی موٹی
ناکامیوں ، الجھنوں اور دانش گاہوں کے شعبہ ہاے اردو سے متعلق پیچیدہ
دشواریوں سے گذر کر آخر کار انھیں ڈاکٹر شرف الناہر صاحبہ ، صدر شعبۂ
اردو ڈاکٹر رفیق زکریا وومن کالج کے روپ میں ایک ایسے نگراں میسر ہوئیں جب
کے اہلِ خانہ کا خانقاہِ برکاتیہ سے دیرینہ ربط و تعلق ہے۔ نگراں کی شفقتوں
نے ڈاکٹر مشاہدرضویکے لیے اس مشکل موضوع کو آسان اور حوصلہ بخش
بنادیا۔دونوں ہماری مبارک باد اور دعاؤں کے مستحق ہیں۔
مصنف نے ایک ایسی شخصیت کی نعتیہ شاعری پر تحقیقی کام کا ارادہ کیا جنھیں
نعتیہ شاعری کی وراثت اپنے نابغۂ روزگار والدِ محترم امام احمدرضا قادری
برکاتی قدس سرہٗ سے ملی اور خود اپنے جذبۂ شوق اور قوتِ بازو سے بھی انھوں
نے اس قیمتی جائداد میں اضافہ کیا ۔مفتیِ اعظم قدس سرہٗ کی شخصیت کے بے
شمار پہلو ہیں۔فقیہ ، عالم ، مصنف ، مدرس ، مرشدِ طریقت ،مدبر ، منتظم
اورصاحبِ دل …اور ان سے متعلق مختلف مناصب مستزاد……
حضور مفتیِ اعظم قدس سرہٗ اپنی نعتیہ شاعری کا ذکر بھی عمداً کسی سے نہیں
کرتے تھے۔ڈاکٹر مشاہدؔرضوی نے ان کی نعتیہ شاعری پر کام کرنے کا حوصلہ کیا
اور اس کے نتیجے میں چار سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل یہ کتاب اپنے ہاتھوں
میں ہے جو تحقیق اور تنقید دونوں کا حق اداکرتی ہے۔
مصنف نے شاعرکی نعتیہ شاعری کے بیا ن کی تمہید میں خودصنفِ نعت پر بہت
ضروری معلومات جمع کرکے انھیں سلیقے کے ساتھ پیش کردیا ہے ۔صنفِ نعت کی
اردو شاعری میں جو اہمیت اور وقعت ہے ، اسے اساتذہ کے کلام اور نقادوں
اورعالموں کی آرا کے ساتھ مبسوط انداز میں پیش کرکے صرف طلبہ کے لیے ہی
نہیں ، پڑھے لکھوں کے واسطے بھی بہت سی مفید باتیں جمع کردی ہیں ۔شعبہ ہاے
اردو میں صنف نعت کو دوسری اصناف کے مقابلے میں ذرا کج نگہی سے دیکھنے کا
فیشن عام تھا۔الا ماشاء اللہ۔اور یہ بات بہت پرانی نہیں ہے۔ بیس پچیس برس
قبل تک بہت سے ناقدین کے یہی تاثرات تھے۔ڈاکٹر مشاہدرضوی قابل مبارک باد
ہیں کہ انھوں نے اس اعلیٰ و ارفع صنف کی ادبی ،صنفی اور تاریخی اہمیت کا
ایسا مفصل اور مضبوط بیان کیا ہے کہ اس صنف کو کم نگاہی سے دیکھنے والوں کو
اب غالبؔ کا یہ مصرع بنایا جاسکتا ہے ع
کہ چشمِ تنگ شاید کثرتِ نظّارہ سے وا ہو
حضرت نور یؔ بریلوی قدس سرہٗ کے زمانے میں نعت گوئی کامعیار ، اُن کا تصورِ
عشق ، اُن کے کلام میں عقیدۂ توحید ، خصائصِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،حزم
و احتیاط،… کلامِ نوریؔ میں صنائع و بدائع ، عروض کی چاشنی ، ترکیب سازی ،
پیکر تراشی، خیال آفرین یاور اس کے ساتھ ساتھ کلامِ نوریؔکاپیرایۂ زبان و
بیان ،محاورات کا استعمال ، تغزل، مشکل پسندی ، اصلاحی شاعری ، عربی کی
آمیزش اور فارسی کا رچاو، ہندوستانی عناصر اور مقامی بولیوں کا استعمال
وغیرہ عنوانات وغیرہ کے تحت اس کتاب میں ایک ایسی مجمل تفصیل ملتی ہے۔ جس
میں ایک نظم و سلیقہ تو ہے ہی، سات ھہی ساتھ کڑھے ہوئے تحقیقی اور تنقیدی
ذہن کی کارفرمائی صاف نظر آتی ہے۔شاعرانہ کمالات کے بعد مصنف نے نعتیہ
شاعری میں شاعر کا مقام و مرتبہ متعین کرنے کی کوشش کی ہے اور اس مقام پر
مصنف نے ضبط و تناسب کا بہت خیال رکھا ہے اور پوری کوشش کی ہے کہ اس علمی
اور تحقیقی کام پر ذاتی عقیدت حاوی نہ ہو۔میرے محدود مطالعے کے مطابق حضور
مفتیِ اعظم کی نعتیہ شاعری پر اتنا مبسوط ، منظم اور منصوبہ بند کام پہلے
نہیں ہواتھا۔
مفتیِ اعظم جیسے حسین و جمیل ، صبیح و شکیل تھے اور ان میں جو سادگی اور
سادگی میں جو تہہ داری تھی ، وہی ان کی نعت کا بھی رنگ ہے اور اس رنگ کے ہر
شیڈ کو ڈاکٹر مشاہدرضوی نے خوب پہچانا ہے خوب جانچا پرکھا ہے اور پھر آپ
کے سامنے صاف ستھری علمی زبان میں پیش کردیا ہے ۔مصنف کو یہ امتیاز حاصل ہے
کہ وہ اپنی تحقیق میں جن نتائج تک پہنچتے ہیں ،اپنی قاری کو ان نتائج سے
قائل ہی نہیں مطمئن بھی کرتے ہیں ۔
حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ کے پیر خانے یعنی خانوادۂ برکات مارہرہ مطہرہ اور
اوپر کے بزرگوں میں تسلسل و تواتر کے ساتھ ادیب و شعرا ہوئے ہیں جنھوں نے
مختلف علوم اور شاعری کے حوالے سے عربی ، فارسی، برج ، اردھی ،ہندی اور
اردو میں گران قدر سرمایہ چھوڑا ہے۔یہ سرمایہ پچھلے پانچ سو برسوں پر محیط
ہے۔’’نہج البلاغہ‘‘ کو شامل کرلیں تو پچھلے چودہ سو برسوں پر… لیکن اس وقت
اس کی تفصیل کا موقع نہیں ہے۔مفتیِ اعظم قدس سرہٗ کے پیرو مرشد عارف باللہ
خاتمِ اکابرِ ہند،قطبِ مارہرہ سید شاہ ابوالحسین احمد نوری الملقب بہ
’’میاں صاحب قبلہ‘‘علیہ الرحمۃ والرضوان اپنا تخلص نورؔفرماتے تھے۔اپنے
مرشد کے نام اور جزاور تخلص کی اتباع میں ہی حضور مفتیِ اعظم قدس سرہ ٗنے
اپنا تخلص نوریؔ رکھا۔مرشد کے خاندانی بزرگ حضرت صاحبِ عالم مارہروی کے
غالبؔ مرشد کہہ کر اپنے خطوط میں مخاطب کیا کرتے تھے۔ |