امید پر تو دنیا قائم ہے اور
ہمارے ملک میں تو امید کاکوئی فقدان نہیں ہے ملکی تاریخ میں شاید ہی کبھی
ایسا ہوا ہو کہ عوام کسی حکومت سے خوش ہوئے ہوں، مگر پھر بھی جب کوئی حکومت
اپنا عرصہ اقتدار مکمل کرتی ہے یا کوئی زبردستی مُدت پوری کرواتا ہے
تومٹھائیاں بانٹنے اور نئے آنے والوں کی تعریفوں کے پُل باندہنے کا رجحان
بھی کثرت سے پایا جاتا ہے،ملکی تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو ذیادہ عرصہ تو
آمرانہ طرز حکومت ہی نظر آئی ہے اور جمھوری حکومتین ہمیشہ یہی شکایتیں کرتی
نظر آتی ہیں کہ ہمیں اقتدار میں رہنے دیا گیا اور مُدت پوری نہیں کرنے دی
گئی وگرنہ ہم دودہ کی نہریں بہا دیتے،ہر شخص کا اپنا گھر ہوتا،ہر بچہ اسکول
میں ہوتا،ہم تعلیم میں ساری دنیا کو پیچھے چھوڑ دیتے،مانگنے والے ہاتھ دینے
والے بن جاتے،کسان خوشحال ہوجاتے،مُلک میں سڑکوں کے جال بچھا دیتے ، ہر شہر
میں موٹر وی دوڑتے ،عوام روٹی ،کپڑا اور مکان کے جھنجھٹ سے آزاد ہوتے مگر
ہمیں اقتدار میں رہنے ہی نہیں گیا ہم عوام کی امیدوں پر پورا اترنے ہی والے
تھےکہ جمھوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اُتار لیا گیا ، جمھوریت کے پیٹھ میں
خنجر گھونپا گیا، عوام کی ووٹوں پر ڈاکہ مارا گیا ، یہ وہ باتین ہیں جو ہر
جانے والی حکومتیں کرتی آئی ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ، حکومت کی
مُدت پوری ہونے سے مسائل حل ہونے کہ نہیں مگر مشرف نے اپنے دور اقتدار میں
حقیقی یا غیر حقیقی مگر ایک جمھوری حکومت قائم کی جس نے اپنے اقتدار کی
مُدت بھی مکمل کی اس دوران وزرائے اعظم ضرور تبدیل ہوئے اور کبھی کبھار
کابینہ میں ردوبدل بھی ہوئیں مگر اسمبلیوں نے اپنی مُدت پوری کی مگر عوامی
مسائل جوں کے توں رہے۔حکومت اور ملک سے دور رہ کر ملک کی دو بڑی سیاسی
جماعتوں نے اپنی پرانی رنجشیں بھلا کر نئے مراسم کا ارادہ کیا اور چارٹر آف
ڈیموکریسی پر دستخط کرکے مل کر جدوجھد کا اعلان کیا گیا۔چارٹر آف ڈیموکریسی
کے بعد عوام نے پھر خواب دیکھنا شروع کردئے۔پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن نے جب
2007 کے الیکشن سے قبل پاکستان آنے کا ارادہ کیا تو ان کو روکنے کی کوششیں
بھی جاری رہیں مگر وہ نہ مانے اور خطرات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پاکستان آنے
کو تیار ہوگئیں،18 اکتوبر 2007 کو جب محترمہ بینظیر بھٹو کراچی پہچیں تو
عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کے استقبال میں موجود تھا، عوام کا ٹھاٹھیں
مارتا سمندر امیدوں کے نئے خواب بن رہی تھی تو دوسری جانب ان خوابوں کو
چکنا چور کرنے کے بھی تیاریاں مکمل تھیں، 18 اکتوبر 2007 کو کارساز میں
دہماکے نے عوام کے خوابوں کو چکنا چور کردیا۔ مگر محترمہ نے حمت نہیں ہاری
اور باہر نکلیں اور عوام کو دوبارہ منظم کرکے ایک نئی امید جگا ئی،مگر
کارساز سانحے کے 40 دن بعد 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں ایک جلسے سے
واپسی کے وقت فائرنگ اور زوردار دہماکے نے بینظیر بھٹو شہید ہوگئیں اور
