وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کنونشن سینٹر اسلام
آباد میں ’’ 11ویں پانچسالہ منصوبے2013-18اور وژن2025ء‘‘ کے لئے قومی
مشاورتی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا۔کانفرنس میں چاروں صوبوں کے
وزرائے اعلی ،وفاقی وزراء ،ممبران پارلیمنٹ ،وزیر اعظم آزاد کشمیر اور ایک
ہزار ماہرین نے شرکت کی۔تاہم گلگت بلتستان کے وزیر اعلی کی شرکت کی کوئی
اطلاع نہیں۔وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ امریکہ پر واضح کیا
گیا ہے کہ ڈرون حملے کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں۔یہ پاکستان کی خود مختاری
کے خلاف ہیں۔ڈرون حملے کی وجہ سے طالبان سے مزاکرات کی تیاری دھری کی دھری
رہ گئی۔انہوں نے کہا کہ ہم بھارت اور افغانستان سے اچھے تعلقات چاہتے
ہیں۔بجلی کا مسئلہ حل کرنے میں چار سال لگیں گے۔اس موقع پر وزیر اعظم نواز
شریف نے وزارائے اعلی،وفاقی وزراء کا نام لینے کے بعد آزاد کشمیر کے وزیر
اعظم چوہدری عبدالمجید کو مخاطب کر کے کہا کہ میں آپ کو بھولا نہیں ہوں،آپ
میرے لئے اسی طرح ہیں جس طرح میرے وزرائے اعلی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب میں
وزیر اعظم بنا تو بعض لوگ وزیر اعظم آزاد کشمیر کی حکومت تبدیل کرنے کے لئے
سرگرم ہو گئے۔وزیر اعظم آزاد کشمیر نے مجھے ٹیلیفون کیا تو میں نے ان سے
کہا کہ آپ کی اپنی پارٹی حکومت بدل دے تو الگ بات ہے ورنہ میری پارٹی ایسا
نہیں کرے گی۔میرے اپنے لوگوں نے کہا کہ جمہوری طریقے سے وزیر اعظم کو تبدیل
کرنا ہمارا حق ہے لیکن میں نے انکار کر دیا ۔وزیر اعظم نے کہا کہ میں اکھاڑ
پچھاڑ کے حق میں نہیں ہوں۔آج آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت
ہے،بلوچستان میں وزیر اعلی ڈاکٹر عبدالملک کی مخلوط حکومت ہے جس میں ہم بھی
شریک ہیں،سندھ میں قائم علی شاہ وزیر اعلی ہیں،ہم ہر معاملے میں سندھ حکومت
کی بھرپور مددکر رہے ہیں۔خیبر پختون خواہ میں پرویز خٹک وزیر اعلی ہیں وہاں
تحریک انصاف کی حکومت ہے،ان سے میرا وہی روئیہ ہے جو شہباز شریف سے ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف ملک کے 11ویں پانچسالہ پروگرام اور پاکستان کے
وژن2025ء کی کانفرنس میں آزاد کشمیر سے متعلق ترقیاتی منصوبوں کے خد
وخال،کشمیر کاز سے متعلق حکومت پاکستان کے وژن2025ء پر روشنی ڈالتے تو
مناسب ہوتا۔ اس کے بجائے پاکستان کی ’’ بڑی سیاسی امید‘‘ وزیر اعظم نواز
شریف نے آزاد کشمیر میں اپنی پارٹی کو تو نہیں لیکن اپنے ’’سیاسی فوائد‘‘کے
حصول کو زیادہ ضروری تصور کیا۔زود عام ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف
اور سابق صدر آصف علی زرداری کے درمیان مفاہمتی عمل میں یہ بھی طے پایا تھا
کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کی حکومتوں کو ختم نہیں
کیا جائے گا۔یعنی وزیر اعظم نواز شریف کے پنجسالہ منصوبے میں آزاد کشمیر
/ریاستی عوام کے لئے یہی پیغام ہے کہ آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی چوہدری
عبدالمجید حکومت کو ختم نہیں ہونے دیا جائے گا۔آزاد کشمیر کی سیاست میں
پیپلز پارٹی کے اندر انتشار و لڑائی اب بھی جاری ہے لیکن وزیر اعظم نواز
شریف اس حکومت کو کمزور ہونے سے بچانے کے لئے اپنا dominate کردار ادا کر
رہے ہیں۔ آزاد کشمیر کے عوام تو وزیر اعظم پاکستان سے یہ توقع استوار کئے
رہے کہ وہ آزاد کشمیر حکومت کی بدعنوانیوں،اقرباء پروری،بندر بانٹ اور بد
انتظامی کی بدتر صورتحال کا سخت نوٹس لیں گے لیکن اس کے بجائے آزاد کشمیر
میں سیاسی’’ خانہ جنگی‘‘ کی شکارپیپلز پارٹی حکومت کوبار بار سہارا دیا جا
رہا ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ وزیر اعظم نواز شریف آزاد کشمیر کے امور
میں غیر جانبدار نہیں رہے ہیں،ان کی اس جانبدار ی سے آزاد کشمیر کے دائیں
بازو کے اکثریتی نظریاتی کارکن مایوس ہو رہے ہیں اور آزاد کشمیر حکومت کی
کرپشن،اقرباء پروری ،بد انتظامی کو وزیر اعظم پاکستان کی ’’غیر متزلزل‘‘
حمایت سے تقویت پہنچ رہی ہے۔
بلاشبہ اگر وزیر امور کشمیر یا وفاقی حکومت کی دوسری شخصیات آزاد کشمیر میں
حکومت تبدیل کرنے کوشش کریں تو اس کی کسی طور حمایت نہیں کی جاسکتی لیکن
