سنگھ پریوار کا شکار ۔۔۔ہمارے دانشور

دہشت گردی کا الزام اس صدی کے آغاز سے ہی ساری دنیا میں مسلمانوں پر قہر بن کر ٹوٹا۔ ’’9/11 ‘‘ کا ڈرامہ رچانے کے فوری بعد امریکہ نے اپنے اور صیہونی منصوبے کے مطابق 9/11کا الزام مسلمانوں پر عائد کیا گیا اور اس وقت کے صدر امریکہ بش نے دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے عالم اسلام کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور تقریباً تمام مسلم حکمرانوں دنیا بھر کے مسلمان علماء، زعماد، دانشوروں اور صحافیوں نے مسلمانوں پر عائد کردہ الزامات کو مسترد کرنے کی جگہ بلاثبوت تسلیم کرلیا اور بلاوجہ معذرت خواہی شروع کردی کہ اسلام دہشت گردی نہیں سکھاتا ہے جو دہشت گردی کرتا ہے وہ مسلمان نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ جن مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگایا گیا ہے وہ صحیح ہے۔ وہ ہیں تو مسلمان لیکن انہوں نے اسلام کی تعلیم کی خلاف ورزی کی ہے اس لئے مسلمان نہیں رہے ہیں۔ ملزم بنائے گئے مسلمانوں کا دفاع کرنے کی ذمہ داری تھی پر وہ مسلمانوں کا دفاع تو نہ کرسکے الٹا اسلامی تعلیمات کا دفاع شروع کیا گوکہ اس کی بھی ضرورت بلاشبہ تھی لیکن ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اسلام دشمنوں سے کہا جاتا کہ اسلام دہشت گردی نہیں سکھا ہے جن پر تم الزامات لگارہے ہو اس کو ثابت کرو اور جلد ثابت کرسکتے ہوتو کرو ورنہ مسلمانوں کے خلاف یہ بے ہودہ پروپگنڈہ بازی بند کرو۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صیہونیوں اور امریکہ کا داؤ چل گیا اور ساری دنیا میں مسلمان گناہ بے گناہی کی سزا (محض اپنے حکمرانوں، قائدین، علماء، زعماء، اکابرین، دانشوروں کی وجہ سے پارہے ہیں۔

یہی ہندوستان میں ہوا لیکن ہندوستان میں اب کچھ عرصہ سے چند مسلمان جو اپنے آپ کو بے زعم خود دانشور اور نہ جانے کیا کیا سمجھتے ہیں وہ اپنے احمقانہ دانشوری سے مسلمانوں کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ ان خود ساختہ دانشوروں میں انگریزی میں لکھنے والے ہی زیادہ ہیں کیونکہ ہم جیسے لوگوں کی باتیں بنیاد پرستی، انتہا پسندی، قدامت پسندی اور نہ جانے کون کون سی ’’پسندی‘‘ لگتی ہیں۔ اس لئے قومی انگریزی اخبارات کیلئے بہت لائق، قابل اور بے باکی سے لکھنے والے مسلمان بھی شجرممنوعہ ہیں۔ انگریزی میں لکھنے والے یہ روشن خیال، لبرل اور ترقی پسند اور سیکولر (نام نہاد) افراد اپنی دانشوری کے مظاہرے کے لئے کبھی مودی کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی انڈین مجاہدین کے مفروضہ وجود کو حقیقی تسلیم کرتے ہوئے یہ نکتہ آفرینی کرنے لگے ہیں کہ مسلمانوں کے دشمنوں نے فسادات سے متاثر ہونے والے نوجوانوں کو ورغلاکر اپنے مذموم مقاصد (دہشت گردی) کیلئے استعمال کررہے ہیں اور اسی مقصد کے لئے انڈین مجاہدین قائم کی گئی ہے۔ چلئے چھٹی ہوئی کہاں تو یہ مطالبہ تھا کہ بغیر ثبوت مسلمان نوجوانوں کو دہشت گردی کے مفروضہ، جعلی اور جھوٹے الزامات میں گرفتار نہ کرو اور جھوٹے مقدمات میں ماخود نہ کرو غیر مسلم بھی ایسے ہی خیالات کے حامل تھے انڈین مجاہدین کے وجود کو تو جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے بھی تسلیم نہ کرتے ہوئے اسے ایجنسیوں اور ذرائع ابلاغ (میڈیا )کی اختراع قرار دیا تھا لیکن گنے چنے ٹی وی پروگراموں پر آنے والے اور انٹرنیٹ کے فورمس پر انگریزی میں لکھنے والے دانشوروں نے مارے دانشوری کے انڈین مجاہدین کو بھی تسلیم کرلیا مسلمانوں کا دہشت گردی میں ملوث ہونا بھی تسلیم کرلیا یعنی وہی بات ہوئی ’’گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ اور جو کسی نے اعتراض کیا تو معہ اپنے چمچوں کے اس پر ٹوٹ پڑے اور جب بتایا گیا کہ تم نے تو پوری قوم کو نقصان پہنچایا ہے تو نہ ان سے جواب بن پڑتا ہے اور نہ ہی چمچے کچھ کہتے یا لکھتے ہیں۔ قوم کو ملت کو نقصان پہنچانے والوں کی اس قسم کی باتوں سے ہی سنگھ پریوار اور اس کے زیر اثر میڈیا، انتظامیہ اور پولیس کو ہمارے خلاف محاذ کھڑا کرتے ہیں، الزام تراشی کرتے ہیں تو یا مسلمانوں کے خلاف لگائی جانے والی آگ کو ایندھن ہمارے ہی مسلمان بھائی فراہم کررہے ہیں۔

