نوکری

(مختصر افسانہ)

صبح کے وقت ریاض کے گھر میں بالکل خاموشی چھائی ہوئی تھی ، لوگ گھر کے باہر حیرانی سے کھڑے تھے ،شاہد اپنے کمرے میں مردہ حالت میں لیٹا ہو اتھا،بڑی مشکل سے سانس کی آمد و رفت ہورہی تھی،صرف سانس کی آمد ورفت سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ زندہ ہے۔لیکن دور سے دیکھنے والے یہی اندازہ لگا سکتے تھے کہ بستر پر کوئی بے جان جسم پڑا ہوا ہے۔اسماء سرہانے بیٹھی قرآنی آیات پڑھ پڑھ کر دم کر رہی تھی،ریاض اپنی چارپائی پر سر جُھکائے بیٹھے ہوئے تھے۔فیمیلی ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد بہت کم اُمید دکھائی تھی۔زیبون باورچی خانے میں رو رہی تھی،گھر میں عجیب قسم کی ویرانی تھی،ہر ایک آدمی خاموش تھا،ہر ایک کے چہرے پر دہشت طاری تھی۔ہر ایک کی دھڑکن آنے والے لمحات کے خوف سے سُکڑ رہی تھی۔شاہد زندگی سے دور اور موت سے قریب ہوتا جارہا تھاہر آنے والا سانس اپنی رفتار کو ختم کر رہا تھا،ڈاکٹر پریشان تھاکوئی بھی دوا اس کے اوپر اثر نہیں کر رہی تھی ،شاید جینے کی آرزو ختم ہو چکی تھی، موت کی خواہش غالب تھی،اسلئے قوّت ارادی بھی ختم ہو چُکی تھی اور موت زندگی کے اس قدر قریب پہنچ چُکی تھی کہ دیکھنے والے بھی یہ محسوس کر رہے تھے کہ نہ معلوم سانس کی ڈور کب ٹوٹ جائے گی۔ اسماء بھی یہ بات کو محسوس کر رہی تھی اس کا دل بھی ڈوب رہا تھامگر اس کا خدا پر بھروسہ اسے اُمید سے قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے پر تر غیب دے رہا تھا۔ریاض صبر کا دامن تھامے ہوئے تھا مگر اب اُس کے آنکھوں سے آنسونکل رہے تھے۔اُس نے کبھی بھی شاہد کو ترچھی نگاہوں سے نہیں دیکھا تھا،ہر وقت وہ اُسے محبت سے پڑھنے کی ہدایت کرتے اور کہتے کے نوکری کی فکرمت کرو،روزی دینا اﷲ کا کام ہے بندے کا کام صرف محنت کرنا ہے اور انشاء اﷲ تم کو افسر کی ہی نوکری ملے گی۔زیبون آخر ماں تھی کب تک اپنے بیٹے کوبستر پر خاموش لیٹے دیکھتی۔ اچانک سے شاہد کے قریب گئی اور اُسکے بازووں کو ہلاتے ہوئے کہنے لگی۔۔ شاہد تجھے کیا ضرورت تھی نوکری کے لئے ہم نے تجھ پر کبھی زور نہیں ڈالا ، اﷲ نے ہمیں ہر نعمت سے نوازا ہے تو میرا اکیلا لاڈلہ بیٹا ہے اُٹھ۔۔مجھ سے بات کر۔۔۔دیکھ گھر میں سب کتنے پریشان ہیں،تیرے ابّو اور اسماء کی حالت دیکھ میرے بیٹے۔۔۔ یہ کہہ کر زور سے رونے لگی۔
ڈاکٹر صاحب : دیکھئے ۔۔۔ اپنے آپ کوسنبھا لئیے ورنہ آپ کی طبعیت بگڑ جائے گی۔
زیبون : جس کا جوان بیٹا بستر پر مردہ حالت میں پڑھا ہو اُسکی ماں آخر کیوں کرزندہ رہے۔
اسماء : امّی بھروسہ رکھو ۔بھائی جان کو کچھ نہیں ہوگا۔اﷲ ہماری مدد ضرور کرے گا۔
ڈاکٹر صاحب : بیٹی تم انہیں اندر لے جاؤ۔
اسماء : ( ریاض کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) ابّو آپ امّی سے کہیے بھائی جان کو کچھ نہیں ہوگا۔
ریاض : ( زیبون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) ۔۔ تم اندر جاؤ۔
وقت کے ڈھلتے ڈھلتے ہر ایک کی اُمید ٹوٹ رہی تھی مگر اسماء ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔بھائی سے بڑی محبّت کرتی تھی۔سچ ہی کہتے ہیں بہن اصل میں ماں کا روپ ہوتی ہے۔شاید اسماء کا پکّا ارادہ اور خداپر بھروسہ جلد ہی شاہد کی تقدیر بدلنے والا تھا۔ اچانک سے ریاض نے دیکھا کہ شاہد کی اُنگلیوں میں ایک عجیب حرکت ہوئی۔اطراف بیٹھے ہوئے لوگ حیرت سے اُس کے قریب ہونے لگے۔ڈاکٹر صاحب نے سب کو دور ہونے کو کہا۔اسماء دوڑتی ہوئی باورچی خانے میں گئی۔
اسماء : ( اپنی پھولتی سانسوں کو روکتے ہوئی ) امّی ۔۔ امّی ۔بھائی جان کی اُنگلیوں میں حرکت ہوئی۔
آپ جلدی آئیے۔
زیبون اور اسماء جلدی سے شاہد کے کمرے میں آگئے۔
ڈاکٹر صاحب اپنے اسپیگمو مانو میٹر (Sphegmomano Meter) سے شاہد کو چیک کرتے ہوئے اُمید ظاہر کی اورریاض سے کہا ! میں ایمبولنس (Ambulance) بلوا لیتا ہوں۔دوا اور خاص کر کے اسماء بیٹی کی دُعاشاہد کے حق میں کام کر رہی ہے۔