آزاد کشمیر اسمبلی کے ارکان کو ان کی باہمی مفاہمت کے نتیجے میں حکومت کے
خلاف عدم اعتماد سے روکنا ،ان کے آئینی اختیار پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کے اس اعلان سے کئی شخصیات کے دن ہی نہیں ان کی راتوں
کے سپنے بھی رنگین ہو گئے ہیں اور بہت سوں کی امیدوں اور توقعات پہ سیاسی
’’ڈرون حملہ ‘‘ہوا ہے۔ملک کے 11ویں پانچسالہ پروگرام اور پاکستان کے
وژن2025ء کی کانفرنس میں آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو پیغام
دیا گیا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی حکومت کے خاتمے کی مدت کا انتظار کریں۔ بنانے
والوں نے آزاد کشمیر میں پاکستان مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے عوام کی سیاسی
بے چارگی کے عالم میں قائم کرائی تھی،اس لئے نہیں کہ بار بار سیاسی بھینٹ
چڑھاتے ہوئے اسے کمزور ،لاچار کر دیا جائے۔ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ آزاد
کشمیر میں مسلم لیگ (ن) کے وجود پر ہی بڑے والیہ نشان لگ جائیں۔بعض افراد
کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے اس فیصلے کی صورتحال میں
آزادکشمیر کے ووٹروں کو پیپلز پارٹی کی جانب راغب کیا جا رہا ہے ۔اس سے
عوام کو ایک عمومی پیغام یہ بھی ملتا ہے کہ وہ ہر نئی حکومت کی بھرپور
حمایت اور تابعداری کا انداز اپنائیں،’’ بادشاہ مر گیا بادشاہ زندہ باد‘‘
کا نعرہ لگاتے ہوئے حکمران جماعت کے ہاتھ مضبوط کریں اور جانے والی حکومت
کی پارٹی کو چھوڑ کر نئی حکومت والی حکمران جماعت کی بیعت کر لیں۔
پاکستان مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر کے اعلی حلقوں کے مطابق وزیر اعظم پاکستان
کا یہ اعلان ’’گڈول‘‘ کے طور پر ہے ۔یہ ان کی سیاسی تقریر ہے جس کے آزاد
کشمیر پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہو سکتے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آزاد کشمیر
میں مسلم لیگ(ن) سکتے میں ہے،عالم نزاع میں ہے۔ اعلی جماعتی حلقوں کا یہ
بھی کہنا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف نے اصولی موقف اپنایا ہے
،پارٹی کے صدر کے طور پر بھی،تاہم یہ درست ہے کہ آزاد کشمیرمیں اس سے مسلم
لیگ(ن) کے کارکنوں میں مایوسی پائی جا رہی ہے،مسلم لیگ (ن) کو آزاد کشمیر
میں نقصان ہو رہا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو اس
بارے میں زمینی حقائق کا علم نہیں ہے۔ان کی طرف سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ
آزاد کشمیر سے متعلق وزیر اعظم محمد نواز شریف کا یہ فیصلہ ایک ’’سیاسی
صدقہ‘‘ ہے۔میرے خیال میں مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر کے رہنماؤں کے لئے بڑی
مشکل ہے کہ وہ دائیں بازو کے ان نظریاتی سیاسی کارکنوں کو ’’میاں صاحب کا
آڈر ہے‘‘ کہہ کر چپ کرانے کی کوشش کریں، جن کی سیاسی تربیت ہی یہ ہے کہ وہ
اصول و نظرئیے کی بنیاد پر قیادت سے واضح اختلاف کا روئیہ اورتنقید کرنے کا
حوصلہ رکھتے ہیں۔ درحقیقت وزیر اعظم نواز شریف کے اس فیصلے سے مسلم لیگ (ن)
آزاد کشمیر کی قیادت کے لئے بہت کچھ سوچناور اس حوالے سے عملی اقدامات
ضروری ہیں۔
اس صورتحال میں آزاد کشمیر کے دائیں بازو کے نظریاتی کارکن پریشان اور دباؤ
کا شکار ہیں کہ آزاد کشمیر میں نظریاتی ووٹر کو تقسیم کر دیا گیا ہے ۔آزاد
کشمیر میں دائیں بازو کے نظریاتی ووٹر واضح اکثریت میں ہیں لیکن لیڈروں کی
ذاتی انا،نفاق اور انتشارنے انہیں ’’وٹو و فریال ‘‘ فارمولے کے مطابق’’
کنٹرولڈ الیکشن‘‘ کے ذریعے مسلط کردہ حکومت کی بداعمالیاں بھگتنے پر مجبور
کر دیا ہے۔آزاد کشمیر کے کسی لیڈر کو کسی شخصیت کی تابعداری میں ہی سیاسی
معراج نظر آتی ہے،کسی کو مہاراجہ ہری سنگھ کی یاد ستاتی ہے اور کوئی ملٹری
ڈیموکریسی کو دائمی طاقت سمجھتے ہوئے ناگزیر قرار دیتا ہے۔اس ساری صورتحال
کا خمیازہ آزاد کشمیر کے دائیں بازو کے اکثریتی ووٹر بھگتنے پر مجبور
ہیں۔کشمیریوں کی بار بار قربان ہونے کی روایت کو ان کی کمزوری سے تعبیر
نہیں کیا جانا چاہئے اور نہ ہی قربانیوں کے لئے مخصوص قرار دیئے گئے
کشمیریوں کو بار بار سیاسی قربانیوں کے امتحان میں ڈالا جائے۔ |