ایک ایسے وقت جبکہ وطن عزیز میں ہمارے خلاف ’’فتنہ مودیت ‘‘سر اٹھارہا ہے۔ جس طرح آنجہانی ہیمنت کرکرے سے قبل دہشت گردی کے لئے صرف اور صرف مسلمانوں کو مورد الزام قرار دیا جاتا تھا اور ہندوتوا کے علم برداروں کے دہشت گرد ہونے کی بات سونچی بھی نہیں جاتی تھی۔ پھر وہی دور لوٹ آیا ہے۔ نیز دہشت گردی کے کئی واقعات میں ہندو دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے ثبوتوں کے علاوہ 2001ء میں پارلیمان پر ہوئے حملے کے لئے اس دور کی این ڈی اے حکومت کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے تاکہ دہشت گردی کے خلاف سخت قانون بنایا جاسکے چنانچہ مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لئے ہی ’’پوٹا‘‘ نامی کالا قانون نافذ ہوا اور ایسی ہی باتیں 26/11 کے ممبئی حملوں کے بارے میں کہی جارہی ہیں ہمارے خود ساختہ دانشور محض خود کو نمایاں کرنے کے لئے مسلمانوں پر الزام لگاکر مسلمانوں پر الزام لگانے والوں کو تقویت پہنچارہے ہیں۔ مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگانے والے ایک دانشور نے ایک ٹی وی کے مذاکرہ میں کہا تھا کہ مسلمانوں کے معاشی حالات اس وجہ سے خراب ہیں کہ ملک کے سارے عوام کی بھی معاشی حالت پست ہے۔ اس قسم کی باتیں اس مرعوب اور خوشامدانہ ذہنیت کی غمازی کرتی ہیں جو آزادی کے بعد کی مسلم قیادت کا وتیرہ رہا ہے جو مسلمانوں پر الزام تو لگاسکتی تھی لیکن مسلمانوں کے لئے تحفظات، سہولیات اور مراعات کی بات تک سننا گوارہ نہیں کرتی تھی۔ اسی قیادت کی تقلید آج بھی جاری ہے۔

