کہتے ہیں ’’کشمیر جنت ہے،جنت کسی کافر کو نہ ملی ہے ملے
گی‘‘قیام پاکستان کے بعد بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا ۔اقوام متحدہ
کی قراردادوں کا بھی اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔آج تلک کشمیری مسلمان انڈیا
کے مظالم برداشت کرتے آئے ہیں۔اس عرصے میں کشمیریوں کی بے مثال قربانیوں کو
کسی صورت نہیں بھلایا جا سکتا۔جموں کشمیر میں جب انڈین آرمی کشمیری
مسلمانوں پر مظالم کرتی ہے تو وہاں مسلمان اس کے مقابلہ میں پاکستان سے
رشتہ کیا لاالہ الااﷲ اور کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگاتے ہوئے جانیں
قربان کر دیتے ہیں۔کشمیریوں کے جذبہ حریت کو سرد کرنے کرنے کی بھارت نے
کوشش کی مگر ناکام ہوا۔پاکستان کشمیریوں کا سب سے بڑا وکیل ہے۔پاکستان اور
انڈیا کے مابین سب سے بڑا تنازعہ ہی کشمیر کا ہے۔پاکستان کشمیر کو شہہ رگ
جبکہ انڈیا اسکو اٹوٹ انگ کہتاہے۔کشمیری عوام پاکستان کا ساتھ چاہتی ہے مگر
انڈیا کے مظالم وہاں تھمنے کا نام نہیں لیتے،انسانی حقوق کا واویلا کرنے
والی نام نہاد این جی اوز کو پاکستان میں مختاراں مائی کے ساتھ زیادتی تو
نظر آ جاتی ہے مگر کشمیر میں روازنہ انڈین آرمی کے درندوں کے ہاتھوں عصمتیں
تار تار ہوتی ہیں اس پر وہ کیوں خاموش ہیں؟۔ایک ملالہ پر حملے سے ساری دنیا
احتجاج کرتی نظرا ٓتی ہے اور اسکے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جاتا ہے مگر کشمیر
میں ہندو فوج مسلمان بچیوں کے ساتھ جو سلوک کر رہی ہے وہ کسی کو کیوں نظر
نہیں آتا؟انسانی حقوق کے عالمی ادارے خاموش تماشائی نظر آتے ہیں ۔اقوام
متحدہ نے قراردادیں تو پاس کیں مگر کشمیریوں کو اپنا حق نہ ملا۔وزیر اعظم
پاکستان نواز شریف نے اقوام متحدہ میں کشمیر کا مسئلہ جراتمندی کے ساتھ
اٹھایا جس پر انڈیا میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔حال ہی میں سرتاج عزیز نے دہلی کے
دورے کے دوران حریت رہنماؤں سے ملاقات میں میاں نواز شریف کا یہ پیغام
پہنچایا تھا کہ پاکستان کشمیریوں کی حمایت جاری رکھے گا۔لیکن چند روز بعد
ہی وزیر اعظم نواز شریف نے لاہور میں ہونے والی چوتھی عالمی ادبی و ثقافتی
کانفرنس میں کہا کہ ہم انڈیاکے ساتھ ویزہ کی پابندی ختم کرنا چاہتے ہیں ۔اور
بھارت کے ساتھ دوستی و تجارت چاہتے ہیں اگر بھارت ایک قدم چلے گا تو ہم دو
قدم چلیں گے۔پاکستانی وزیر اعظم نے جس روز یہ بیان دیا اسی دن خبر آئی کہ
بھارت نے اپنے اتحادی اسرائیل کے اقدامات سے متاثرہوکرمقبوضہ وادی میں
دیوار کی تعمیر شروع کردی ہے جو اسرائیلی اور دیواربرلن سے اونچی جبکہ
136فٹ چوڑی اور169کلومیٹرلمبی ہوگی۔ وزارت داخلہ کے فنڈسے اس دیوار کی
تعمیر کی ذمہ داری بارڈرسیکیورٹی فورس( بی ایس ایف) کو سونپی گئی ہے۔دیوار
کی تعمیر کے لیے سرحد سے ملحقہ 86دیہات کے کاشتکاروں کے زیرکاشت اراضی کے
حصول کی غرض سے قانونی کارروائی اور ریاستی حکومت سے این او سی (نواوجیکشن
سرٹیفکیٹ) لیاجارہاہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے
درمیان بنائی جانیوالی ممکنہ دیوار 118دیہاتوں سے گزرے گی اور دیوار برلن
سے دوگناموٹی اور چوڑی ہوگی۔ بھارت کا یہ اقدام اقوام متحدہ کی سلامتی
کونسل میں کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کے فیصلے اور عالمی قوانین کے
منافی ہے۔بھارت قانونی طورپر یہاں دیوار تعمیر نہیں کرسکتالیکن اس کے
باوجود ہٹ دھرمی کے تحت غیرقانونی دیوار تعمیر کرنے پر غورشروع کردیاہے۔
بھارت مقبوضہ کشمیر میں ایک نیا تنازع کھڑاکرنے جارہاہے۔پاکستانی وزیر اعظم
