افغانستان اور پاکستان میں امن کا دشمن امریکہ

امریکہ افغانستان سے (مکمل نہ سہی) بڑی حدتک اپنی افواج کونکالنے کا منصوبہ بناچکا ہے لیکن وہ علاقہ میں شورش اور بدامنی کے ایسے بیج بوکر جارہا ہے جس سے فتنوں، فساد اور دہشت کے ایسے پودے اگیں گے جن سے افغانستان اور پاکستان عرصہ تک متاثر رہ سکتے ہیں۔ امریکہ سے روس بہت بہتر تھا جس نے خاموشی سے افغانستان چھوڑا تھا لیکن امریکہ عالم اسلام میں امن و سکون برداشت نہیں کرسکتا ہے۔ وہ اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے وقت اور موقع کے لحاظ سے اقدامات کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل کرتا ہے۔ امریکہ یہ بھی بھول جاتا ہیکہ ماضی میں افغانوں سے شکست کھانے کی ذلت کے بعد برطانیہ (جو اپنے وقت کا آج کے امریکہ کی طرح واحد سپرپاور تھا) اور امریکہ کے حریف روس کو کتنی ذلتوں سے دوچار ہونا پڑا تھا اور ان کا کیا حشر ہوا؟ سپر پاور افغانستان میں شکست کے بعد کوئی ’’سپر پاور‘‘ نہیں رہتا ہے۔

امریکہ افغانستان اور پاکستان کی افوان کو اپنے ہی عوام سے برسر پیکار رکھ کر دونوں ملکوں کو ایک طرح کی خانہ جنگی سے دوچار کرنا چاہتا ہے ۔ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اﷲ محسود کی ڈرون حملہ میں شہادت اسی سازش کا حصہ ہے جس کی وجہ سے حکومت پاکستان اور پاکستانی طالبان میں ہونے والے مذاکرات نہ صرف تعطیل کا شکار ہوگئے بلکہ طالبان کو پاکستان میں انتقامی کارروائی پر مجبور کردیا گیا ہے اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوتے تو پاکستان میں بڑی حدتک امن ہوجاتا اور افغانستانی طالبان کو پاکستانی طالبان سے بھر پور مدد ملتی لیکن یہ سب بھلا امریکہ کیوں چاہے گا دوسری طرف پاکستانی فوج طالبان کے انتقام کا شکار ہوگی ۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ سی آئی اے اور موساد کے ایجنٹس طالبان کو بدنام کرنے کی غرض سے پاکستانی افواج اور سرکاری اور غیر سرکاری تنصیبات پر حملے کریں اور پاکستانی فوج طالبان کو نقصان پہنچائے گی اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا ،اسی میں امریکہ کا فائدہ ہے!

اس سارے منظر نامہ میں وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کا کردار مشکوک ہے۔ امریکہ جانے اور صدر اوبامہ سے ملنے اور ان کے ساتھ تصور کشی کا شوق تو پورا کرلیا لیکن نواز شریف کے حامی بھی نہیں کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ جاکر نواز شریف نے کیا حاصل کیا؟ اگر میاں نواز شریف امریکہ کے ڈرون حملے بند کروانا چاہتے تو وہ امریکہ پر دباؤ ڈال سکتے تھے کیونکہ افغانستان کے حوالے سے امریکہ کو پاکستان کی شدید ضرورت ہے۔ خاص طور پر اس لئے کہ افغانستان سے امریکہ کے انخلا (خواہ وہ کسی حدتک بھی ہو) پاکستان کا تعاون درکار ہے۔ نیز ناٹو اور امریکہ کے لئے ہر قسم کی اشیاء کی فراہمی روک کر پاکستان امریکہ پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔ اپنی اور ناٹو افواج کی ’’سپلائی لائن‘‘ برقرار رکھنے کے لئے اربوں ڈالر کے اضافی اخراجات ہوتے ہیں۔ اپنی خستہ مالی حالت کی وجہ سے امریکہ غیر معینہ مدت کے لئے کثیر اخراجات برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ نواز شریف حکومت اس سلسلے میں امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کا کتنا حوصلہ رکھتی ہے؟ گوکہ سپلائی لائن روک دینے کے لئے صوبہ پختونجواہ میں اپنی حکومت کی قربانی تک دینے کے عزم کا عمران خان نے اعلان کیا ہے لیکن امریکہ پر دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی کو کامیاب بنانے کے لئے پاکستان کی مرکزی حکومت کا ہی رول کلیدی ہے لیکن نواز شریف کی امریکہ سے مرعوبیت بلکہ خوف، (اپنے کسی پیشرو حکمراں خواہ وہ جنرل مشرف ہوں یا زرداری ہوں یا بے نظیر ہوں) کسی سے بھی کم نہیں ہے۔ اس لئے پاکستان کی جانب سے امریکہ پر موثر اور نتیجہ خیز دباؤ ڈالے جانے کا امکان کم ہے۔ کیونکہ نواز شریف کے پاس باتیں زیادہ اور عمل کم ہے۔