’’جو ہوا سوہوا‘‘ کہہ کر مسلمانوں کو 2002کے گجرات کو بھلادینے والوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اب مقابلہ ہندوتوا کے نظریات کے علمبرداروں سے نہیں بلکہ اس نظریہ کو مسلم دشمنی کے قالب میں ڈھالنے والے آر ایس ایس یا ہیڈ گواریا گول والکر کے جانشینوں سے راست ہے۔ اس لئے پوری ہمت، دانش مندی، بہادری اور جرأت مندانہ تدبر سے کام لیناہے نہ کہ کسی قسم کی مرعوبیت خوف یا مصلحت سے کام لے کر اپنی کمزوری کا اظہار کرتا ہے۔ ہم کو جارحیت سے ہر حال میں دور رہنا ہے لیکن اپنے پر ہونے والے حملوں کا دفاع پوری قوت سے جارحانہ انداز میں کرنا ہے اس کی مثال یہ ہے کہ اگر دہشت گردی کے سلسلے میں انڈین مجاہدین کا تذکرہ اس حوالے سے بھی آئے کہ فسادات سے متاثر ہونے والے نوجوان اپنے غم و غصہ کا اظہار کرنے کے لئے دہشت گردی پر آمادہ ہوسکتے ہیں یا ہندوتوا کے علمبردار مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے انڈین مجاہدین قائم کرسکتے ہیں۔ یاد رکھئے کہ یہ گھماپھراکر مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کنے یا انڈین مجاہدین کے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش ہے۔ افسوس کہ ہمارے بعض دانشور، صحافی اور قائدین بھی اس جال میں پھسنے لگے ہیں۔ ہم کو مبینہ ملزم پر تیزی سے سماعت کرنے والی عدالتوں (فاسٹ ٹریک کورٹس) میں مقدمہ چلاکر الزامات ثابت کرنے کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ اسی طرح قطع نظر اس کے کہ انڈین مجاہدین کس نے اور کیوں قائم کی ہے؟ اس بات پر اصرار کرنا چاہئے کہ اس کا وجود پہلے ثابت کرو پھر اس کو قائم کرنے والوں اور قائم کرنے کی وجہ کی بات ہوسکتی ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ سنگھ پریوار کی امداد کرنے والے اور اس کے مشیر صیہونی اور یہودی ہیں اور اب مودی بھی وہ مودی نہیں رہے ہیں جو گجرات فسادات کے دفاع میں ’’عمل اور ردعمل‘‘کے نیوٹن کے کلیہ کا سہارا لیتے تھے اب وہ مودی آپ سے ہمدردی کے بہانے راہول گاندھی اور سیکولر عناصر کو نشانہ بناتے ہیں۔

ادھر کچھ دنوں سے ہماری خفیہ ایجنسیوں اور پولیس پر ہرسمت سے دباؤ پڑنے لگا تھا کہ انڈین مجاہدین کا وجود ثابت کرو پٹنہ دھماکوں کے بعد پھر انڈین مجاہدین کے چرچے ہونے لگے ہیں لیکن جب اس سلسلے میں دہشت گردی کے لئے مبینہ دہشت گردوں کو مالی امداد بلکہ سرمایہ فراہم کرنے کے لئے ہندوافراد کا جب نام آیا تو انڈین مجاہدین کے فرضی وجود کی عمارت پر کاری ضرب پڑی لہٰذا اس کے ازالے کے لئے ان سرمایہ فراہم کرنے والون کے ’’آقاؤں‘‘ کا ذکر تخلیق کیا گیا اور کہا گیا کہ انڈین مجاہدین کو سرمایہ فراہم کرنے والوں کو سرحد پار سے ہدایات ملتی ہیں اسی لئے سرمایہ فراہم کرنے والوں کو دہشت گرد بھی قرار نہیں دیا گیا۔ ان ہندووں کو ضروری ہدایات پاکستان اور منگلور سے ملنے کا ثبوت کیا ہے؟ پاکستان سے ہدایات ملنے کی بات کوئی نئی نہیں ہے حالانکہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ ان کو ہدایات آر ایس ایس کے صدر دفتر ناگپور یا مودی کے شہر احمد آباد سے ملتی ہوں لیکن اس قسم کے امکانات پر ہماری پولیس اور ایجنسیاں غور نہیں کرسکتی ہیں۔ اس طرح ایک بار پھر انڈین مجاہدین کے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ گجراتی قائد شنکر سنگھ واگھیلا کا یہ بیان کہ آر ایس ایس اور بی جے پی انڈین مجاہدین کو سرمایہ فراہم کرتی ہیں۔ انڈین مجاہدین کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہے یا یہ کہنا کہ انڈین مجاہدین کی پشت پر سنگھ پریوار ہے کوئی وجدانی فیصلہ نہیں ہے۔ محض بی جے پی یا سنگھ پریوار کو بدنام کرنے کے لئے شنکر سنگھ واگھیلا نے ایک بیا دیا ہے لیکن وہ بھی انڈین مجاہدین کے وجود کو ثابت نہیں کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ انڈین مجاہدین کا وجود آج تک ثابت نہیں ہوا ہے۔

اس طرح ہمارے چند دانور، صحافی اور اکابرین سنگھ پریوار اور پولیس و ایجنسیوں کے جال میں پھنس کر ملت کی مشکلات میں اضافہ ہی کرسکتے ہیں۔

Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 165145 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.