عوام کی امیدوں نے بھی دم توڑ دیا،اس وقت ملک میں ایسے افرا تفریح پھیل گئی
کہ ملک میں ایک اور سانحے کی خبریں گردش کرنے لگیں ، مگر پیپلز پارٹی کی
قیادت نے لوگوں کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا اپنا غصہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کو
ووٹ دے کر اُتارو کیونکہ پیپلز پارٹی جمھوریت کو ہی بہترین انتقام سمجھتی
ہے،8 جنوری کو ہونے والے انتخابات کو ملتوی کیا گیا مگر پیپلز پارٹی جلد
انتخابات کروانے کا اعلان کیا اور 18 جنوری 2008کو انتخابات کروائے گئے، جس
میں عوام نے نہ صرف پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا بلکہ ایوان تک بھی پہچایا،ملکی
عوام جوکہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے غن سے باہر نہیں نکلی تھی مگر پیپلز
پارٹی کو اقتدار میں لاکر پھر سے امیدیں باندھنے لگی کہ بینظیر بھٹو کے کئے
گئے سارے نہ سہی کچھ واعدے تو پورے ہونگے،پیپلز پارٹی جمھوری انداز میں
حکومت میں آئی اور پانچ سال اقتدار میں رہ کر اپنے مُدت بھی پوری کی مگر ان
پانچ سالوں میں نہ تو عوام کو روٹی ملی نہ مکان اور نہ ہی کپڑے کا کچھ پتا
چلا،ا ن پانچ سالوں میں عوام مھنگائی کی چکی میں پستے رہے،بارشوں اور
سیلابوں میں عوام کو شدید پریشانیوں اور مشکلات میں گھیرے رکھا ، کسی اور
کو دینا تو تو دُور کی بات ہے مگر مگر عوام لینے کے لئے ہاتھ پھیلاتے
رہے،نہ سڑکیں بنیں نہ راستے،بلکہ بنی ہوئی بھی سیلاب میں بہہ گئیں، اب تو
ملکی سطح پر صحت مراکز اور تعلیمی درسگاہوں میں بھی بین الاقوامی فنڈ نے
گھیرا ڈال رکھا ہے،اب تو بین الاقوامی قرضی نے ہر پاکستانی کو مقروض بنا
دیا ہے،ملکی ادارے تباہی کی جانب گامزن ہیں اور ان کی بہتری کی کوئی راہ
بھی نظر نہیں آرہی ہے، ریل ایسی رُکی کہ چلنے کا نام ہی نہیں لیتی ، خصارا
ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا،اسٹیل مل ہو یا بجلی کا بل ، ٹرین ہو
یا جھاز کہیں بھی خوشخبری کی نوید سننے کو نہیں ملتی ،مشرف نے جاتے جاتے جو
بجلی کا بحران چھوڑا وہ پیپلز پارٹی اپنے پانچ سالا اقتدار میں حل نہیں کر
سکی،سندہ کے صحرا تھر میں کوئلے کے بڑے ذخائر کے خواب دکھائے گئے بجلی
بیرون ممالک سپلائی کرنے کے دعوے بھی کئے گئے مگر ہوا پھر بھی کچھ نہیں نہ
تو کوئلہ نکلا نہ بجلی بنی پانچ سال بعد بھی ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں،نہ
تو شمسی توانائی کے کوئی منصوبے نظر آئے نہ پانی پر بجلی بنانے کا کوئی
نخسہ دیا گیا، نخسہ ملا تو ایک ہی کہ ہر گھر اور ہر دکان کے لئے جرنیٹر بنا
لازمی اس کے بغیر تو گذارہ بھی ہے،ہمارے ہان نہ تو پہلے کبھی کوئی پلاننگ
نظر آئی ہے نہ ہی آنے والے دنوں میں ایسا کچھ ہوتا نظر آرہا ہے،پاکستان میں
گھریلو اور صنعتی گئس سے گاڑیاں چلانے کا منصوبہ بنایا گیا مگر اس کے متعلق
کوئی جامع پلاننگ نہیں بنائے گئے حالت یہاں پہچی کہ اب کہیں ہفتہ کا ہفتہ
تو کہیں ہفتے میں تین دن گئس نہیں ملتی اور جب گئس ملتی ہے تو اتنی لمبی