آگے بڑھنے سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ڈرون حملوں کو جنگی جرائم اور ماورائے عدالت قتل قرار دیا ہے لیکن اوبامہ ہی نہیں امریکہ کے ارباب حل و عقد ڈرون حملوں کو جاری رکھنے پر مصر ہیں۔ آج امریکہ کی حکمت عملی اور خدائی فوج دار بنے رہنے پر اصرار اور ایک طرح کا جنگی جنون، جارحیت اور ہٹ دھرمی میں جس قدر شدت ہے وہ 1950ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں صدر ہنری ٹرومین اور سکریٹری آف اسٹیٹ جان فاسٹر ڈلز کے بدنام دور میں بھی نظر نہیں آئی تھی اور نہ ہی امریکہ کو دنیا بھر میں کہیں بھی مداخلت اور اپنی مرضی تھوپنے پر اس قدر اصرا تھا نیز عالم اسلام میں امریکہ کی اس قدر مخالفت ، جو آج ہے وہ کبھی بھی نہیں تھی۔ اس تناظر میں جارحیت، غرور، ہٹ دھرمی اور انتہاء پسندی کے جنون میں مبتلا امریکہ کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر آمادہ کرنا خاصہ مشکل ہے لیکن امریکہ کے عوام ہی اپنی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں بھر پور جنگی جنون کے ساتھ زبردست عسکری کارروائیوں اور ہزاروں جانوں اور اربوں ڈالر کے اتلاف کے باوجود امریکہ افغانستان میں نہ کچھ حاصل کرسکا اور نہ ہی طالبان کو ختم کرسکا ۔ الٹا بے عزت ہوکر افغانستان سے فرار پر مجبور ہوگیا ہے۔ اپنی اس ذلت و رسوائی کا بدلہ لینے اور عالم اسلام کو مستقل طور پر مسائل میں الجھائے رکھنے کے لئے امریکہ ہر قسم کے مجرمانہ افعال انجام دے رہا ہے جس میں سب اہم نہ سہی بلکہ بے حد اہم یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور حکومت پاکستان میں کسی بھی قیمت پر مفاہمت نہ ہونے دینے کے لئے دونوں کے درمیان کسی بھی قیمت پر مذاکرات ہی نہ ہونے دئیے جائیں اور حکیم اﷲ محسود کو شہید کرکے مذاکرات کو روکنے کا جرم امریکہ نے پہلی بار نہیں کیا ہے بلکہ اس سے قبل طالبان اور پاکستان کی حکومت اور فوج سے دوبارہ معاہدے ہوئے تھے 2004ء میں طالبان کمانڈر نیک محمد سے اور2005ء میں بیت اﷲ محسود کو (معاہدوں کی منظوری کے دو تین ماہ کی مدت مکمل ہونے سے قبل ہی) شہید کردیا گیا اور ان کے کئے ہوئے معاہدے شہیدوں کے خون میں ڈوب کر ناقابل عمل ہوکر رہ گئے! اور اب معاہدے تو دور رہے مذاکرات سے قبل ہی حکیم اﷲ محسود کو شہید کرکے مذاکرات کا مسئلہ ہی ختم کردیا ہے۔