کچھ ہی دیر میں ایمبولنس آواز کرتی ہوئی آپہنچی۔گلی کے لوگوں نے اسٹریچر( Stretcher ) پر شاہد کو لٹایا اور ایمبولنس کی طرف چلنے لگے۔زیبون پیچھے سے کہنے لگی ! سنبھال کر لیجئے۔

اسپتال پہنچتے ہی ڈاکٹر صاحب نے شاہد کو آئی۔سی ۔یو ( Intensive Care Unit ) میں شِفٹ کردیا۔اُس کے چہرے پر آکسیجن ماسک لگایا۔ بازو اور کمر میں انجکشن لگوائے ۔پرچی پر کچھ دوائیوں کے نام لکھے اور پرچی لا کر ریاض کے ہاتھ میں تھما دی اور کہنے لگے ! آپ اُمید رکھیے اِنشاء اﷲ وہ اب اِمپرو (Improve)ہورہا ہے۔اگر وہ دوائیوں کو سہی طریقے سے ریسپونس (Response) کرنے لگے گا تو بہت جلد ٹھیک ہو جائے گا۔آپ دوائیاں لا کر نرس کو دیدیجیے وہ آگے کا کام کریں گے اور اسپتال میں شاہد کے ساتھ آپ رُکیے۔بھابی جی اور اسماء کو گھر بھیج دیجیے۔

ریاض جلدی سے دوائیاں لے کر آگئے اور آئی۔سی ۔یو کے اندر جاہی رہے تھے کہ نرس نے آواز لگائی۔۔ ٹہرئیے۔ آپ دوائیاں مجھے دے دیجیے میں اندر رکھ دوں گی۔ریاض نے دوائیوں کی تھیلی نرس کو دے دی اور پوچھنے لگے کہ میرے بیٹے کی حالت اب کیسی ہے ۔نرس نے بتایا ابھی جسم میں زہر کا اثر بہت ہے وہ جیسے جیسے کم ہوگا وہ ہوش میں آجائے گا۔زیبون دور سے ریاض کو نرس سے باتیں کرتا دیکھ اُنکے طرف دوڑی چلی آئی۔آخر ماں تھی۔۔ کہاں سے پتھر کا کلیجہ لاتی۔ نرس سے پوچھنے لگی ! کیا میں اپنے بیٹے کو دیکھ سکتی ہوں۔نرس نے منع کیا۔درمیان میں ریاض نے کہا وہ بالکل ٹھیک ہے چلو۔ اسماء فرش پر بیٹھی اب بھی کچھ پڑھ رہی تھی۔ریاض اُس کے قریب گئے اور کہا ! بیٹی تم امّی کے ساتھ گھر چلی جاؤ ، میں اسپتال میں رہوں گا۔ اتنے میں اُن کے پڑوسی قادر بھائی جو ریاض کے بہت اچھے دوست تھے کہنے لگے کہ تم بھی چلے جاؤ میں اسپتال میں رہونگا۔آخر کار زیبون ، اسماء کو پڑوسیوں کے ساتھ گھر روانہ کیا ، ریاض اور قادر بھائی اسپتال میں رہ گئے۔

اسپتال کی ایک رات ریاض کے اوپر ایک سال کی طرح گذری اور اُدھر گھر میں زیبون اور اسماء بھی جاگتے رہے۔سچ ہی
مُدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے وہی ہوتا ہے جو منظورِ خداہوتا ہے

شاہد کی کامیاب خود کشی کی کوشش کے باوجود اﷲ نے اُسے زندگی کا پروانہ عطا کیا۔صبح ہوتے ہوتے اُسے نیم ہوش آگیا۔ڈاکٹر صاحب نے اُسے آئی۔سی۔یو سے جنرل وارڈ میں شِفٹ کروایا۔ گلی کے لوگ ، رشتہ دار، خاص کر زیبون ، اسماء ، ریاض بہت خوش تھے۔گلی کے لوگوں نے ریاض سے تاکید کی کے آپ شاہد کو اب کچھ مت کہیے ، اُسے مکمل ٹھیک ہو جانے دیجئے بعد میں ہم سب مل کر اُسے سمجھائیں گے۔زیبو ن نے بات کاٹتے ہوئے کہا ! یہ اُسے کچھ بھی نہیں کہتے۔ہر بار اُسے ہمت دیتے ہیں،اور ہمیشہ کہتے رہتے ہیں کہ نوکری کی فکر مت کرو ،علم کبھی ضائع نہیں ہوتا۔اتنے میں ریاض جذباتی ہو کر کہنے لگے۔اب مجھے کچھ نہیں چاہئیے ، نہ ہی میرے بیٹے کے لئے نوکری ، بس وہ ٹھیک ہو جائے میرے لئے کافی ہے۔

