حضرت امام حسین شہید نے کوفہ کا سفر اختیار کرتے وقت
فرمایا تھا کہ میں عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے یا فساد پھیلانے کے لئے
نہیں جارہا ، بلکہ میرا مقصد امتِ مسلمہ کی اصلاح اور اپنے نانا پیغمبر
اسلام ﷺ کی سنت پر چلنا ہے ۔حضرت امام حسین نے ظلم و جبر کے آگے جھکنے پر
موت کو ترجیح دی ۔آ ج بھی اسلام مخالف قوتیں سرگرم ہیں اور مسلمانوں کو(خدا
نخواستہ) ختم کرنے کی سازشیں کر رہی ہیں ۔ عصر ِ حاضر یہ تقاضا کر رہا ہے
کہ جس طرح حضرت امام حسین شہید نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تبلیغ
کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے، آج ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر اہل ِ ایمان
کو عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج ہمیں ایک ایسے معاشرے کی ضرورت ہے جہاں کوئی
طاقتور کسی کمزور پر ظلم نہ کر سکے ، جہاں برائی کو اچھائی پر ترجیح نہ دی
جائے، جہاں یتیموں کا حق نہ کھایا جائے جہاں مظلوموں کو انصاف ، بھوکوں کو
روٹی ، پیاسوں کو پانی اور ظالموں کو سزا ملتی ہو ۔
چند روز قبل پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں
یوم عاشورہ کے جلوس کے دوران مذہبی فرقہ وارانہ تصادم کے نتیجے میں شر
پسندوں نے ایک منظم منسوبہ بندی سے ایک درجن کے قریب افراد قتل اور سوسے
زائد زخمی کیا ۔ شدید کشیدگی کے باعث 40 گھنٹے سے زائد دیر تک درجنوں
مقامات پر کرفیو نافذ کیا گیا جبکہ3 دن تک موبائل فون سروس بھی بند رکھی
گئی ۔ صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے سیکیورٹی فورسز سڑکوں پر موجود
رہیں، راول پنڈی میں عاشورہ کے جلوس کے موقع پرشر پسند عناصر نے فوارہ چوک
پر موجود مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے والوں پر حملہ کیا ،شر پسندوں نے
میڈیا کے نمائندوں کے علاوہ پولیس اہلکاروں کو بھی تشدد کا نشانہ بنانے سے
گریز نہ کیا جبکہ پولیس اہلکاروں سے بندوقیں چھین کر قتل عام کی بھی
اطلاعات ملی ،صورتحال قابو سے باہر ہونے پر انتظامیہ نے رینجرز کے ساتھ فوج
کی مدد بھی طلب کی گئی۔ انتظامیہ نے صورتحال قابو میں رکھنے کے لیے شہر کے
داخلی و خارجی راستوں کو بھی کنٹینر لگاکر بند کردیا ، کرفیو کی سختی کا
عالم یہ تھاکہ شہریوں کو ہدایت کی گئی وہ فجر کی نماز بھی گھروں میں ہی ادا
کریں۔تین دن تک 40 لاکھ سے زائد باشندوں کو آزادانہ گھر سے باہر نکلنے کی
اجازت نہ دی گئی۔ دوسری جانب پنڈی واقعہ کو بنیاد بنا کر فرقہ واریت کو
پنجاب کے دوسرے شہروں تک پھیلایا گیا توکراچی، ملتان ،فیصل آباد،گلگت،
بہاولنگر سمیت کچھ مزید شہروں میں تصادم کے بعدفوج اور رینجرزکی مدد سے
حالات کو کنٹرول کیا گیا ۔تاحال دونوں فریق اس واقع کی ذمہ داری قبول نہیں
کر رہے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں ۔جہاں شیعہ حضرات کا کہنا
ہے کہ مسجد کے سپیکر سے شر انگیز گفتگو کی گئی اور زائیرین پر مسجد کے اندر
سے پتھراؤ کیا گیا وہاں سنی حضرات ایسے کسی بھی عمل کی نفی کرتے ہوئے
دکھائی دیتے ہیں اور خطباء جمعہ کی ریکارڈنگ بھی سناتے ہیں جس میں شر پسندی
کی کوئی بات سامنے نہیں آئی ۔ سنی مسلک سے تعلق کے حمایتی نوجوانوں کی طرف
آواز اٹھائی جا رہی ہے کہ ملک میں موجود 2 فیصد شیعہ حضرات تمام بڑے شہروں
میں دیگر 98 فیصد لوگوں کو سکیورٹی رسک قرار دیتے ہوئے حکومت اور دیگر
