سعودی عرب میں غیر ملکیوں کےلیے کفالت کا سسٹم ہے جس کا
مطلب ہے کہ آپ چاہے نوکری کریں یا کاروبار آپکا کوئی نہ کوئی کفیل ہوگا
اورحکومت کفالت کی بنیاد پر آپکو ورک پرمٹ جسکو عربی زبان میں اقامہ کہتے
ہیں جاری کرتی ہے۔سعودی عرب میں کفالت لازمی ہے یہاں تک کہ ایرلائنز بھی
کسی نہ کسی کی کفالت میں ہیں، پی آئی اے کی کفالت بھی سعودی شہری کی
ہے۔اقامے کی پابندی اسقدر سخت ہے کہ آپ سب کچھ بھول سکتے ہیں مگر اقامہ
آپکی جیب میں لازمی ہو، اور اگر ایسا نہ ہوا تو جرمانہ اور جیل کا قیام
لازمی ہے۔ اسکے علاوہ آپ کے اقامہ پر جو پیشہ درج ہے وہی کام کرینگے یعنی
اگر آپ کے اقامہ پر پلمبرکا پیشہ درج ہے تو پلمبر کے علاوہ آپ کوئی اور کام
نہیں کرسکتے۔ ہمارئے ملک سے بہت سارئے پڑھے لکھے لوگ لاکھوں روپے خرچ
کرکےکسی نوکری کے بغیر لیبر کے ویزئے پر جاتے ہیں جسکو عام طور پر آزاد
ویزا کہا جاتا، وہاں پہنچ کر اُنکو لیبرکااقامہ ملتا ہے۔ جس کفیل کے پاس وہ
جاتے ہیں وہ اُنکو کوئی نوکری نہیں دیتا اور پھر جب وہ کہیں کام کرنے کی
کوشش کرتے ہیں تو انکو لازمی اپنا پیشہ تبدیل کروانہ پڑتا ہے، اور اگر ایسا
نہ کریں اور پکڑئے جایں تو جرمانہ اور جیل کا قیام تو لازمی ہے بلکہ کبھی
کبھی سعودی عرب سے اُنکو اُنکے ملکوں کےلیے روانہ کردیا جاتا ہے۔اس مختصر
بات سے میں آپکو یہ سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں کہ سعودی عرب میں ورک پرمٹ
یعنی اقامے میں جو آپ کا پیشہ لکھا ہے اسکے مطابق ہی آپ اہل ہونگے، اگر
سمجھ گے ہیں تو اور نہ سمجھیں ہیں تب بھی یہ لطیفہ پڑھ لیں۔ "ریاض کے چڑیا
گھر میں ایک شیر لایا گیا تو دوسرئے دن اسکے رکھوالے نے اسکو کھانے کو چنے
دیے، شیر حیران تو ہوا مگر چپ چاپ کھاگیا کہ شاید رکھوالا غلطی سے گوشت کی
جگہ چنے لے آیا ہے۔ اگلے دن رکھوالا پھر چنے لےآیا اور شیر نے چپ چاپ
کھالیے مگر جب تیسرئے دن بھی ایسا ہی ہوا تو شیر پہلے تو غرایا پھر رکھوالے
سے پوچھا یہ بتا میں کون ہوں؟ رکھوالے نےجواب دیا تو شیر ہے۔ شیر نے اگلا
سوال کیا کہ کیا تجھ کو پتہ ہے شیر کیا کھاتا ہے؟رکھوالے نے جواب دیا شیر
گوشت کھاتا ہے۔ شیر نے پوچھا تو پھر تو مجھے گوشت کی جگہ چنے کھانے کوکیوں
دیتاہے؟ یہ سنکر رکھوالا مسکرایا اور کہا بیوقوف شیر تو یہاں بندر کے ویزئے
پر آیا ہے اور تیرا اقامہ بندر کاہے شیر کا نہیں، اسلیے تجھ کو کھانے کو
چنے ملتے ہیں۔ پہلے اپنا اقامہ شیر کا کرا وُپھر تجھ کو گوشت ملے گا، اور
ہاں جب تک تیرا اقامہ بندر کا ہےکبھی غرانامت ورنہ ہنٹر پڑینگے، بس چپ چاپ
بندر کی طرح اچھل کود کر اور چنے کہا"۔
الیکشن کا زمانہ تھا اور مسلم لیگ کے جلسوں میں نواز شریف، شہباز شریف اور
باقی مسلم لیگ ن کے قائدین بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے، امن و امان قائم
کرنے،مہنگائی اور بےروزگاری کوختم کرنے کے وعدئے کر رہے تھے۔ نواز شریف نے
5 جون کو وزارت عظمی کا حلف اُٹھایا اور اپنے تمام وعدوں اور انتخابی منشور
کو فراموش کربیٹھے۔صرف پانچ مہینوں میں ہو شربا مہنگائی نے ماضی کے تمام
ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ بجلی پر دی جانے والی سبسڈی ختم کرکے اور پٹرولیم کی
مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام پر مہنگائی کے کوڑئے برسائے گے ہیں۔
پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف جو اب فرعون بن چکے ہیں یہ سننا بھی
گوارہ نہیں کررہے ہیں کہ عوام اُنکے اس فیصلے سے روٹیوں سے محتاج ہورہے ہیں
کیونکہ بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضانے کا اثر زندگی کے ہر
شعبے پر پڑرہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے انتخابی منشور میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ
توانائی کی قیمت میں کمی لائی جائے گی۔ کشکول توڑنے والے پہلے سے بڑا کشکول
لیکر آئی ایم ایف کے پاس چلے گے اور انکی تمام عوام دشمن شرطوں کے عوض اپنا