انڈیا کے ساتھ دوستی کی باتیں کر رہے ہیں۔ نوازشریف کی طرف سے بھارت اور
پاکستان کے درمیان ویزے کی پابندی ختم کرنے کی پیشکش سرحدوں کو ختم کرنے کے
مترادف ہے اور سرحدوں کو ختم کرنا کانگریس کا ایجنڈا تو ہوسکتاہے ،مسلم لیگ
کا نہیں۔ بھارت پاکستان کو ختم کرنے کے درپے ہے اور اس کا 66 سالہ طرز عمل
اس پر گواہ ہے۔ پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے ہم بھی خواہاں
لیکن تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ پاکستان نے جب بھی بھارت کے ساتھ دوستی
کا ہاتھ بڑھایا ، اس نے تکبر کے ساتھ جھٹک دیا۔ ہم بھارت کے ساتھ کشمیر اور
آبی جارحیت سمیت تمام معاملات بات چیت کے ذریعے حل کرناچاہتے ہیں لیکن
بھارت مذاکرات کو سنجیدگی کے بجائے وقت گزاری کے لیے استعمال کرتاہے۔ اس
وقت بھارت پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے بلوچستان اور فاٹا میں روپیہ اور
اسلحہ تقسیم کر رہاہے لیکن میاں نوازشریف کا یہ بیان کہ ’’ بھارت کے ساتھ
ویزا پابندیاں ختم ہونی چاہئیں‘‘ ان کا یہ اقدام پاکستان کو بھارتی ایجنٹوں
کی چراگاہ بنانے کے متراد ف ہوگا۔ وزیر اعظم کے اس بیان پر امیر جماعۃ
الدعوۃ پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید،دفاع پاکستان کونسل کے
کنوینئرجنرل(ر) حمید گل،علامہ احمد لدھیانوی،لیاقت بلوچ نے کہا کہ وزیر
اعظم یکطرفہ محبت کی پینگیں بڑھانے کی بجائے پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمہ
کے لیے کردار ادا کریں۔ قوم نے نواز شریف کو مینڈیٹ مسلمانوں کی قاتل بی جے
پی سے دوستی اور مذاکرات کی ٹیبل سجانے کے لیے نہیں دیا۔ کشمیر اور
پاکستانی دریاؤں پر قابض ہندوستان وطن عزیز میں دہشت گردی اور فرقہ وارانہ
فسادات کروانے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتا۔ اب کشمیر کو پاکستان سے جدا
کرنے کے لیے دیوار برلن کی طرز پر دیوار تیار کررہا ہے۔ کشمیری کئی دہائیوں
سے ظلم کے سامنے دیوار بنے پاکستان سے الحاق کے نعرے لگارہے ہیں۔ مگر ہمارے
حکمران بھارت سے دوستی، تجارت اور ویزے ختم کرنے کے اعلانات کرکے کشمیریوں
کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔ اس وقت امریکا اور بھارت نے پاکستان پر جنگ
مسلط کررکھی ہے۔ جو ملک میں دہشت گردی کروا کر ملک کو عدم استحکام سے دوچار
کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے حالات میں ملکی دفاع کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ
وقت بھارت سے دوستی اور مذاکرات کا نہیں بلکہ قوم کو دہشت گردی سے نجات
دلانے کی ضرورت ہے۔حمید گل نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ نواز شریف صبر کریں
بھارت میں پاکستان مخالف جماعت برسر اقتدار آنے والی ہے ۔بی جے پی کے
نریندر مودی جس نے گجرات میں ساڑھے چار ہزار بچوں کا قتل عام کیا ۔نواز
شریف صاحب کشمیریوں کی قربانیوں،تحریک آزادی کشمیر کو فراموش کر کے
اس’’مودی‘‘ کے ساتھ دوستی کریں گے؟وزیر اعظم کشمیر یوں کے حق خود ارادیت کی
بات کریں اور دیکھیں پھر انڈیا کیا کرتا ہے؟انڈیا نے تو پاکستان کا پانی
بند کر رکھا ہے۔ انڈیا کے ساتھ دوستی کر کے کشمیریوں کی قربانی کو فراموش
کردیں گے جو آزادی کے حصول کے لئے انڈیا کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں مگر لاشوں
پر لاشے اٹھا کر ابھی تک وہ تھکے یا ہارے نہیں۔میاں صاحب سوچنے کا نہیں
بلکہ فیصلے کرنے کا وقت ہے۔آپ انڈیا کے ساتھ تجارت کریں۔مگر یہ
غیورپاکستانی قوم مسلمانو ں کے قاتل اور وطن عزیز میں تخریب کاری کرنے والے
انڈیا کے ساتھ کبھی بھی دوستی وتجارت قبول نہیں کرے گی۔ |