ڈرون حملوں میں امریکہ نے طالبان نے تقریباً ایک درجن اہم کمانڈروں کو شہید کردیا اور یہ ہرگز اتفاق نہیں ہے کہ یہ کمانڈر پاکستان سے نہ صرف بات چیت بلکہ امن قائم کرنے کے حامی او رموئید تھے کوئی بھی پاکستان کے خلاف جارحیت کا خواہاں نہ تھا ۔ اسی سے ظاہر ہے کہ امریکہ پاکستان میں امن و سکون نہیں بلکہ شورش، تشدد، بدامنی اور دہشت گردی کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں طالبان کا حکومت سے تصادم اگر ختم ہوجائے تو پاکستان کی حکومت اور طالبان کی ساری توجہ افغانستان کے استحکام اور تعمیر نو پر مرکوز ہوگی کیونکہ اب افغانستان میں صرف طالبان ہی رہ گئے ہیں۔ مخالف طالبان اور امریکہ کا زر خرید ’’شمالی محاذ‘‘ اپنی موت آپ مرچکا ہے اور افغانستان میں امریکی جارحیت سے قبل کا دور واپس آنے ہی والا ہے اس طرح امریکہ کی 12سالہ مذموم جدوجہد (جس کا مقصد افغانستان سے اسلام پسند طالبان کو جڑ سے اتار پھینکنا تھا) ناکامی کی تاریخی مثال بن رہی ہے۔ امریکہ اور مغرب کو طالبان سے دشمنی کی اصل وجہ طالبان کی اسلام پسندی اور اس غیر اسلامی تہذیب و تمدن کی مخالفت جس کو اﷲ خان مرحوم سے روسی جارحیت کے درمیانی عرصہ میں فروغ دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ امریکہ افغانستان میں ہر طرح ناکام رہا ہے۔ اسی لئے وہ افغانستان اور پاکستان میں انتشار ، افتراق، دہشت گردی، شورش، فتنہ فساد کا ماحول نہ صرف برقرار رکھنے بلکہ اسے مزید خوفناک بنانے کے لئے کوشاں ہے ۔

یہ تو طئے ہے کہ حکیم اﷲ محسود کی شہادت کی ذمہ داری امریکہ پر ہے لیکن امریکہ کے اشاروں پر کٹھ پتلیوں کی طرح رقص کرنے والے پاکستانی حکمرانوں سے اس مہم میں مدد و تعاون کی توقع کو بدگمانی نہیں کہا جاسکتا ہے۔ یہ بات طئے ہے کہ پاکستان کی حکومت سے تحریک طالبان پاکستان کی صلح صفائی اور تعاون امریکہ کو ناپسند ہے پھر بھی حکومت پاکستان (وہ بھی نواز شریف کی حکومت!) امریکہ کی مرضی کے خلاف کیسے کوئی قدم کیسے اٹھاسکتی ہے؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ حکیم اﷲ کو شہید کرنے کے امریکہ کو پہلے بھی مواقع ملے تھے لیکن بقول امریکہ محسود بچ گئے تھے۔ باور کیا جاتا ہے کہ مذاکرات کے سلسلہ میں محسود پاکسانی عہدیداروں سے رابطے میں تھے اور جس وقت ان پر حملہ ہوا تھا وہ کسی اہم پاکستانی عہدیدار سے بات کررہے تھے ( موبائیل فون سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ فون سننے والا کس جگہ ہے) اور یہی رابطہ ان کی شہادت کا باعث ہوسکتا ہے۔ امریکہ سے نواز شریف حکومت کی ملی بھگت کا الزام بھی طالبانی قیادت حکومت پاکستان پر عائد کررہی ہے۔ یہ الزام کس حدتک صحیح ہے؟ یہ کہنا مشکل ہے لیکن یہ بالکل ہی بے جواز بھی نہیں ہے اور الزام وزن رکھتا ہے وجہ نواز شریف بھی امریکہ کے تابعدار ہیں۔