قطاریں کہ کئی کئی گھنٹے کھڑے ہونے کے بعد ہی کہیں گئس مل پاتی ہے،پیپلز
پارٹی نے اپنے پانچ سالا اقتدار میں جو بہتر کام کئے وہ تو حکومت ہمیشہ
گنواتی ہی رہی ہے مگر ملکی سطح پر بجلی کا بحران ، گئس کا بحرن ، بے
روزگاری، مھنگائی نے عام لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہی بنی رہیں، اور شکایا ت
کے انبار بھی بڑہتے ہی رہے ، اپوزیشن خاص طور پر نواز لیگ ہمیشہ چلاتی رہی
کہ اگر حکومت مخلص ہوتی تو یہ مسائل حل ہو سکتے تھے ہمیں موقع ملا تو سب
ٹھیک ہوجائے گا،بجلی کا بحران بھی حل ہوسکتا ہے مگر حکومت نے سنجیدگی کا
مظاہرہ ہی نہیں کیا تو یہ مسئلا کیسے حل ہوتا،خدا خدا کرکے پیپلز پارٹی نے
تو اپنے پانچ سال مکمل کرلئے ، اور اگلی باری پھر زرداری کے نعرے بھی لگتے
رہے ،مگر ان پانچ سالوں میں بھی عوام کی امیدیں پوری نہ ہوسکیں ، اب اگلی
حکومت کا انتظار اور پھر نئی امیدیں تھیں،11 مئی 2013 کو جب انتخابات ہوئی
تو کسی بھی پارٹی کو صوبائی سطح پر کامیابی حاصل نہیں ہوئی ، پنجاب نواز
لیگ لے گئی تو سندہ میں پیپلز پارٹی نے اپنا دیرہ جمایا ، خیبر پختون خواہ
میں عوام نے پہلی بار تحریک انصاف کو حکومت کا موقع دے کر آزمانے کی ٹھان
لی ،اور بلوچستان میں نواز لیگ کی مدد سے ایک مخلوط حکومت بنی ، جبکہ نواز
لیگ وفاق میں بازے لے گیا اور حکومت بناڈالی، اور پھر عوام نے امیدوں کے
محل بنانا شروع کردئے اور اس بار عوام کی امیدیں نواز شریف کے طرف تھیں،حزب
اختلاف کے دنوں میں سارے مسائل کچھ عرصے میں حل کرنے کے دعوے دار نواز لیگ
کی جب حکومت بنی تو عوام نے امیدیں باندہ لیں کہ اس بار تو ہم ضرور بنیں گے
ایشین ٹائیگر،بجلی کا بحران پیپلز پارٹی کی غلط پالیسیوں کی ہجہ سے تھا تو
اب نواز شریف بہتر پالیسیاں بنا کر یہ مسئلا بھی حل کردیں گے،ہر شہر میں
سڑکوں کے جال بچھا ئے جائیں گے اور موٹر وی دوڑے گی، بے روزاگری ختم ہوگی ،
ملک خوشحال ہوگا ، گئس کا مسئلا بھی حل ہوگا اور تیل کے نرخ بھی گریں گے،
کشکول ٹوٹے گا اور ہم منگتے نہیں کھلائیں گے ، مگر 11 مئی کو بھی چھ ماہ
گذر گئے اور عوامی امیدیں بھی گوادر میں نکلنے والے اس جزیرے کی مانند
ہورہی ہیں جوکہ اب ڈوبنے لگا ہے،پاکستانی عوام تو ملک بننے سے اپنے خوشحالی
کے خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں، اور نئی حکومت کے آنے سے وہ یہی
سمجھتے ہیں کہ اب سب ٹھیک ہوجائے گامگر ہر بار انہیں مایوسی کے سوا کچھ بھی
پلے نہیں پڑتا،نہ تو ملک میں بجلی کا بحران کم ہورہاہے نہ ہی قریب میں ایسا
کچھ نظر آرہا ہے،گئس کا بحران دن بدن بڑہتا ہی جارہا ہے، بے روزگاری اور
مھنگائی کا جن تو کسی بھی حلومت کے ہاتھ نہیں آسکا ہے،تیل اور بجلی کے نرخ
کم ہونے کے بجائے بڑہ رہے ہیں اور روزگار کے ذرائع کم ہوتے جارہے ہیں،گوادر
کا جزیرہ تو عارضی تھا جو چند دہائیوں پہلے بھی نکلا اور پھر سمندر میں
غائب ہوگیا، مگر عوامی امیدوں کا جزیرہ تو ہر نئی حکومت کے ساتھ اُبھرتا ہے
اور چند ہی ماہ میں پھر ڈوُب جاتا ہے۔ |