کہتے ہیں وقت ہر زخم بھر دیتا ہے۔دن گذرتے گئے شاہد کی زندگی میں اُمید پھر سے جگہ کرنے لگی۔پر وہ اپنے ابّو کے سامنے اپنے آپ کو شرمندہ محسوس کرتا۔ایک دن زیبون کے سے کہنے لگا ! امّی میں ابّو سے کیسے بات کروں۔ ان کی کوئی غلطی نہیں ہے۔مجھے ہر بار امتحان میں اچھا کرنے کے باوجود یہ کوٹہ سِسٹم (Quota System) کی وجہ سے سیٹ ملنے سے رہ جاتی تھی۔میں ہر بار نا اُمید ہوتا گیا۔رشتہ دار اورلوگ ہمیشہ مجھ سے میری نوکری کے بارے میں سوال کرتے۔اس وجہ سے اکثر میں آپ کے ساتھ کسی بھی فنکشن میں جانے کے لئے منع کرتا۔کیا جواب دیتا میں اُن کے سوالوں کا ؟ میں اندر ہی اندر گُھٹتا گیا اور شیطان کے بہکاوے میں آکر یہ گندی حرکت کر بیٹھا۔ میں معافی کے لائق نہیں ہوں پھر بھی آپ سب مجھے معاف کردو۔اتنے میں ریاض کمرے میں داخل ہوئے۔بیٹے کے قریب جا کر سینے سے لگا لیااور کہا ! اب کچھ مت کہو،سب بھول جاؤ، پہلے اس اسپتال سے گھر چلتے ہیں۔
گھر میں دوسرے دن شاہد اپنے بستر پر لیٹا کچھ سوچ رہا تھا کہ اسماء اور زیبون اُس کے کمرے میں داخل ہوئے۔
اسماء : بھائی جان میں آپ سے بہت ناراض ہوں۔ آپ کو معلوم نہیں میں آپ سے کتنا پیار کرتی ہوں۔امّی سے بھی زیادہ۔۔ امّی میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نہ۔ آپ بھائی جان کو سمجھاتی کیوں نہیں اﷲ تعالیٰ نے اتنی خوبصورت زندگی دی ہے ہم صرف نوکری کو لے کرنا اُمید کیوں ہوں ؟ ایک راستہ جب بند ہوتا ہے تو اﷲ تعالیٰ ہزار راستے کھول دیتا ہے۔
زیبون : تو بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے۔ (شاہد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) خدانخواستہ تجھے کچھ ہو جاتا تو ہم سب کیا کرتے ؟
شاہد : (روتے ہوئے) آپ مجھے معاف کر دیجیے۔میری یہ بہت بڑی غلطی ہے۔میں نے آپ سب کی خوشیوں کی بھی پرواہ نہ کی۔اﷲ کے فضل سے اور آپ سب کی دُعاؤں سے مجھے دوسری زندگی ملی ہے ۔میں اسے ضائع نہ ہونے دوں گا۔

اتنی بات کر ہی رہے تھے کہ ریاض اپنے ساتھ محلّے کے عالم صاحب کو گھر لے آئے۔اُنہوں نے نصیحتاً شاہد کو کچھ باتیں کہیں۔ اب شاہد بدل چُکا تھا اُس کے اندر اﷲ کا خوف اور اُمیدگھر کر رہی تھی۔اب وہ اپنے ابّو کے ساتھ محبّت سے بات کرتا،اُنکا قد اُس کی نظروں میں بڑھ گیا تھا۔بہن تو پہلے ہی آنکھ کا تارا تھی اور بھلا ماں سے کون دشمنی کر سکتا ہے۔شاہد نے اپنے گھر کے اوپر والے کمرے میں اپنی کتابیں جمع کیں۔ نماز کی پابندی کے ساتھ پڑھائی کرنے لگا۔ بے شک اﷲ تعالیٰ نے ہر بندے سے رزق کا وعدہ کیا ہے پھر شاہد کیوں کر الگ رہتا۔ کچھ ہی دنوں میں اُسے ریلوے ڈپارٹمنٹ میں کلرک کی نوکری مل گئی۔اب وہ بہت خوش رہتا ہے دوسرے جوان بچوں کو نوکریوں کے لئے گائیڈ کرتا ہے اور ہر ایک کو اﷲ سے اُمید رکھنے پر زور دیتا ہے۔

IMRAN YADGERI
About the Author: IMRAN YADGERI Read More Articles by IMRAN YADGERI: 26 Articles with 33734 views My Life Motto " Simple Living High Thinking ".. View More