شہریوں کو بے بس کر دیتے ہیں ۔ان تمام الزامات کے باوجود یہ رائے بھی دی
جارہی ہے کہ حکومت مذہبی بنیادوں پر تمام مسالک کے جلسے جلوسوں پر مکمل
پابندی عائد کر دے تو ایسا مسائل سے بچا جا سکتا ہے کیونکہ اس طرح سکیورٹی
رسک بھی کم ہو گا اور عام لوگوں کو مشکلات کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا ۔سانحے
کے بعد نقص امن کے خدشے کے پیش نظر وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں کنٹینر
لگاکر راستے سیل کردیے گئے راولپنڈی کے مکین پریشان رہے کہ انتظامیہ نے
ٹرانسپورٹ کاکوئی متبادل انتظام نہیں کیا۔شہرمیں امن اومان کے مسئلہ کے پیش
نظر اسلام آباد کے راستے بھی سیل کیے گئے ۔اس واقع کے دوران اور بعد میڈیا
کے کردار کو جہاں حکومت نے پسندیدہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے قابل ستائش قرار
دیا وہاں مختلف مکاتب فکر کی جانب سے میڈیا کو بکاؤاور ڈرپوک بھی قرار
دیاگیا ۔تنقید کرنے والوں کویہاں دیکھنا یہ بھی ہو گا کہ جب ملک میں کوئی
بھی ایسا ہولناک واقع پیش آتا ہے تو اس پر میڈیا لائیو کوریج دکھائے تب بھی
آواز اٹھائی جاتی ہے کہ یسے واقع کو دکھا کر ملک میں مزید بد امنی پھیلائی
جا رہی ہے اور جب راولپنڈی سانحے پر میڈیا نے تھوڑی سی خاموشی اختیار کی کہ
مزید منافرت نہ پھیلے تو بھی الزامات و اعتراضات کی بوچھاڑ کر دئی گئی کی
یہ کنٹرولڈ میڈیا ہے ۔دوسری جانب سوشل میڈیا نے جہاں دنیا بھر میں جلد
معلومات کی ترسیل اور واقعات سے آگاہی پھیلانے میں کردار ادا کیا وہاں اس
واقع کے بعد مختلف گروپس میدان میں آگئے ہیں کوئی شر پسندی پھیلانے کی دعوت
دے رہا ہے تو کوئی سب پر مٹی ڈالنے کی بات کر رہا ہے۔ایسے میں لگتا ایسے ہے
کہ ان حادثات سے ملک کے شہری تقسیم در تقسیم کا شکار ہو رہے ہیں اور اندر
ہی اندر نفرت کا لاوہ پالتے ہوئے دکھتے ہیں۔اس المناک واقع سے قبل 10,9
محرم کے قریب آتے ہی لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ،کراچی ،ملتان ،فیصل
آباد اور آزاد کشمیر سمیت ملک بھر میں سکیورٹی کے انتظامات انتہائی سخت
رکھے گئے ۔ ملک بھر میں پولیس اور سکیورٹی فورسز چوکس رہیں۔ لاہور، اسلام
آباد، پشاور اور مظفرگڑھ سمیت مختلف شہروں میں دہشت گردی کے منصوبے ناکام
بنا ئے گئے۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء اتحاد، بھائی چارئے ،یکجہتی
اور امن وامان کے فروغ کے لیے اقدامات کریں کیونکہ اسلام ہمیں محبت امن اور
یکجہتی کا ردرس دیتاہے کچھ ملکی و غیر ملکی عناصر پاکستان کا امن تباہ کرکے
اپنے عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں ان کو ناکام کرنا ہو گا۔ سکیورٹی کے اداروں
کو بھی اپنے فرائض مزیدبہتر طور پر ادا کرنے کی ضرورت ہے اور سیاستدانوں سے
گزارش کے فرقہ واریت کو مزید بڑھنے سے روکنے کیلئے اپنی زبان کچھ عرصہ تک
بند ہی رکھیں تو سب کیلئے بہتر ہے ۔اس سانحہ میں تاجر برادری کی جو املاک
اور دکانیں جلاکرشہر میں مزید تنگدستی اور معاشی حالات خراب کی گئی اس پر
تاجر برادری کی بلاتخصیص مالی امداد کی جائے تاکہ وہ اپنا کاروبار جاری رکھ
سکیں اور اس واقعے میں ملوث جو بھی افرادہیں انکوویڈیوز اور فوٹیج سے مدد
لے کرپکڑا جائے اور کیفرقرار تک پہنچایا جائے اور مجرمانہ غفلت کے مرتکب
انتظامی افسران کے خلاف بھی کاروائی جائے ۔ |