کشکول بھرلائے، اور اب آئی ایم ایف کی مزید ظالمانہ شرطوں پر عمل کا اقرار
بھی کررہے ہیں۔ ایک طرف زرمبادلہ کے ذخائر چار ارب ڈالر سے بھی کم ہوگے ہیں
تو دوسری طرف روپےکی شرح میں مسلسل کمی ہوری ہے جس کی وجہ سے پیٹرولیم
مصنوعات سمیت ہر درآمدی شے کی قیمت میں خودبخود اضافہ ہوجاتا ہے۔نواز شریف
کے گذشتہ دور حکومت میں بھی اسحاق ڈار وزیر خزانہ تھے اور ان کی ناکام
پالیسیوں کی بدولت ڈالر 55 روپے سے 66 روپے پر پہنچ گیا تھا۔ اُس زمانے میں
ایک کالم نویس نے اُنکو اسحاق ڈالر کے خطاب سے نوازا تھا۔ جنرل مشرف کے
پورئے وقت میں ڈالر 60 روپے سے 62 روپے کے درمیان ہی رہا۔ 2008 سے 2013 تک
زرداری اور اُنکے حواری لوٹ مار کرتے رہے اور ڈالر پانچ سال میں 97 روپےکا
ہوگیا۔ مگر اسحاق ڈار کا کمال ہے کہ اسوقت ڈالر 108 روپے کا ہوگیا ہے۔ فرض
کریں آپ کو کسی کو ایک ڈالر ادا کرنا ہے جو اگر آپ اس حکومت کے آنے سے پہلے
ادا کرتے تو 97 روپے ادا کرتے مگر اب آپ کو ایک ڈالر پر 11 روپے زیادہ ادا
کرنے پڑینگے تو سوچیں کہ اگر اسحاق ڈار کی یہ ہی پالیسیاں رہی تو ہم کو
اربوں روپے بغیر لیے ادا کرنے پڑینگے۔ اس کا لازمی اثر
ملکی معیشت پر پڑئے گا ۔
گیارہ مئی کے انتخابات میں عوام نے یہ سوچ کر نواز شریف کو اکثریت دلائی
تھی کہ نواز شریف مسائل حل کرنے کا وعدہ بھی کررہے ہیں اور انہوں نے ماضی
سے سبق بھی سیکھا ہوگا، مگر افسوس نہ انہوں نے کوئی وعدہ پورا کیا اور نہ
ہی ماضی سے کوئی سبق سیکھا ہے۔ وہ اکثر غیر ملکی دوروں پر ہوتے ہیں، اُن کا
انحصار اسحاق ڈار اور چوہدری نثار کے علاوہ نااہل معیشت دانوں اورمشیروں پر
ہے جو اُنکو لیپ ٹاپ اور چھوٹے قرضوں کی اسکیموں کے زریعے خوش رکھتے
ہیں۔نواز شریف کے ابھی تک کے دور حکومت میں دہشت گردی اورمہنگائی میں بے
تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ امن و امان کی صورتحال حال ہی میں پنڈی میں ہونے والے
واقعے سے ظاہر ہوجاتی ہے۔ نواز شریف کو بہترین موقعہ ملا تھا کہ پیپلزپارٹی
کی حکومت سے بہتر کرتے مگر وہ "تو مجھے حاجی کہہ، میں تجھے حاجی کہوں" کی
مثال پر عمل پیرا ہیں یعنی جیسا زرداری نے کیا وہی میں بھی کرونگا۔ بڑئے
بڑئے دعوئے کرنے والے نواز شریف اُس ملک کے وزیراعظم ہیں جہاں اٹھارہ کڑوڑ
سے زیادہ آبادی میں 60 فیصد عوام پینے کے صاف پانی کی سہولت سے محروم ہیں۔
پانی میں آلودگی بڑنے کی وجہ سے کئی امراض میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جن میں
ڈائریا، ٹائیفائڈ اور ہیپا ٹائٹس شامل ہیں۔ تعلیم کے شعبے پر کوئی توجہ
نہیں ہے، تعلیمی بجٹ کم ہے، یوں دنیا کی تعلیمی انڈیکس میں 120 ممالک میں
سے پاکستان 113 نمبر پر ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اسکول میں
داخل نہ کروائے جانے والے بچوں کی شرح سب سے زیاہ 61 فیصد ہےجبکہ سندھ میں
یہ شرح 53 فیصد، خیبر پختونخواہ میں 51 فیصد اور بلوچستان میں 47 فیصد ہے۔
اٹھارہ کڑوڑ سے زیادہ کی آبادی میں 60 فیصد آبادی خط غربت کے نیچے زندگی
بسر کر رہی ہے،عالمی سطح پر خط غربت یومیہ دو ڈالر یا دو سو روپے آمدن کے
برابر ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ ”ورلڈ ڈویلپمنٹ انڈیکیٹر“ کے مطابق پاکستان
کے 60 فیصد افراد کی آمدن یومیہ دو ڈالر یا دو سو روپے سے بھی کم ہے، جبکہ
اکیس فیصد آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے۔ ایسے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی
مہنگائی ، امن و امان کی خراب صورتحال سے عوام پریشان ہیں۔ اگر ہم اسطرح ہی
آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے احکامات مانتے رہے تو شاید ہمیں بھی کھانے میں
چنے ہی ملینگے۔ مسلم لیگ ن کا شیر عوام کےلیے تو آدم خور شیربن چکا ہے مگر
آئی ایم ایف اور ورلڈبنک کو اس بات کی قطعی پرواہ نہیں کہ مسلم لیگ ن شیر
کے انتخابی نشان پر جیتی ہےشاید آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے حکام نے اس کا
اقامہ بندرکا بنایا ہے۔ |