یہ حقیقت ہے اگر تھر کول منصوبہ کامیاب ہو
جائے تو ملک میں لوڈ شیڈنگ ختم ہوسکتی ہے۔ سندھ میں تھر پارکر ضلع میں 175
ارب ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔یہ دنیا کے پانچویں بڑے ذخائر ہیں ۔یہاںسے
کوئلہ نکالنے اور بعد میں بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے
دوسرے دورِ حکومت میںشروع ہوا۔جیسے ہی پی پی پی حکومت کا خاتمہ کیا گیا ،
تھر کول پروجیکٹ اور کیٹی بندر منصوبے بھی حیلے بہانے ختم کر دیے گئے ۔یہی
وجہ ہے کہ ملک اس وقت توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے۔پیپلز پارٹی کی
قیادت نے ملک میں توانائی بحران کے الزامات نواز شریف اور ان کی جماعت پر
لگانے شروع کیے یہاں تک کہ سندھ میں کوئی بھی جلسہ یا کانفرنس ہو اور اس
میں تھر کول منصوبے کا الزام نواز لیگ قیادت پر نہ لگایا جائے تو وہ جلسہ
یا سیمینار ادھورا سمجھا جاتا تھا۔2008 میں جیسے ہی پیپلز پارٹی کی حکومت
قائم ہوئی تو ایک بار پھر تھر کول منصوبہ شروع کرنے اور توانائی بحران پر
قابوپانے کے اعلان کے ساتھ بجلی پڑوسی ملک کو امپورٹ کرنے کا اعلان کیا گیا
۔2008 سے 2013 تک بالآخر پی پی پی حکومت نے پہلی بار اپنا مقرر وقت پورا
کیا لیکن نہ توانائی بحران ختم ہوا اور نہ ہی بجلی امپورٹ کی گئی ۔سابقہ
وفاقی حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ5 سالوں میں وفاقی حکومت
نے تھر کول منصوبے پر ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا البتہ وفاقی حکومت میں
موجود بیورو کریسی نے آئل مافیا سے ملکر ملک کے اس بڑے منصوبے کو ناکام
کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔سندھ حکومت کے افسران کا کہنا ہے کہ سابق
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اس منصوبے پر بریفنگ کے دوران کبھی جمائیاں لیتے
تو کبھی ان کی آنکھیں بند ہو جاتیں جو علامت تھیںکہ وزیر اعظم صاحب کی اس
عمل میںدلچسپی نہیں ہے۔یہ کوئی ایک بار کا واقعہ نہیں ہے ،اسی طرح کی عدم
دلچسپی کئی بار ظاہر کی گئی۔ نتیجے میں جو اقدامات اور گارنٹی وفاقی حکومت
کو دینی تھی وہ پانچ سالوں میں نہیں دی گئی۔ سابق حکومت کے آخر میں جب
راجہ پرویز اشرف آئے تو انہوں نے تھر کول منصوبے پر بیورو کریسی کی سننے
کے بجائے عملی اقدامات شروع کر دیے لیکن اس وقت تک تھر کول میں سندھ حکومت
کے ساتھ معاہدہ کرنے والی گلوبل مائننگ کمپنی اور دیگر کمپنیز تھر کول
منصوبے کو چھوڑ کر واپس چلی گئیں۔ جب کہ ورلڈ بینک اور دیگر ڈونر اداروں نے
بھی اپنے ہاتھ پیچھے کر لیے صرف اینگرو کمپنی رہ گئی جس کے بارے میں بھی
رائے ہے کہ وہ بھی حالتِ افسوس میںہے۔اس دوران سندھ حکومت کی جا نب سے تھر
سے کوئلہ نکالنے کے لیے کول اینڈ انرجی محکمہ الگ سے بنایا گیا جب کہ تھر
کول بورڈ کا وجود بھی رکھا گیا جس کے چیئر مین وزیر اعلیٰ سندھ بنے جب کہ
وفاق کاصرف ایک نمائندہ وفاقی وزیر بجلی و پانی تھا، باقی تمام اراکین سندھ
کے رکھے گئے۔سندھ حکومت نے اس منصوبے کے لیے شروع میں تو اچھی شہرت رکھنے
والے افسران رکھے بعد میںیہ سلسلہ قائم نہ رہ سکا ۔یوں سندھ حکومت کے 5
سالوں میں 30 ارب روپے سے زائد کے اخراجات آگئے ہیں لیکن وہاں پر صرف
اسلام کوٹ تک روڈ ہی تعمیر ہو سکا ہے، باقی انفرا اسٹرکچر کے نام پراور بہت
کچھ تو ہوا مگر نہ ایئرپورٹ بن سکا ہے ،نہ ہی پانی اورنہ ہی نیشنل
ٹرانسمیشن کی لائین پہنچائی گئی ہے اگر بجلی کی پیدا وار شروع ہو تو وہ
بجلی نیشنل گرڈ میں کیسے داخل ہوگی اس کے لیے مزید کئی سا ل انتظار باقی
ہے۔حیرت ہے کروڑوں روپے کی رقم فزیبلٹی پر خرچ کی جا رہی ہے، پانی پہچانے
کے لیے پہلے مکھی فرش کینال کے ذریعے منصوبہ تیار کیا گیا پھر اچانک فیصلہ
تبدیل کرکے پھر کروڑوں روپے کی فزیبلٹی تیار کرنے کا پلان تیار کیا گیا کہ
تھر کول کے لیے پانی لیفٹ بینک آئوٹ فال ڈرین(ایل بی او ڈی) سے لی جائے جس
پر اسٹڈی جاری ہے۔ گذشتہ دنوں سندھ حکومت نے کوئلہ نکالنے میں ناکامی پر
محکمہ کول اینڈ انرجی کو ختم کردیا ہے اور اس کے تمام ذیلی ادارے محکمہ
انرجی میں شامل کیے گئے ہیں۔محکمہ انرجی جس کے مشیر مراد علی شاہ ہیں اب
سندھ سے کوئلہ نکالنے کا کام مراد علی شاہ اور ان کے زیر انتظام محکمہ
انرجی کے افسران کے حوالے کیا گیا ہے یاد رہے کہ کول اینڈ انرجی کے وزیر
کاچارج وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے پاس تھا اب کہا جارہا ہے کہ
پانچ سال ضایع کردیے گئے اور30 ارب روپے سے زائد رقم بھی لیکن کوئلے کی ایک
بوری بھی نہیں نکالی گئی۔سندھ میں جامشورو کے مقام پر بجلی گھر ہے جہاں پر
دو یونٹس کو تیل سے تبدیل کرکے کوئلے پر منتقل کیا جا رہا ہے ۔ وزیر اعلیٰ
سندھ قائم علی شاہ نے ان بجلی گھروں کے لیے تھر کول سے کوئلہ خریدنے کی
کوشش کی لیکن بات نہ بنی۔ اب دیکھتے ہیں کہ مراد علی شاہ تھر کول منصوبے کو
کس حد تک کامیاب کر پاتے ہیں۔ ٭…٭…٭ |