بلدیاتی الیکشن کیلئے آج کل
ہرسیاسی پارٹی کے اجلاس جاری ہیں۔اس سلسلے میں ہرکوئی اپنی اپنی کوجماعت
کامیاب کروانے کیلئے کوشاں ہے تو اس دوڑ میں کون کامیاب یا ناکام ہوگا
البتہ یہ نظر آ رہا ہے کہ آئندہ چند ہفتے اس حوالے سے ہر روز ایک نیا تماشہ
دیکھنے کو ملے گا ۔جس طرح سابق فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف
آئین سے غداری کے الزام میں مقدمہ قائم کرنے کے لئے خصوصی عدالت کے قیام کے
ساتھ ہی ایک بار پھر قیاس آرائیوں اور الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا
ہے۔ دیگر قومی معاملات کی طرح پاکستانی عوام اس اہم سوال پر بھی بری طرح
تقسیم کر دئیے گئے ہیں۔ کہ کیا آئین کی خلاف ورزی قابل سزا جرم ہے یا ایسا
کرنے والے کو انعامات سے نوازنا چاہئے۔
اگرچہ اس مشکل صورتحال کو پیدا کرنے میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا
بنیادی کردار ہے۔ سابق حکمران کے خلاف آئین سے غداری کے الزام میں مقدمہ
چلانے کے بارے میں معاملہ گزشتہ کئی ماہ سے حکومت کے پاس موجود رہا ہے۔
سپریم کورٹ حکومت کو یہ مشورہ دے چکی تھی کہ پرویز مشرف پر 3 نومبر 2007ء
میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا مقدمہ قائم کیا جائے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی
کہ سابق فوجی حکمران کو عدالت سے محاذ آرائی کے نتیجے میں ہی اس وقت
ایمرجنسی کا سہارا لینا پڑا تھا اور عدالت عظمیٰ کا ایک بنچ غیر معمولی
سرعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ایمرجنسی کو غیر آئینی قرار دے چکا تھا۔طاقتور
اور برسر اقتدار جنرل پرویز مشرف نے اس وقت اس عدالتی فیصلے کی پرواہ کرنے
کی بجائے عدالت میں بیٹھے ججوں کو فارغ کر دیا تھا۔ کسی بھی فوجی حکمران کی
طرف سے پہلی بار عدلیہ پر بطور ادارہ وار کیا گیا تھا۔ اس سے قبل سارے ’’
فوجی انقلاب‘‘ سیاسی حکومتوں کے خلاف آئے تھے اور سیاست دان ہی معتوب ٹھہرے
تھے۔ پھانسی چڑھائے گئے تھے یا پابند سلاسل اور جلا وطن ہوئے تھے۔3 نومبر
2007ء کو ایک فوجی حکمران نے ملک کی سپریم کورٹ کو نا پسندیدہ قرار دیتے
ہوئے اس کے سب ججوں کو فارغ کر دیا اور اپنی مرضی کے ججوں کو ایک پسندیدہ
عدالت کا رکن اور سربراہ بنا دیا تھا۔ اس سے پہلے خلاف آئین کئے جانے والے
اقدامات کے برعکس اس بار ملک میں منتخب ہو کر آنے والی پارلیمنٹ نے ان
اقدامات کو منظور نہیں کیا اور نہ ہی بحالی عدلیہ تحریک کے نتیجے میں سامنے
آنے والی عدلیہ نے اس حکم کو قبول کیا تھا۔ اس لئے 3 نومبر 2007ء کا فیصلہ
پاکستانی تاریخ کا واحد فوجی حکم نامہ ہے جسے کسی قسم کی لولی لنگڑی اعانت
یا توثیق بھی نصیب نہیں ہوئی۔اس کے باوجود ملک میں جمہوریت بحال ہوئے 6 برس
ہو گئے لیکن سابق حکمران اور آئین کے پرخچے اڑانے والے جرنیل کے خلاف
کارروائی نہیں ہو سکی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ملک کے وزیر داخلہ نے ہفتہ
