جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا تو
تمام اہم شخصیات جلسہ گاہ سے مکمل سیکورٹی پروٹوکول میں نکلیں. بینظیر بھٹو
گاڑی کے سن روف سے باہر نکل کر جلسہ کے شرکاء کو ہاتھ ہلا رہی تھیں کہ ایک
منظم منصوبے کے تحت انکو قتل کر دیا گیا. بی بی کے علاوہ قریب 20 اور لوگ
بھی شہید ہوے. اس واقع کی خبر ملتے ہی ملک کے تمام شہروں میں مظاہرے شروع
ہو گئے جس میں قریب 100 مزید لوگ زندگی کی بازی ہآر گے. ہزاروں دوکانیں اور
گاڑیاں جلا دی گئیں.
اہم بات یہ ہے کے سندھ میں کم از کم ١٥ ریلوے سٹیشن جلا دے گے اور کئی میل
پر محیط ٹرین کی پٹری بھی اکھاڑ پھینکی گئی. کیا یہ سب کسی کرین یا بھاری
مشینری کے بغیر ممکن تھا؟ تو کیا بی بی کے قتل کے غصّے میں پی پی کے
کارکنان تمام بھاری مشینری ساتھ لے کر نکلے تھے؟ یا پی پی ک کارکنان کے
بھیس میں کوئی اور پیشہ ور مجرم تھے جنکا مقصد کسی خفیہ ہاتھ کو خوش کرنا
تھا اور پاکستان کو کمزور؟
28 دسمبر 2009
١٠ محرم کے جلوس میں بم دھماکا ہوتا ہے، قریب ٢٠ لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو
بیٹھتے ہیں اور ایک بڑی تعداد زخمی ہوتی ہے. جلوس کے باقی شرکاء احتجاج
کرتے ہیں، انتظامیہ کے خلاف نعرے لگتے ہیں، پولیس کی چند گاڑیاں نظر آتش کر
دی جاتی ہیں اور اس دوران چند اور لوگ زخمی ہوتے ہیں.
اچانک کالے کپڑوں میں ملبوس لگ بھگ ٢٠٠ افراد مختلف انواؤ اقسام کے ہتھیارو
ں ا ور کیمیکل سے لیس ہوکر مارکیٹوں پر دھاوا بول دیتے ہیں. لوٹ مار کے بعد
قریب ٣٠٠٠ دوکانیں جلا دی جاتی ہیں اور کباڑی مارکیٹ خاک کے ایک ڈھیر میں
تبدیل ہوجاتی ہے.
وہ کون لوگ تھے؟ بظاہر وہ سب شیعہ تھے جو جلوس میں بم پھٹنے سے برہم ہو
احتجاج کے طور کر یہ سب کر رہے تھے. لیکن جلوس میں شریک شیعہ حضرات اپنے
ساتھ کیمیکل اور آتش گیر مادہ لے کر کیوں آئے تھے؟ کیا انکو پہلے سے پتا
تھا کہ جلوس میں بم دھماکا ہوگا اور ہم شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے؟
قارئین کی ایک بڑی تعداد اس بات سے واقف ہے کے جلوس میں شریک افراد مذہبی
جذبات سے تو لیس ہو سکتے ہیں لیکن ہتھیاروں اور کیمیکل سے نہیں. تو پھر یہ
کون لوگ تھے؟ اور انکا مقصد کیا تھا؟ کیا یہ ممکن نہیں کے کسی بڑی طاقت نے
پہلے بم دھماکہ پلان کر کے بعد میں دوسری ٹیم کے ذریعے شہر کراچی کو مفلوج
اور تباہ کرنا تھا؟
16 نومبر 2013
١٠ محرم کا جلوس شہر راولپنڈی کے فوارہ چوک میں داخل ہوا. جلوس سے قریب آدھ
کلومیٹر آگے ١٠٠-٢٠٠ شرپسند جو کالے کپڑوں میں ملبوس ہیں، ایک مسجد کا
دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوتے ہیں، چھری اور گولی سے مسجد میں موجود لوگوں
کو قتل اور زخمی کر کے مسجد کو آگ لگا دی جاتی ہے. مسجد کے ساتھ ساتھ مدینہ
مارکیٹ میں ١٥٠-٢٠٠ دوکانیں بھی جلا دی جاتی ہیں. چونکے نماز جمہ کا وقت
تھا تو تمام یا بیشتر دوکانیں بینڈ تھیں، عینی شاہدوں اور دکان داروں کے
مطابق کالے کپڑوں میں ملبوس شرپسندوں کے پاس cutters اور مختلف اقسام کے
کیمیکل موجود تھے جن سے اس بات کو یقینی بنایا گیا کے آگ سرعت سے پھیلے اور
زیادہ سے زیادہ نقصان ہو. چونکے موبائل سروس معطل تھی تو ایمبولینس اور
فائر بریگیڈ کو وقت پر پہنچنے میں دقت ہوئی.
شیعہ سنی فساد کو یقینی بنانے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کے گۓ .
١. ١٠٠-٢٠٠ شرپسند کالے کپڑوں میں ملبوس تھے
٢. فوارہ چوک میں موجود جلوس کو اطلاع دی گئی کہ جلوس کی قیادت والی کمیٹی
پر وہابیوں نے حملہ کر دیا ہے
٣. جلوس میں غصّہ یقینی تھا اور کمک کے طور پر والی پولیس کی نفری کو تشدد
کا نشانہ بنایا گیا
٤. ایمبولینس اور فائر برگیڈ کی گاڑیوں کو آگ بجھانے سے روک دیا گیا
گزشتہ تین روز سے فیس بک اور چند اردو انگلش بلاگس پر چند شیعہ دوست مسجد
کے امام کو اس واقعے کا ذمہ دار قرار دے کر انجانے میں تمام دہشت گردی شیعہ
برادری کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں. جبکہ نہ ہی امام مسجد نے حضرت امام حسین
کی شان میں گستاخی کی اور نہ ہی فساد برپا کرنے والے شیعہ تھے. بلکہ یہ وہی
ملک دشمن عناصر تھے جنہوں نے اوپر بیان کیے گئے واقعات میں دہشت گردی کی.
یہ تینوں واقیات اس ایک سلسلے کی چند کڑیاں ہیں جو پاکستان کو انتہائی
کمزور کرنے کی سازش ہے. شیعہ سنی کا فساد کرا دینے سے پاکستان کو بغداد
بنانا بہت سہل ہو جاتے گا. فیصلہ آپ نے کرنا ہے کسی اور نے نہیں، کے آپ
دشمن کی اس سازش میں شریک ہونا پسند کریں گے یا پاکستان کی حفاظت میں شریک
ہوکر ایسی سازشوں کو ناکام بنائیں گے؟
|