منور حسن صاحب کا سوال

منور حسن صاحب نے ایک سیدھا سا سوال اٹھایا تھا کہ ’’ امریکی فوجی مرے تو وہ جہنم واصل ہوجائے اور جو اس کا ساتھ دے اس کو میں کیا کہوں ؟ یہاں میرے سامنے بھی ایک سوالیہ نشان کھڑا ہوجاتا ہے۔‘‘ یہ بات انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہی تھی۔ اس میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ فوج کا جوان شہید نہیں ہے یا انہوں نے کوئی فیصلہ سنا دیا۔ دراصل یہ تو ہر صاحب فکر کے سوچنے کی بات ہے۔

جماعت اسلامی اس وقت الزامات کی زد میں ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے سلیم صافی کے ایک پروگرام میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ایک اور سوال اٹھایا تھا اور اس سوال کے یار لوگوں نے سید صاحب کا فتویٰ یا فیصلہ بنا کر چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ الحمد اللہ یہ طوفان تو وقت کے ساتھ ساتھ تھم ہی جائے گا۔ البتہ افسوس ہوتا ہے ان لوگوں کی ذہینت پر جو کہ خود کو روشن خیال، لبرل، اور اظہار آزادی رائے کے علمبردار کہتے ہیں لیکن یہاں ان کے سارے نام نہاد فلسفے دھرے رہ گئے اور ہر جانب سے تنگ نظری، جنونیت کے مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ کہاں تو آزادی رائے کو اتنی اہمیت دی جاتی ہے کہ ناموس رسالت ؐ تک پر بات کرلی جاتی ہے، انبیاء کرام کی شان میں گستاخی روا، دین کے احکامات پر اعتراضات اٹھانا بجا،گستاخانہ خاکوں کو تک کو نہ صرف برداشت کیا جاتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی یہی درس دیا جاتا ہے کہ میاں دقیانوسیت چھوڑو اور اظہارِ رائے کی آزادی کا احترام کرو۔ خود یہ سیکولر لبرل طبقہ اپنے لیے ہر بات کو جائز اور روا سمجھتا ہے۔ لیکن منور حسن صاحب کا ایک سوال اٹھانا ان کو ناگوار گزر گیا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ فوج سے مخلص اور وفادار تو یہ لو گ بالکل بھی نہیں ہیں ہاں چونکہ اس وقت معاملہ جماعت اسلامی اور منور حسن صاحب کا ہے اس لیے سارے شور مچا رہے ہیںیعنی یہ معاملہ حبِ علیؓ کا نہیں بلکہ بغض معاویہؓ والا ہے۔ اس ملک میں فوج کے جوانوں کو کراچی اور کوئٹہ میں سیکولر جماعتوں کے مسلح جتھوں نے قتل کیا، پاک فوج کو پنجاب فوج اور ناپاک فوج کہا گیا، یہی سیکولر طبقہ ضیاء الحق پر تنقید کرتے ہوئے فوج کو کیا کیا نہیں کہہ چکا ہے لیکن اس وقت سارے معصوم بنے ہوئے ہیں۔

جو لوگ اس موضوع کو لیکر جماعت اسلامی پر تنقید کررہے ہیں ان سے کچھ سوال پوچھنا چاہوں گا۔ امید ہے کہ وہ ٹھنڈے دل سے ان پر غور کریں گے اور جواب دیں گے، ایم کیو ایم نے جماعت اسلامی پر پابندی لگانی کی ناکام کوشش کی پہلا سوال ان سے ہے۔ نوے کی دہائی میں فوجی آپریشن کے دوران ایم کیوایم کے جو آرمی اور پولیس کے ہاتھوں مارے گئے کیا وہ شہید ہیں ؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ وہ شہید ہیں تو پھر ان کو شہادت کے منصب تک پہنچانے والے آرمی اور پولیس کے افسران جو اس آپریشن کے دوران قتل کیے گئے ان کو کیا کہا جائے گا؟ اگر وہ افسران بھی شہید ہیں تو پھر ایم کیو ایم کے لوگ کیسے شہید ہیں؟

نواب اکبر بگٹی کو آج پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور طبقہ فکر شہید کہتا ہے۔ جب کہ وہ بھی پاکستان آرمی کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ اب ذرا سوچ کر بتایئے کہ اگر نواب اکبر بگٹی شہید ہیں تو پھر کوئٹہ میں آئے روز قتل ہونے والے فوج اور لیویز کے اہلکار وں کے قتل پر ان کو کیا کہا جائے گا؟

ذوالفقار علی بھٹو کو بھی شہید کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو شہید ہیں تو پھر ضیاء الحق صاحب کو کیا کہا جائے؟

سوالات بہت تلخ ہیں اور مجھے ایک سو ایک فیصد یقین ہے کہ اس کے جواب میں سوائے جماعت اسلامی پر تنقید اور ادھر اُدھر کی باتوں کے کوئی معقول تبصرہ نہیں آئے گا۔لیکن بقول شاعر
ہم پہ الزام تو ویسے بھی ہے ایسے ہی سہی
نام بدنام تو ویسے بھی ایسے ہی سہی

جماعت اسلامی نے وطن پر آنے والی ہر مشکل کے وقت پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر وطن کا دفاع کیا ہے۔ بنگلہ دیش میں بیس ہزار شہادتیں اس بات کا ثبوت ہیں اور بنگلہ دیش میں پاکستان اور پاک فوج کا ساتھ دینے کی سزا جماعت اسلامی کے ارکان و کارکنان آج تک بھگت رہے ہیں، آج بھی وہاں کی عدالتوں میں ان پر پاک فوج کا ساتھ دینے کے مقدمات بنائے جارہے ہیں اور ان کو سزائے موت سنائی جارہی ہے۔

آزاد کشمیر میں پاک فوج کے جوانوں کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی اور جمعیت کے کارکنان بھی شہید ہوتے آئے ہیں اور جماعت نے کبھی بھی اس کا کوئی صلہ نہیں مانگا۔ جماعت اسلامی پر تنقید کرنے والے ذرا اپنے گریبان میں تو جھانکیں اور یہ بتائیں کہ خود انہوں نے پاک وطن اور پاک فوج کا کس قدر ساتھ دیا ہے؟

منور حسن صاحب نے ایک سیدھا سا سوال اٹھایا تھا کہ ’’ امریکی فوجی مرے تو وہ جہنم واصل ہوجائے اور جو اس کا ساتھ دے اس کو میں کیا کہوں ؟ یہاں میرے سامنے بھی ایک سوالیہ نشان کھڑا ہوجاتا ہے۔‘‘ یہ بات انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہی تھی۔ اس میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ فوج کا جوان شہید نہیں ہے یا انہوں نے کوئی فیصلہ سنا دیا۔ دراصل یہ تو ہر صاحب فکر کے سوچنے کی بات ہے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520212 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More