یہ ستر کی دہائی کے اوائل کی بات
ہے ، اگر چہ اس وقت اتنا شعور نہیں تھا ، سکول کی ابتدائی جماعتوں میں زیر
تعلیم تھے مگر سقوط ڈھاکہ اورانتخابات ذہن کے نقشہ پر کسی حد تک محفوظ ہیں۔
ان انتخابات کی سب سے دلچسپ یادوں میں پیپلز پارٹی کے قائدبھٹو کے حق میں
اور جماعت اسلامی کے امیر سید مودودی کی مخالفت میں گلیوں ،بازاروں اور
تھڑوں پر ہونے والی نعرہ بازی اور بحث و مباحث شامل ہے۔ سب سے زیادہ زور
جماعت اسلامی کو پاکستان کے قیام کے مخالف ہونے پر لگایا جاتا تھا ۔ میں
اکثر اپنے بڑوں سے پوچھتا کہ ابھی ساری قوم کہہ رہی تھی کہ مشرقی پاکستان
میں جماعت اسلامی کے سینکڑوں کارکنوں نے پاک فوج کے شانہ بشانہ اپنی جانیں
قربان کرکے پاکستان کو متحد رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے تو پھر یہ لوگ
پاکستان کے قیام کے کیسے مخالف ہوگئے۔ ذرا کچھ بڑے ہوئے تو سکول میں پڑھائی
جانے والی معاشرتی علوم میں قیام پاکستان سے پہلے اور بعد کے واقعات موجود
ہوتے تھے مگر سب کچھ موجود ہونے کے باوجود کہیں یہ پڑھنے کو نہ ملا کہ یہ
لوگ قیام پاکستان کے مخالف ہیں۔ کالج دور اور پھر مسلسل سیاسی ،سماجی اور
صحافتی زندگی بہت کچھ پڑھنے اور سننے کو ملا۔ پاکستان کی تاریخ کے ہر نازک
دور میں جماعت اسلامی کے کارکن سب سے آگے نظر آئے مگر قوم ان کی کیوں مخالف
ہے مجھے سمجھ نہیں آ سکا۔ ایک بات ضرور نظر آئی جماعت اسلامی کے لوگ ہر
مصیبت میں فوج کے شانہ بشانہ نظر آئے۔افغان وار اور کشمیر میں بھی ان لوگوں
کا ایک منفرد کردار قوم کے سامنے آیا ۔ میرے لئے وہ حیران کن لمحہ تھا اس
وقت کے امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد کا بیٹا خود افغان جنگ میں شہید
ہوا۔ تاریخ کے ایک معمولی طالب علم کے طور پر جب میں جماعت اسلامی کی تاریخ
پر نظر ڈالتا ہوں تو جماعت کی فوج سے دوری کا آغاز پرویز مشرف کے دور میں
شروع ہوا تو ایسا لگا کہ ہمیشہ سے فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے والی جماعت
اسلامی اور فوج میں دوریاں پیدا ہو رہی ہیں جس کی وجہ جماعت اسلامی کا
مضبوط موقف ہے تو احساس ہوا کہ جماعت اسلامی کو فوج کی بی ٹیم کہنے والے اس
کے کردار سے واقف نہیں ۔ جب جماعت اسلامی نے فوج کی حمائت کی اس وقت بھی
پاکستان کی بقاء اولین ترجیح تھی اور جب دوریوں کا آغاز ہوا تو اس وقت بھی
جماعت کی ترجیح پاکستان کی بقا ء ہی تھی۔ابھی چند دن پہلے جماعت اسلامی کے
موجودہ امیر سید منور حسن پر ایک ایسے بیان پر ہر طرف سے تنقید اور تبریٰ
شروع ہوئی تو مجھے بچپن کے وہ تمام نعرے یاد آگئے جو اس وقت جماعت اسلامی
اور اس کے سید پر لگائے جاتے تھے، آج پھر سید زادہ ہی ایک بار پھر ان نعروں
