پہلی اینٹ کون رکھے گا۔۔۔؟؟؟

ہمارے وطن عزیز کی خوش نصیبی ہے کہ جو بھی حکمران آئے ،انہوں نے روایات کو خوب سے خوب تر قائم رکھا۔مستقبل کی نہ کوئی منصوبہ بندی کی گئی،نہ ہی حال کا سوچاگیا،ہر ایک نے اپنے دلکش و دلفریب نعروں،جذباتی تقریروں،خوشنمامنشوروں ،سبز وسرخ دیدہ زیب جھنڈوں اور دودھ و شہید کی نہروں کے حسین خوابوں سے عوام کے ضمیروں کی خوبی دھنائی کی ۔سچی بات تو یہ ہے کہ ان دہقانی صفت نے عوا م کو ریگ مال بنادیا۔ پھر ان کی ریکھا بھی باعث عبرت بنی۔خدا خدا کر کے جمہوریت کا پودا ایک بار پھر اپنی رفعتوں سے جلوہ گر ہوا،عوام نے امید کے سائے میں ایک بار پھر زرداری ازم کو مسترد کرکے نواز ازم کی چاہت میں تبدیلی کا جو خواب دیکھا وہ اپنی تعبیر میں الٹ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے عوامی نمائندوں کی سوچ و فکر روایت پسند ہے،ووٹ لیتے و قت ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے،کرنسی کی جھنکار میں ایسے ایسے فریب دیئے جاتے ہیں کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے،دراصل بنیادی قصور عوام کا ہے کہ وہ ووٹ کی اہمیت سے ابھی تک لاعلم ہیں۔مہنگائی ،بے روزگاری کا رونا دھونا عوام کی فطری عادت بن چکا ہے۔لیکن عوام ان سارے مکر و فریب کے باوجود جمہوریت کا راستہ اپنائے ہوئے ہیں۔

لیڈر ہمیشہ بحرانوں میں جنم لیتے ہیں،ایک دانشور کا قول ہے کہ ’’سیدھی سٹرک پر ہرگز بہتر ڈرائیور نہیں بن سکتا،پرسکون سمندر میں اچھا ملاح نہیں بن سکتا،صاف و شفاف آسمان سے کبھی بھی بہتر پائلٹ نہیں بن سکتا،بحرانوں اور مسائل سے آزاد کوئی مضبوط اوراچھاانسان جنم نہیں لے سکتا،مضبوط انسان بنیئے اور چیلنجز کا ڈٹ کر مقابلہ کریں،زندگی کو ہرگز مخاطب ہوکر یہ نہ کہیں کہ ’’کیوں میرے ساتھ ایسا ہوتا ہے،بلکہ کہیں کہ اے ! زندگی میں تجھے بار بار کوشش و ہمت سے جیت کر دکھاؤ ں گا‘‘یہی اصول کامیابی کی دلیل ہیں،راقم نے ایک بار بزرگ سیاسی رہنما سردار عبدالقیوم خان سے پوچھا کہ زرداری کے دور کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟ انہوں نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ’’ جن حالات سے ملک دوچار ہے اسے لیڈر کی ضرورت ہے اگر زرداری ان حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں تو وہ دنیا کے عظیم لیڈر بن سکتے ہیں‘‘یہ مکالمہ زرداری کے دور صدارت کے دوران ہوا جو آج بھی میاں نواز شریف پر صادر ہوتا ہے۔کیونکہ آج جو حالات ہیں وہ ماضی سے بھی بد تر سطح پر جا رہے ہیں۔

عوام کو بنفشی شعاعیں دکھانے کے بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے،پر امن انقلاب کے لئے عوامی مزاج کے فیصلے کرنے پڑیں گے،نان ایشوز کو ثانوی حیثیت دینا پڑے گی۔نان ایشوز کیا ہیں۔۔؟ جن کا تعلق ،واسطہ اور ضرورت عوام کے مفادات سے نہیں ،محض عوام کی توجہ ہٹانے اور اقتدار کو بچانے کی تدابیر ہیں۔جب تک نیک نیتی،یکسوئی و دھیان،ذہنی پاکیزگی،رزق حلال،درست سمت،اچھے اعمال ،جد وجہدکو حکمران اپنا مشن نہیں بنائیں گے تب تک ’’باریاں‘‘ لگانے کا کوئی فائدہ نہیں۔میاں صاحب آپ کو اﷲ تعالیٰ نے موقع غنیمت عطا کیا ہے اس کا ایک ایک لمحہ آپ کے لئے قیمتی ہے،ذاتی لڑائیاں ترک کر کے ملک کے وسیع مفادات کو اپنی ترجیحات میں شامل کر کے رسی ڈھیلی نہیں چھوڑنا پڑے گی۔ماضی کے حکمرانوں کو ملک بھر کے دانشوروں،صحافیوں اور بہی خواہوں نے سیدھے راستے کی تلقین کی مگر ماضی کے شہنشاہوں نے ’’رسی جل گئی مگر بل نہیں گیا‘‘کے مصداق اپنے رویوں سے سبق نہیں سیکھااور وہ تاریخ کے بند اوراق میں چلے گے۔اصلاح اپنے آپ سے با اثر ہوتی ہے،جس کیلئے سچائی کو سننے کی جرات چاہئے۔آج کے کالم کا نفس مضمون ’’اپنی اصلاح ‘‘ سے ہے۔