کے روز یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا جب ملک جمعہ کو راولپنڈی میں بھڑک
اٹھنے والے فرقہ وارانہ فسادات کی آگ کی تپش محسوس کر رہا تھا۔ اس وقت سب
لوگ وزیر داخلہ سے یہ توقع کر رہے تھے کہ وہ سانحہ راولپنڈی کے بارے میں
اہم اور ٹھوس اعلانات کریں گے اور متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش
کریں گے۔ اس کے برعکس چوہدری نثار علی خان نے ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا
اور پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت بنانے کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے
کے فیصلہ کا اعلان کیا۔
یوں تو یہ بات ماہرین قانون ہی بتا سکتے ہیں کہ اس جرم پر خصوصی عدالت
بنانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ لیکن بادی النظر میں اس کی کوئی وجہ سمجھ
نہیں آتی۔ اس کے یقیناکوئی سیاسی عوامل ضرور ہوں گے۔ اور وزیر داخلہ اس
اعلان سے اپنا کوئی خاص سیاسی مقصد حاصل کرنا چاہتے ہوں گے۔ لہٰذا وزیر
داخلہ کے اعلان پر داد و تحسین سے زیادہ تنقید سننے میں آئی۔ سب سے بڑا
سوال تو یہی تھا کہ عین ایسے موقع پر یہ بات کیوں اٹھائی گئی ہے جبکہ قوم
ایک انتہائی المناک سانحہ کا سامنا کر رہی تھی۔جس پھرتی سے چوہدری نثار علی
خان نے بال سپریم کورٹ کے کورٹ میں پھینکی تھی ، اسی پھرتی سے سپریم کورٹ
نے اس کا جواب دیا۔ وزارت داخلہ کا خط ملتے ہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے
فوری طور پر تمام ہائی کورٹس سے ایک ایک جج کا نام مانگ لیا۔ اگلے روز ہی
یہ نام موصول ہو گئے اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے یہ پانچوں نام
وزارت داخلہ کو بھجواتے ہوئے مشورہ دیا کہ ان میں سے تین ججوں پر مشتمل
خصوصی عدالت بنا دی جائے اور سب سے سینئر جج کو اس کا سربراہ بنا دیا جائے۔
اس طرح حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس فیصل عرب کی قیادت میں تین
رکنی خصوصی عدالت قائم کر دی۔اس طرح ملک کے چیف جسٹس اور وزیر داخلہ دونوں
سرخرو ہو گئے کہ ان پر کسی قسم کی جانبداری کا الزام عائد نہیں ہو سکتا۔
تاہم یہ سوال اپنی جگہ پر موجود رہے گا کہ اگر اس ملک میں چوری سے لے کر
قتل کرنے والے کے خلاف مقدمہ عام عدالتوں میں پیش ہوتا ہے تو حکومت کو آئین
کی خلاف ورزی کرنے والے ایک سابق جرنیل کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے خصوصی
عدالت قائم کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔
یہ رویہ اپنی جگہ پر امتیازی سلوک کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم اس پر بحث یہاں
مقصود نہیں ہے۔ صرف یہ واضح کرنا ہمارا مطمع نظر ہے کہ جو کام ایک ایف آئی
آر کاٹنے سے ہو سکتا تھا اس کے لئے گزشتہ کئی دنوں کی مشقت سے خصوصی عدالت
قائم ہوئی ہے۔ اب اس کی ہیئت کو سابق حکمران عدالت میں چیلنج کرنے کا عندیہ
دے چکے ہیں۔ اس سے اس ڈرامے کی اہمیت اور وسعت کا اندازہ کیا جا سکتا