کی زد پر آ گیا مگر میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب میں نے موازنہ کیا تو
یہ سارے وہی لوگ ہیں جو اس وقت تھے ،پیپلز پارٹی ،اے این پی، مخصوص طبقات
کے علمائے کرام اور نام نہاد دانشور ۔اب صرف اضافہ ایم کیوایم کا ہوا ہے
لیکن نظریات ان لوگوں کے جیسے ہی ہیں۔
میں ایک عام آدمی سوچنے پر مجبور ہوں کہ جماعت اسلامی پر پابندی لگانے اور
اسے ملک دشمن قرار دینے کا مطالبہ کون کررہا ہے۔ پیپلز پارٹی ۔۔۔۔۔۔۔ جس نے
پاکستان میں الذوالفقار بنا کر دہشت گردی کی بنیاد رکھی اور فوج کے خلاف
اشتہار تک چھپوائے، اے این پی ۔۔۔۔۔۔۔ جسے ملکی قانون کے تحت ملک دشمن قرار
دے کر پابندی لگائی گئ، مخصوص علمائے کرام جن کا کام صرف ہر حکمرانوں کی
تحسین ہی کر نا ہوتی ہے،ایم کیو ایم ۔۔۔۔۔۔۔ جس کے لیڈر آرمی آفیشلز کے قتل
میں ملوث رہے ہیں۔ میری رائے میں تو یہ ساری بحث اس اصل ایشو سے توجہ ہٹانے
کے لئے شروع کی گئی جس کی آج قوم کو ضرورت ہے اور جس کی وجہ سے آج ہم مصائب
اور مشکلات کا شکار ہیں ، پچاس ہزار بے گناہوں کی قربانی دے کر بھی ہم ہی
ملزم
مجرم ہیں ۔ وہ ہے ایک پرائی جنگ جو ہمارے حکمرانوں نے ہمارے سر ڈال دی ہے۔
روزنامہ دنیا کی 14 نومبر 2013 کی اشاعت میں سید منور حسن کے انٹرویو کا
اقتباس پڑھیے اور خود فیصلہ کیجیئے کیا جماعت اسلامی واقعی غدار ، ملک دشمن
اور فوج مخالف ہے" انہوں نے ایک سوال پرکہا کہ میرے جن الفاظ کو بنیاد بنا
کر جماعت اسلامی اور مجھے ٹارگٹ کیا گیا ان الفاظ اور میری جانب سے اٹھائے
جانے والے سوال کو سننے کی زحمت بھی نہیں کی گئی جس میں میں نے مفتیان اور
علماء کرام سے امریکہ کا ساتھ دینے والوں کے متعلق رائے طلب کی تھی۔ البتہ
اس رجحان سے ہم محظوظ ضرور ہوئے ہیں کہ جو کل تک بیرونی ایجنڈا پر ہماری
مسلح افواج کو ٹارگٹ کرتے اور کوستے نہیں تھکتے تھے وہ بھی ہمارے خلاف فوج
کی ہمنوائی کرتے نظر آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کی اپنی ایک
تاریخ ہے ہم نے تو کل مشرقی پاکستان میں بھی مضبوط پاکستان کیلئے اپنی فوج
کا ساتھ دیا تھا اور آج بھی ہمارا عزم ہے کہ ملکی استحکام اورقومی مفادات
کے تحفظ کیلئے حکومت اور قومی اداروں کے ساتھ کھڑے ہونگے لیکن وہ لوگ جنہوں
نے ایک بے بنیاد بات کو جواز بنا کر ہمیں ٹارگٹ کیا آنے والے حالات اور
معاملات میں وہ کب تک فوج کی مدح سرائی کریں گے اس پر نظرر کھنے کی ضرورت
ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج کو روگ آرمی قرار دینے ’ فوج کے خلاف ہرزہ
سرائی کرنے والے اور اس کے کردار پر انگلیاں اٹھانے والے کیا اب راہ راست
پر آگئے اب کب تک اس رائے پر قائم رہیں گے ’ یہ دیکھنا ہوگا۔" |