اطلاعات کے مطابق و زیراعظم آفس اور وزیراعظم ہاؤس میں اس وقت گریڈ ایک تا 22 کے 695 افسران اور ملازمین تعینات ہیں ان میں صوبہ پنجاب کے 489‘ خیبرپختونخوا کے 114‘ آزاد کشمیر کے 46‘ سندھ کے 21‘ بلوچستان کے 19 جبکہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے 6 ملازمین شامل ہیں‘ وزیراعظم آفس اور ہاؤس میں تعینات گریڈ 18 سے 22کے 49 بیوروکریٹس میں 34 کا تعلق پنجاب‘ خیبرپختونخوا سے 9‘ سندھ سے 2‘ بلوچستان سے 2‘ آزاد کشمیر 2 جبکہ فاٹا سے تعلق رکھنے والا گریڈ 18 یا اوپر کا کوئی افسر تعینات نہیں۔ وزیراعظم آفس اور سیکرٹریٹ میں تعینات افسران اور اہلکاروں کے حوالے سے حاصل تفصیلات کے مطابق وزیراعظم سیکرٹریٹ میں گریڈ ایک تا 22 کے 235 جبکہ وزیراعظم ہاؤس میں 460 افسران و ملازمین تعینات ہیں ان کی مجموعی تعداد 695 بنتی ہے وزیراعظم سیکرٹریٹ میں پنجاب کے 159 جبکہ وزیراعظم ہاؤس میں 330 ملازمین تعینات ہیں جن میں گریڈ 18 تا 22کے 34 بیوروکریٹس شامل ہیں صوبہ سندھ کے وزیراعظم سیکرٹریٹ میں صرف 13 جبکہ وزیراعظم ہاؤس میں 8ملازمین تعینات ہیں جن میں گریڈ 18یا اس سے اوپر کے صرف 2 افسران شامل ہیں اس کے برعکس آزاد کشمیر کے وزیراعظم سیکرٹریٹ میں 13جبکہ وزیراعظم ہاؤس میں 33ملازمین تعینات ہیں جن میں افسران کی تعداد دو ہے‘ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم سیکرٹریٹ میں 7 جبکہ وزیراعظم ہاؤس میں دو ملازمین تعینات ہیں جن میں گریڈ 19,18 کے دو افسران بھی شامل ہیں خیبرپختونخوا کے وزیراعظم سیکرٹریٹ میں 40جبکہ وزیراعظم ہاؤس میں 74 ملازمین تعینات ہیں جبکہ اس میں گریڈ 18کے چار اور گریڈ 19کے پانچ افسران شامل ہیں۔ علاوہ ازیں وزیراعظم سیکرٹریٹ اور وزیراعظم ہاؤس میں فاٹا سے تعلق رکھنے والے تین‘ تین ملازمین تعینات ہیں ان میں گریڈ 14 سے اوپر کا کوئی بھی ملازم یا افسر نہیں ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ لاؤ لشکر کس مرض کے لئے رکھے ہیں،سخت سیکیورٹی میں عام شہری وزیراعظم ہاؤس تو پہنچنا تو درکنارشاہراہ جمہوریت سے گذرنا محال ہے۔پھر یہ سینکڑوں افسران و ملازمین ’’کس کی ‘‘خدمت پر مامور ہیں۔آخر ان پر بجٹ کا بھی بڑا حصہ صرف ہوتاہوگا،یہی افسر شاہی ہمیں ‘‘نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘جیسی صورت حال سے دوچار کر رہی ہے۔ہمارے جملہ اداروں میں کرپشن،عوام دشمنی اور کام چوری نے ایسے قدم جمائے ہیں کہ بحرانوں کے مقابلہ کی شروعات کہاں سے کی جائے سمجھ سے ہ بالاتر ہے مگر یہ اتنا بھی گھمبیر مسئلہ نہیں کہ آغاز کار مشکل ہو۔ پہلی اینٹ کون رکھے گا،ذرا دلخراش اور بوجھل ہے،مگر جب قدم اٹھتے گئے تو منزل خوش آمدید کہئے گی۔
Bashir Ahmed Mir
About the Author: Bashir Ahmed Mir Read More Articles by Bashir Ahmed Mir: 50 Articles with 37768 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.