ہے۔ایک جرم کے خلاف کارروائی معمولاتِ حکومت میں شام ہونا چاہئے۔ تاہم سابق
حکمران پرویز مشرف کے خلاف آئین کی خلاف ورزی کے حوالے سے مقدمہ قائم کرنے
کے اعلان سے ایک طوفان اٹھ کھڑا ہؤا ہے۔ بہت سے مبصرین اب بھی یہ فرما رہے
ہیں کہ دیگر مقدمات کی طرح اس مقدمہ کا بھی کچھ نہیں بنے گا۔ بلکہ عدالت نے
اگر پرویز مشرف پر عائد بیرون ملک سفر پر پابندی ختم کر دی تو وہ باآسانی
ملک سے باہر چلے جائیں گے اور خصوصی عدالت اور وزیر داخلہ ان کا بال بھی
بیکا نہیں کر سکیں گے۔بعض دور کی کوڑی لانے والے اس اقدام کو چوہدری نثار
علی خان کا میاں نواز شریف کی حکومت پر خوفناک حملہ قرار دیتے ہوئے اسے بھی
ایک سازش کا نام دے رہے ہیں۔ ان عناصر کا کہنا ہے کہ یہ اقدام میاں صاحب کو
بدحواس کرنے اور ان کی حکومت کو کمزور کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ کیونکہ ان
عناصر کے خلاف کارروائی میں پوری فوجی قیادت اپنے سابق سربراہ کی پشت پر
کھڑی ہے اور وہ کسی صورت اسے سزا نہیں ہونے دے گی۔ اس طرح ملک میں جمہوریت
کی بساط لپیٹنے کی تیاری ہو رہی ہے۔اس کے ساتھ ہی یہ نقطہء نظر بھی سامنے
لایا گیا ہے کہ اس طرح کا مقدمہ محض ایک شخص کے خلاف نہیں چل سکتا۔ جب یہ
کارروائی آگے بڑھے گی تو سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگوں کو کٹہرے میں لانا پڑے
گا اور بہت سے چہرے بے نقاب ہو جائیں گے۔ اس لئے ان تبصرہ نگاروں کا خیال
ہے کہ اس کارروائی کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔اس کے ساتھ ہی یہ بات کرنے
والے تو بہت ہیں کہ پرویز مشرف کا اصل جرم 12 اکتوبر 1999ء کی فوجی بغاوت
ہے اور اسی الزام میں اس پر مقدمہ چلنا چائے۔ 2007ء میں ہونے والے اقدامات
تو اس اصل جرم کے سائے میں ہی کئے گئے تھے۔ اس حوالے سے یہ لوگ اس دلیل کو
مسترد کرتے ہیں کہ 12 اکتوبر 1999ء کے اقدامات کو اس وقت کی سپریم کورٹ کے
علاوہ بعد میں منتخب ہونے والی قومی اسمبلی بھی منظور کر چکی ہے۔البتہ
اٹارنی جنرل منیر اے ملک کا مؤقف ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف 3 نومبر 2007ء
کی ایمرجنسی کے حوالے سے ٹھوس ثبوت موجود ہیں اور انہیں بڑی آسانی سے بہت
جلد سزا دلوائی جا سکے گی۔ اس کے مقابلے میں کئی فوجی حکمرانوں کے مشیر
قانون اور ملک کے سینئر ترین وکیل شریف الدین پیرزادہ نے ایک انٹرویو میں
قرار دیا ہے کہ پرویز مشرف پر یہ جرم ثابت ہی نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے
یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر انہیں اس مقدمہ میں وکالت کے لئے کہا گیا تو وہ
پرویز مشرف کا ضرور دفاع کریں گے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ انرجی بحران ، بیروزگاری ، مہنگائی اور دہشت گردی کی
ماری قوم کو شاید تماشے ہی بہلا سکتے ہیں۔ جیسا کہ سانحہ راولپنڈی اورپشاور
میں ڈرائیوروں پر تشدد کرنے والے تحریک انصاف کے 40 کارکنوں کے خلاف مقدمات
سمیت دیگر واقعات شامل ہیں۔ |