امریکہ جس کو بھی ہلاک کرتا ہے اپنی مصلحت سے اس کی ہلاکت کی کوشش کرتا ہے ۔ طالبان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات روکنے کے لئے جس طرح ماضی میں نیک محمد اور بیت اﷲ محسود کو شہید کیا گیا تھا اسی طرح اس بار حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت کو ضروری خیال کیا گیا اور نتیجہ ظاہر ہے کہ مذاکرات کا عمل تعطل کا شکار ہوجاتا ہے۔ امریکہ کے اس ’’طریقہ واردات‘‘ کا عمل ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کو روکنے کے لئے ہند۔پاک دوستی کی مخالف طاقتیں (بہ شمول امریکہ اور اسرائیل) ہندوستان میں یہ عمل کئی بار کامیابی سے دہراچکی ہیں۔

پاکستان میں ایسے عناصر اور مکتب خیال موجود ہیں جو امریکہ اور مغرب کے مخالف طالبان پروپگنڈے سے متاثر ہوکر طالبان کے بلاوجہ مخالف ہیں۔ طالبان کو بدنام کرنے کی غرض سے مخالف طالبان عناصر نے بڑی عیاری سے جرائم پیشہ افراد کو طالبان کی صفوں میں داخل کردیا ہے۔ مخالف طالبان قوتوں کے یہ زرخرید غلام طالبان کے بھیس اور حلیہ میں طالبان بنکر جرائم کرتے ہیں جن میں قتل، لوٹ مار، مذہبی اتنہاء پسندی کے اظہار کے طور پر عوام پر وحشیانہ مظالم، منشیات کا کاروبار، دہشت گردی، مساجد، درگاہوں، خانقاہوں اور امام بارگاہوں، جنازے کے جلوسوں پر حملے شامل ہیں۔ اس قسم کی وارداتوں کو دیکھنے والے طالبان سے نفرت کرتے ہیں۔ طالبان کی نام نہاد زیادتیوں کے بارے میں رائی کاپربت بنایا جاتا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کا نہ طالبان سے سابقہ پڑا ہے اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی تجربہ ہے وہی طالبان کی بے حد برائی اور عیب جوئی کرتے ہیں (جس طرح مولانا مودودی کی کتب بغیر پڑھے اکثر لوگ مولانا مرحوم کے نظریات اور خیالات پر سخت تنقید کرتے ہیں)

طالبان کا خاتمہ نہ افغانستان سے ہوسکتا ہے اور نہ ہی پاکستان سے۔ امریکہ طالبان کا دشمن ہے ۔ امریکہ نہیں چاہے گا کہ طالبان سے پاکستان کا ’’معاہدہ امن‘‘ ہوسکے۔ امریکہ کے تابعدار حکمران امریکہ کی مرضی کے خلاف طالبان سے معاہدہ امن اول تو کریں گے نہیں یا کریں تو اس پر عمل نہیں کریں گے۔ اب یاتو حکمران خود کو امریکہ کے شکنجہ سے آزاد کروالیں یا امریکہ حقائق سمجھ کر اپنا رویہ بدل دے۔ فی الحال دونوں ہی باتوں کا دور دور تک امکان نہیں ہے۔ فی الحال افغانستان اور پاکستان دونوں ہی کی امن و سلامتی خطرات سے دوچار ہیں۔ امید یہ ہے کہ اسلام کی خدمت اور فروغ کے لئے جان کا نذرانہ دینے والوں کی قربانی انشاء اﷲ العزیز ضائع نہیں ہوگی(آمین)۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 165756 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.